بیوی کی ناگہانی موت نے اسلم کو توڑ کر رکھ دیا۔ پانچ سالوں کی ازدواجی زندگی کی خوشحالی اچانک درودیوار کی ہولناکی میں تبدیل ہوگئی۔ جہاں کل تک ہر سو خوشیاں تھیں، آج ماتمی سناٹا۔ چار سال کی بیٹی حبیبہ بھی کمہلا سی گئی۔ اسلم کے لیے اب وہی پوری کائنات تھی۔ اس کی پرورش کی ساری ذمہ داری اسی پر آپڑی۔ سرکاری ملازمت میں ہونے کی وجہ سے وقت کی کمی بھی نہ تھی مگر اسے وہ دوست احباب کے درمیان خوش گپیوں میں بتانے کا عادی تھا۔ دفتر سے واپسی کے بعد وہ ہاتھ منھ دھوکر اکثر یار دوستوں کی محفلوں میں جابیٹھتا۔ گھریلو جواب دہی سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا، اس کی بیوی امورِ خانہ داری میں مہارت رکھتی تھی، تو بھلا اس کو کیا فکر ہوتی۔ یہاں تک کہ حبیبہ کی پرورش میں اس کا حصہ برائے نام تھا۔
اسلم اپنے تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ایک حویلی نما موروثی مکان کے الگ الگ حصے تینوں نے آپس میںبانٹ لیے تھے۔ اس طرح رہنا تو ساتھ ہی تھا مگر سبھی اپنی زندگی بغیر کسی اشتراک کے جی رہے تھے۔ بیوی کی موت کے بعد بھائی اور بھاوجوں نے ہر طرح سے تعاون دیا۔ منجھلے بھائی کی بیٹی پنکی، حبیبہ کی ہم عمر تھی اس لیے اس بچی کے لیے کچھ آسانی تھی، البتہ بھابھی کا مزاج ذرا الگ تھا۔ آزاد خیال واقع ہوئی تھیں وہ۔ ان کی بیٹی پنکی اپنی ماں پر گئی تھی اور حبیبہ تو بن ماں کی بیٹی تھی۔ اسلم اس پر والد کا پیار لٹا تو سکتا تھا مگر ماں کی محبت کی خواہش حبیبہ کی آنکھوں میں آنسو بن کر اکثر پلکوں پہ ٹھہر جاتی۔ ایسے میں اسلم خود کوتنہا و بے بس پاتا۔
سرکاری ملازمت اور شریف گھرانے کا چشم و چراغ ہونے کی وجہ سے اسلم کے لیے نکاحِ ثانی کے پیغامات آنے شروع ہوئے۔ بھائیوں نے بھی سمجھایا، لیکن وہ اپنی بچی کے لیے سوتیلی ماں کے تصور سے خوف زدہ ہوجاتا۔ ان کی اپنی بیٹی حبیبہ کی اتنی فکر ستانے لگتی کہ وہ اپنی باقی زندگی یوں ہی گزار دینے کی سوچنے لگتا۔ ادھر اب پنکی کی دیکھا دیکھی حبیبہ بھی نئی نئی فرمائشیں کرنے لگی تھی۔ اسے اسلم خوش دلی سے پورا تو کرتا مگر دل میں ایک وسوسہ اٹھنے لگتا کہ اس کی یہ عادت کہیں مستقبل میں نقصان نہ پہنچائے۔دیکھتے ہی دیکھتے چار سال بیت گئے اور حبیبہ عمر کی اس دہلیز پر آپہنچی جہاں گھر میں تربیت کی خاص ضرورت ہوتی ہے۔ اسلم بیگ بھی اب تنہائی سے اوبنے لگا تھا اور بھاوجوں نے بھی روز کچھ نہ کچھ حبیبہ کی شکایتیں کرنی شروع کردی تھیں۔ وہ دن بھر آفس کی مصروفیات کے بعد گھر لوٹتا تو تھکان کے مارے کچھ کرنے کی خواہش نہیں ہوتی۔ اب اکثر وہ تھکا ہونے کا ذکر کرکے بستر پر دراز ہوجاتا۔ آخر کار اسلم بیگ نے باقی ماندہ زندگی کے لیے شریکِ سفر کا فیصلہ کر ہی لیا۔ جب ستّر، اسّی سال کے ضعیف تیسری شادی رچانے سے باز نہیں آتے تو بھلا اسلم بیگ کی عمر ہی کیا تھی۔ ابھی تو اس کا اکتالیسواں سال ہی چل رہا تھا۔
