نئے ٹیچر کے ہاتھوں ہونے والی اپنی بے عزتی پر اسے غصہ تو بہت تھا، مگر وہ فی الحال عمر کے علاوہ اور کچھ نہیںسوچنا چاہتی تھی۔ اس کے بورڈ کے امتحانات اسے اپنے امتحان سے زیادہ اہمیت کے حامل لگ رہے تھے۔
کچھ اپنی کوتاہی کا احساس اور کچھ حسین کی باتوں کا اثر تھا کہ وہ عمر پر بھرپور توجہ دینے لگی تھی۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ اب علی کے بارے میں سوچنے کا اسے موقع نہ ملتا۔
یحییٰ کی باتوں کے زیرِ اثر عمر بھی ضحی کو خوش رکھنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔
’’آپی! کھانا کھانے چلیں؟‘‘وہ خوشگوار لہجے میں کہتا ہوا اس کے کمرے میں جھانکتا۔
’’ضرور… مابدولت کو بھوک لگی ہے۔‘‘
جواباً وہ بھی اپنا موڈ بدلنے کی دانستہ سعی کرتی۔ اور عمر کو اس طرح اپنا خیال رکھتے دیکھ کر احساسِ شرمندگی مزید بڑھ جاتا کہ وہ چھوٹا ہوکر بڑوں کی طرح اس کا دھیان رکھ رہا تھا… اور وہ…
٭٭
’’مس ضحی وہاٹ از اٹ…‘‘ یحییٰ نے اس کے ڈیسک پر اسائنمنٹ پھینکا۔
کس قدر غلطیاں ہیں اس میں… اور یہ (تنقید) آپ نے پڑھا بھی ہے یا نہیں؟ سارے پوائنٹ الٹے سیدھے لکھ مارے ہیں۔‘‘ اس کا پارہ بے حد چڑھا ہوا تھا۔
آپ کا اسائنمنٹ دیکھ کر تو یوں محسوس ہورہا ہے کہ گویا تیاری کے لیے ابھی آپ کے پاس پورا ایک سال ہے۔ ہوش میں آجائیے محترمہ اگلے ماہ کی ۲۳؍تاریخ سے آپ کے امتحانات شروع ہورہے ہیں۔ اور تیاری کے لیے وقت کم ہی نہیں بہت کم ہے۔
وہ خفت زدہ چہرہ لیے اس کی ڈانٹ پھٹکار سنتی رہی۔ یحییٰ سر کے انداز سے تو لگ رہا تھا انھیں اس سے کوئی پرخاش ہے۔ مریم جویریہ وغیرہ کو بھی سر کا اس طرح بھری کلاس میں ضحی کو ڈانٹنا کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
وہ لوگ ضحی کے سامنے سر کی اس قدر تعریف کرچکے تھے ، جب کہ اس کا تجربہ برعکس تھا۔ وہ تو پہلے دن سے ہی ان کی بات بے بات ڈانٹ سن رہی تھی۔ پچھلے ٹیسٹ میں بھی ضحی نے کم مارکس لیے تھے، تب بھی سر نے اسے بہت باتیں سنائی تھیں۔
سر کا ضحی کو یوں روزانہ لتاڑنا ان سبھی کو دکھی کررہا تھا۔ ان لوگوں کو حیرت تھی کہ ہر وقت مسکراتے رہنے والے اور نرمی و شفقت سے پیش آنے والے سر ضحی کی ذرا سی غلطی پر اتنے برہم کیوں ہورہے تھے۔ حالانکہ وہ اس سے قبل ضحی کے متعلق انھیں بتاچکی تھی مگر سر شاید بھول گئے تھے اور اب انھیں یاد دلانے کے ساتھ ان کے رویے کا احساس کرانے کی بھی ضرورت تھی۔
جویریہ کو اپنے امتحانات فارم پر یحییٰ سر کے سائن چاہیے تھے اور اسی لیے وہ اس کے ساتھ جینٹس اسٹاف روم میں آئی تھیں۔ اور یحییٰ سر نے پھر ضحی کی لاپرواہی کا تذکرہ چھیڑ دیا تھا۔
’’سر! ہم نے ضحی کے ساتھ ہوئی ٹریجڈی کے متعلق آپ کو بتایا تھا۔‘‘ مریم ہمت کرکے بولنے کی کوشش کررہی تھی کہ سر نے اس کا جملہ اچک لیا۔
