عاصم! مجھے حامدہ آنٹی کے گھر چھوڑ آئیں، ایمن کو بھی میں اپنے ساتھ لے کر جارہی ہوں اور امی ابو کہاں ہیں؟ وہ کمرے میں آرام کررہے ہیں۔ تین گھنٹے کے بعد آپ مجھے آکر لے جائیے گا۔ ’’اچھا !میں ابھی بائیک نکالتا ہوں تم ایمن کو لے آؤ۔‘‘ عاصم باہر چلا گیا تو آمنہ نے ایمن کو آواز دی۔ ایمن کہاں ہو؟ تمہارے ابو باہر انتظار کررہے ہیں ایمن نے پیاری سی آواز میں جواب دیا ’’آئی امی جان!‘‘آمنہ نے ایمن کا ہاتھ پکڑا اور باہر آگئی۔ عاصم باہر دونوں کا منتظر تھا۔ ’’ارے بھئی اتنی دیر کہاں کردی؟‘‘آپ کی بیٹی نے دیر کی ہے۔ میں تو تیار تھی۔اچھا اب جلدی کرو۔ آمنہ نے ایمن کو گود میں پکڑا اور بائیک پر بیٹھ گئی جلد ہی وہ حامدہ آنٹی کے گھر پہنچ گئے۔ السلام علیکم! آمنہ نے سلام کیا تو کمرے میں بیٹھی خواتین نے اس کے سلام کا جواب دیا اور وہ ان سب کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ ننھی ایمن بھی اپنی ماں کے ساتھ بیٹھ گئی۔
عاصم تین گھنٹے بعد آمنہ کو لے آیا۔ عاصم کی والدہ صائمہ بیگم کچن میں کھڑی چائے بنا رہی تھیں۔ آمنہ سیدھی کچن میں گئی اور چائے کے ساتھ پکوڑے بناکر سب کے لیے دسترخوان پر لگادئیے۔ صائمہ بیگم نے آمنہ سے پروگرام کے بارے میں پوچھا تو اس نے ساری تفصیل سے انہیں آگاہ کیا۔ امی سب آپ کے شدت سے منتظر ہیں اور آپ کی شفایابی کے لیے دعا گو بھی۔ آمنہ کی نند جویریہ قریب ہی بیٹھی تھی۔ جویریہ سے آمنہ نے کہا کہ بھئی اب آپ کب تک نکہت کو انتظار کروائیں گی۔ تمام ساتھی بہنیں تمہیں بہت یاد کررہی تھیں اور نرگس نے کہا ہے کہ کالج کی پڑھائی تو ساتھ ساتھ ہی چلے گی۔ اب پروگرام میں شرکت شروع کردیں۔ جب اللہ کی راہ میں لگو گی تو خود بخود دنیا کی راہیں بھی آسان ہوجائیں گی۔ عاصم نے ایمن سے کہا کہ بھئی ان سب کی تو ساتھی ان کو بلارہی ہیں۔ تمہاری کتنی ساتھی بن گئیں۔ ایمن نے کہا ابو وہ بچوں کے لیے بھی پروگرام ہوتے ہیں اور انھوں نے مجھے بچوں کی کہانیوں کی کتاب دی ہے جس میں اچھے اچھے واقعات ہیں واہ بھئی تو تم نے بھی پیر جمانے شروع کردئے۔
کل عاصم کی کزن کی شادی تھی۔ سب پہلے ہی سے عمر کے گھر موجود تھے۔ آمنہ کو وہاں اپنی دوست منیرہ مل گئی۔ دونوں ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش تھیں۔ آمنہ نے منیرہ کو اپنے گھر والوں سے ملوایا۔ منیرہ سب سے مل کر بہت خوش ہوئی لیکن جب آمنہ نے اس کے گھر کا ایڈریس اور فون نمبر مانگا تو وہ خاموش ہوگئی۔ آمنہ کے پوچھنے پر منیرہ نے بتایا ’’تمہاری زندگی تو اچھی گزررہی ہے لیکن میرے سسرال والے بڑے عجیب ہیں۔ اور میری ساس کا تو مت پوچھو۔‘‘ آمنہ خاموشی سے اس کی بات سن رہی تھی۔ بات ختم ہونے پر منیرہ سے کہا کہ تم مجھے ایڈریس دو پھر تمہارے گھر آکر بات ہوگی۔ آمنہ نے ایڈریس نوٹ کیا اور منیرہ کو سلام کرکے واپس لوٹ آئی۔ گھر آکر بھی وہ منیرہ ہی کے متعلق سوچنے لگی کہ اس خرابی میں اس کا بھی یقینا کوئی نہ کوئی ہاتھ ضرور ہوگا۔ پھر اس نے فیصلہ کیا کہ جلد ہی منیرہ کے گھر جاکر صورتحال سے آگاہی حاصل کرے گی۔