سبیلہ کے ہاتھوں کی مہندی کا رنگ ابھی نکھرا ہوا ہی تھا کہ اس نے گھر کی ذمہ داری اٹھالی۔ وہ کرتی بھی کیا، کب تک عروسی جوڑے میں مہمان بنی رہتی۔ وہ جانتی تھی کہ گھر میں شوہر اور آٹھ سال کی بچی کے علاوہ کوئی نہیں۔ اس لیے اس نے کچھ تو مجبوری میں اور کچھ اپنی عادت کے مطابق خانہ داری کو سنبھال لیا۔
سبیلہ کے آنے سے چند دنوں تک حبیبہ خوش رہی۔ نئی امی، نئی امی بولتی ہوئی آگے پیچھے لگی رہتی۔ مگر جلد ہی سبیلہ نے اس کی پڑھائی لکھائی اور رہن سہن پر نگاہِ خاص رکھنا شروع کیا۔ پھر کیا تھا ’آنگن میں سے سوتیلی ماں ہے‘ الزامات کی صدا آنے لگی۔ لیکن سبیلہ تھی دوسری مٹی کی بنی ہوئی۔ اس نے خوش دلی سے حبیبہ کی تربیت اور تعلیم کو جاری رکھا۔ اس کی دشواری میں اور اضافہ ہوا جب پنکی نے حبیبہ کو اس کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ اسلم بیگ نے اس کے مشورے پر آنگن میں دیوار کھینچ دی۔ اب سبیلہ کے لیے آسانی تھی۔ ورنہ پنکی کے بہانے آنگن میں فیشن زدہ نئی نئی لڑکیوں کو دیکھ کر من ہی من کڑھتی رہتی تھی۔ حبیبہ بھی یہی سب چاہتی تھی۔ اوپر سے پنکی کے طرزِ رہائش کا اثر، سبیلہ کو ہر پل بیٹی کا خیال رہتا تھا۔ مگر اس کی خواہش اور کوشش ’سوتیلی ماں ہے نا‘، ’آہ بیچاری بن ماں کی بچی‘، ’ہائے اپنی ماں ہوتی تو…‘ وغیرہ جملے سے لمحہ بھر کے لیے اثر انداز ہونے لگتی مگر دوسرے ہی پل دوہرے عزم و ارادے کے ساتھ حبیبہ کا مستقبل سنوارنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہوجاتی۔
حبیبہ نے ابتدا میں اپنی ناراضگی دکھائی۔ اس کو پنکی اور اس کی ماں سے حوصلہ بھی ملا۔ مگر نہ تو سبیلہ نے اس کی بے جا فرمائشوں اور خواہشوں کو پروان چڑھنے دیا اور نہ ہی اسلم بیگ نے اس طرح کی تمناؤں کو سراہا۔ آخر کار حبیبہ نے خاموشی اختیار کرلی۔ اس نے جلد ہی یہ سمجھ لیا کہ اس گھر میں اس کی نئی ماں جو چاہے گی وہی ہوگا۔ اس نے سپر ڈال دی اور چار و ناچار سبیلہ کی منشا کے مطابق چلنے لگی۔ شادی کے دو برس بعد حبیبہ کا بھائی اور سبیلہ کا بیٹا آنگن میں کلکاریاں بھرنے لگا۔ سبیلہ کی مصروفیت بڑھ گئی لیکن اس نے حبیبہ کی جانب سے بے توجہی نہیں برتی۔ اب وہ دسویں میں تھی۔ اس کے لیے ٹیوشن کا انتظام گھر پر کرایا، حالانکہ وہ پنکی کے ساتھ کوچنگ جانا چاہتی تھی۔ ایک دفعہ اسلم نے بھی اسے کوچنگ کے بارے میں کہا تھا مگر سبیلہ نے چند سو روپئے بچانے والی اس ترکیب کو سختی سے مسترد کردیا تھا۔ پنکی کا کوچنگ جانا اور وہاں کی روداد، ہم جماعت لڑکوں کے قصے وہ اکثر آکر حبیبہ کو سناتی۔ حبیبہ پر اس کا کیا اثر ہوتا یہ تو سبیلہ نہیں جان پاتی مگر جب تک پنکی اس کے پاس ہوتی وہ بے چین رہتی اور اکثر کسی نہ کسی بہانے ان دونوں کے پاس آتی جاتی رہتی۔ امتحانات کی تیاری کے سلسلے میں وہ رات گئے حبیبہ کے کمرے میں ہی چھوٹے موٹے کام کرتی رہتی اور اس کو پڑھائی میں مصروف رکھتی۔ یہا ںتک اس کے ٹیچر سے اس کے پرچوں کی تیاری کے بارے میں پوچھتی رہتی۔