’’ٹریجڈی‘‘ ذرا پوچھئے ان سے کہ کیا وہ اس واقعہ کو ٹریجڈی مانتی ہیں۔‘‘
اس نے ضحی کی طرف اشارہ کیا۔ ضحی خود کویوں موضوع بنتے دیکھ کر کڑھ رہی تھی۔ اسے مریم پر بھی غصہ آرہا تھا۔ آخر بات کو بڑھانے کی ضرورت کیا تھی۔ وہ تلملاتی جلتی کلستی رہی۔
’’لیکن سر ایسا ناگہانی واقعہ … انسان کو دکھ سے سنبھلنے کے لیے وقت بہرحال درکار ہوتا ہے۔‘‘
مریم نے اس پر ضحی کی کیفیت واضح کرنے کی کوشش کی۔ ضحی جز بز ہوگئی۔
’’کیسا دکھ…؟ کیسا غم…؟ ‘‘ یحییٰ نے سلگتے لہجے میں کہا ’’مس مریم اگر کوئی ان کے بھائی کے انتقال کے لیے ’’موت‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے تو یہ آتش فشاں بن جاتی ہیں۔ اس وقت ان کااشتعال دیکھنے والا ہوتا ہے کہ وہ مرا نہیں زندہ ہے… پھر دکھ وغم چہ معنی دارد۔ دوسری طرف اسی ’’موت‘‘ کی وجہ سے رنج و غم کی تصویر بن جاتی ہیں۔ اور اس کا اتنا اثر قبول کرتی ہیں کہ اپنا تعلیمی کریئر بھی اس حادثہ کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں۔
’’قول و فعل کا یہ تضاد میری سمجھ سے تو بالاتر ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ مس ضحی دل سے وہی مانتی ہیں جس کی زبان سے نفی کرتی ہیں۔‘‘
ضحی نے تڑپ کر اسے دیکھا۔ یہ کیسے کیسے الزام اس پر لگ رہے تھے۔ اس کی نگاہیں جھلملا گئیں۔
’’سر… یہ بات نہیں ہے۔‘‘ مریم کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ کس طرح ضحی کی پوزیشن کلئیر کرے۔
’’یہی بات ہے…‘‘ وہ سر ہلا کر بولا ’’مجھے افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ تحریک سے وابستگی کا لیبل اپنے ماتھے پر سجائے پھرتی ہیں لیکن تحریکی افراد کا رویہ اس طرح شدت پسندانہ نہیںہوتا۔ حضرت خولہؓ کا واقعہ آپ جانتی ہیں …اور حضرت خنساءؓ کو ساری دنیا جانتی ہے کہ اسلام سے قبل وہ اپنے بھائی کی موت پر صدمے سے نیم دیوانی ہوگئیں تھیں اور ایسے ایسے مرثیے ان کی یاد میں لکھے کہ پڑھنے والے بھی رو پڑتے… لیکن اسلام نے انھیں کیسا صبر و اطمینان دیا تھا کہ جنگِ قادسیہ میں انھوں نے خود اپنے چار جگر گوشوں کے سر پر کفن باندھ کر اللہ کی راہ میں قربان ہونے کے لیے بھیج دیا تھا۔ اور اف تک نہیں کی تھی۔ لیکن مس ضحی نے تو شاید ابھی مکمل طور پر اسلام قبول ہی نہیں کیا۔‘‘
دھڑ دھڑ… دھڑام…
کالج کی عمارت کی ایک ایک اینٹ گویا اس پر آگری تھی…ایسے پتھر جیسے الفاظ کو سہنے کا حوصلہ وہ کہاں سے لاتی…
اپنی سسکیوں کو دبانے کی بھرپور کوشش کے باوجود وہ اپنا سارا ضبط کھوبیٹھی تھی۔
٭٭
پھر سب کچھ بہت تیزی سے بدلا تھا۔
سب نے عمر وضحی میں ایک واضح تبدیلی محسوس کی تھی۔