اگلے دن آمنہ نے عاصم سے کہا کہ وہ منیرہ سے ملنے جانا چاہتی ہے تو عاصم نے اجازت دے دی۔ آمنہ اپنی امی (ساس) کو ساتھ لے کر منیرہ کے گھر پہنچی۔ منیرہ کی ساس نے گھر کا دروازہ کھولا اور ان کو کمرے میں لے آئیں۔ آمنہ کو گھر کی گندگی دیکھ کر عجیب سا محسوس ہوا۔ آمنہ نے اپنا تعارف کروایا اور منیرہ کو پوچھا تو ان کی ساس نے کہا کہ وہ پڑوس میں گئی ہوئی ہے۔ ابھی بلاتی ہوں۔
انھوں نے بچے کو بلانے کے لیے بھیج دیا اور خود وہ آمنہ اور صائمہ بیگم سے باتوں میں مشغول ہوگئیں کہ تم کتنی اچھی ہو اپنی ساس کو ساتھ لے کر آئی ہو میری بہو تو مجھ سے بات کرنا تک گوارا نہیں کرتی۔ بس کام چھوڑ کر پڑوس میں جابیٹھتی ہے۔ اتنے میں منیرہ آگئی اور بہت خوش ہوئی اور آمنہ سے باتوں میں لگ گئی۔ تھوڑی دیر بعد منیرہ آمنہ کو لے کر اپنے کمرے میں آگئی اور کہا کہ میری ساس کا حال یہ ہے کہ کوئی آجائے تو ہلتی ہی نہیں اپنی جگہ سے۔ یہ نہیں ہوتا کہ مہمان کے لیے چائے بنالائے آخر میں بھی تو ان کے رشتہ داروں کو پکا کر کھلاتی ہوں۔ آمنہ نے منیرہ کو ٹوکا اور کہا کہ ایسا نہیں کہتے اور پھر ساس تو ماں کے برابر درجہ رکھتی ہے۔ جب تم ان کی عزت کروگی تو وہ تمہارا بھی خیال رکھیں گی۔ میں نے بھی ان کو یہی سمجھایا تھا لیکن ان کو میرے کام میں نقص نظر آتے ہیں۔ آمنہ ابھی کچھ سوچ ہی رہی تھی کہ منیرہ نے پوچھا تم اس طرح کیسے رہتی ہو؟ آمنہ اس کے سوال پر چونک پڑی مگر اچانک ہی اس کے ذہن میں ایک بہترین جواب آگیا۔ دیکھو منیرہ ہم سب کا معاملہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلاتے ہیں مگر اپنی بھول جاتے ہیں۔ ہم حقوق کی بات کرتے ہیں مگر اپنے فرائض سے غافل رہتے ہیں اور اسلام ہمیں یہی تو سکھاتا ہے۔ قرآن پاک میں ساس سسر کو ماں باپ کا درجہ دیا گیا ہے۔ جب ایک لڑکی شادی سے پہلے اپنے ماں باپ اور گھر والوں سے محبت کرتی ہے اور ان کی ہر چیز کا خیال رکھتی ہے تو پھر شادی کے بعد یہ رویہ کیونکر بدل جاتا ہے۔ میں ہمیشہ اپنی ساس کا خیال رکھتی ہوں اور وہ بھی مجھے چاہتی ہیں۔ لیکن منیرہ ایسا کرنے سے بھی شاید حالات بہتر نہ ہوں کیونکہ اگر میں اور امی (ساس) دونوں ہی اپنی اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے واقف نہ ہوتے تو شاید آج ہمارا گھر بھی غیبت و بہتان اور فساد کا شکار ہوتا۔ اصل میں یہ برکات تو اسلام کی ہیں۔ انہیں کے سبب انسان محبت و دوستی کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ میرے گھر کی بہتری کا راز بھی اسلام ہی میں پوشیدہ ہے۔ اور اگر تم بھی دین اسلام سے اپنا تعلق مضبوط کرلو تو ان جھگڑوں سے بچ جاؤ گی۔ آمنہ منیرہ کو لے کر آنٹی کے پاس آگئی اور پھر ان دونوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ اور حامدہ آپا نے بہترین کتابوں کا انمول تحفہ ان کی نظر کیا۔