ایک شام وہ حبیبہ کے کمرے میں بیٹھی باتیں کررہی تھی کہ پنکی کی ماں آپہنچی۔وہ پنکی کو تلاش کرتی ہوئی آئی تھی جو کوچنگ کے لیے نکلنے کے بعد اب تک گھر واپس نہیں آسکی تھی۔ سبیلہ پریشان ہو اٹھی۔ لیکن پنکی کی ماں نے بغیر کسی فکر مندی کے اس کو یہ کہہ کر حیرت میں ڈال دیا کہ ’کسی دوسری سہیلی کے یہاں چلی گئی ہوگی۔‘ کافی رات گئے گھر لوٹی تھی وہ ۔ پنکی کے آنے کی آہٹ سن کر ہی اس رات سبیلہ کو نیند آسکی۔
حبیبہ کا بورڈ امتحان بہت اچھا گیا تھا۔ اس کے باوجود وہ خاموش خاموش سی رہتی تھی۔ جبکہ پنکی نے ہر جگہ اسکول میں اس دفعہ فرسٹ پوزیشن آنے کا مژدہ سنارکھا تھا۔ پنکی سے وابستہ کئی باتیں اب گھر سے باہر سنائی دینے لگی تھیں۔ اسلم بیگ نے پنکی کے بارے میں بتاتے ہوئے سبیلہ سے افسوس کا اظہار بھی کیا تھا۔ سبیلہ نے آزادی کے نام پر بے راہ روی کو بڑھاوا دینا اس کی وجہ بتایا اور حبیبہ کی تعریف کی تھی۔ اسلم بیگ نے زمانے کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی بیٹی کے لیے فکرمندی ظاہر کی۔ سبیلہ نے مسکراتے ہوئے اپنی بیٹی پر بھروسہ رکھنے کا ذکر کیا۔
دسویں بورڈ کا رزلٹ آیا۔ پنکی پاس نہیں کرسکی جبکہ حبیبہ نے پورے ضلع میں ٹاپ کیا۔ سبیلہ سے اخبار دیکھتے ہی سجدئہ شکر ادا کیا اور دیر تک اللہ سے اس کی سلامتی اور تعلیم کی دعا کرتی رہی۔ رزلٹ دیکھ کر حبیبہ کی آنکھ ڈبڈبا گئی۔ اس کے بعد وہ سبیلہ نے نظریں چرانے لگی۔ اسکول نے حبیبہ کے اعزاز میں شاندار پروگرام کا انعقاد کیا۔ اسلم بیگ اور سبیلہ اس موقع پر بیٹی کے ساتھ تھے۔ پرنسپل نے حبیبہ کو یادگاری تمغہ دیتے ہوئے اپنے جذبات اختصار کے ساتھ بیان کرنے کو کہا۔ حبیبہ کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ کچھ دیر وہ یونہی تمغہ لیے اپنے والدین کو دیکھتی رہی پھر گویا ہوئی۔
’’مجھے یہ تمغہ میری وجہ سے نہیں بلکہ میری ماں کی وجہ سے ملا ہے۔ سب نے انہیں سوتیلی ماں سمجھا مگر انھوں نے مجھے زمانے کی تمام برائیوں سے روکا، میری تربیت کے لیے طعنے سنیں، دنیا کی پرواہ کیے بغیر زندگی کی تیز دھوپ میں میرے سر پر ممتا کا آنچل رکھا۔ میں آج شرمندہ ہوں کہ ایک بیٹی کی طرح ان کی قدر نہ کرسکی۔ مگر میںبہت خوش ہوں کہ وہ میری ماں ہیں۔‘‘
سبیلہ نے اپنا سر اسلم بیگ کے کاندھے پر رکھ دیا۔ اس کی آنکھیں نم ہوگئیںاور رقت آمیز لہجے میں اسلم سے بولی: ’’دیکھئے تو سہی ہماری بیٹی کتنی بڑی ہوگئی۔‘‘