گو حسن اب بھی عمر کی پڑھائی میں مدد دیتا تھا۔ لیکن اب اسے بار بار توجہ دینے کو نہیں کہنا پڑتا تھا۔ ویسے تو وہ اور علی اپنی ساری پڑھائی کامن ٹیسٹ کے وقت ہی مکمل کرچکے تھے۔ لیکن علی کے بعد اس نے اپنے کورس کا اعادہ نہیں کیا تھا۔ مگر اب حسن کے بار بار شوق دلانے پر وہ خود میں ایک اعتماد اور حوصلہ محسوس کررہا تھا۔ جب کبھی وہ اپ سیٹ ہوکر ٹوٹنے لگتا حسن محبت سے اسے سمیٹ لیتا تھا۔
’’فائنل ایگزام میں تمھیں ہی ٹاپ کرنا ہے۔‘‘ وہ بار بار اسے باور کراتا تھا۔
اور اسے بھی سب کی آنکھوں میں یہی امید نظر آتی۔
اور وہ ان دیوں کی جوت کو بجھنے نہیں دینا چاہتا تھا۔
اور ضحی کی کایا پلٹ پر تو سب حیران تھے۔
عمر کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی اسٹڈی پر بھی توجہ دینی شروع کردی تھی۔ کچن سے تو بھابی اور امی نے اسے مکمل طور پر چھٹی دے دی تھی۔ جو کبھی بوریت ہوتی تو ننھے ابوبکر کے ساتھ کھیل بھی لیتی تھی۔ لیکن اس تبدیلی کی اصل وجہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ یحییٰ سر یوں تو ہمیشہ ہی اس پر گرجتے برستے تھے لیکن اس دن تو حد ہی ہوگئی تھی۔
پچھلے ٹیسٹ میںبھی ضحی نے حسبِ استطاعت مارکس لیے تھے۔ اس کی پڑھائی جو نہیں ہوئی تھی، لیکن سر بالکل ہی ہتھے سے اکھڑ جائیں گے، یہ اس نے نہیں سوچا تھا۔ قصور اپنا تھا، اس لیے وہ ان کی ساری کھری کھوٹی سنتی رہی۔ سر از حد چراغ پا ہورہے تھے۔ اور وہ ان کا غصہ بالکل جائز سمجھ کر سر جھکائے کھڑی تھی۔ لیکن سر کی ایک بات نے اسے سر سے پاؤں تک جھلسا دیا تھا۔
’’فرسٹ ایئر میں ۵۵؍اسٹوڈنٹس ہیں … اور سب کی تیاری قابلِ تعریف و اطمینان بخش ہے۔ میں نے پرنسپل کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ میں انھیں سو فیصد رزلٹ دوں گا… اور میں یہ ہرگز برادشت نہیں کروں گا مس ضحی کہ آپ کی صرف آپ کی وجہ سے رزلٹ خراب ہو۔ انڈر اسٹینڈ۔‘‘
گویا اب اس کی اتنی ہی اوقات رہ گئی تھی کہ بارہویں میں ۸۲؍پرسنٹ لانے والی طالبہ فرسٹ ایئر کے رزلٹ کے لیے خطرہ بن گئی تھی۔ اسے بار بار سر کی انگارہ آنکھیں یاد آتیں۔
سخت غم و غصہ کے عالم میں اس نے اپنی ساری توجہ ان کتابوں کی طرف کردی جو عرصے سے ٹیبل پر پڑی دھول چاٹ رہی تھیں اور اپنی ناقدری کا ماتم کررہی تھیں۔
٭٭
یحییٰ کالج سے آنے کے بعد کچن میں بیٹھا لنچ کررہا تھا۔ شاہدہ بانو خلافِ معمول آج چپ چپ تھیں۔ یحییٰ کافی دیر سے ان کی غیر معمولی خاموشی کا نوٹس لے رہا تھا۔
’’امی… آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں… کیا بات ہے؟‘‘
اس نے تو فکر مندی سے ہی پوچھا تھا، لیکن جواباً وہ پھٹ پڑیں۔
’’تمہیں اس سے کیا … ہماری پریشانی جان کر کونسا تم اسے دور کردو گے۔‘‘ نوالہ منہ کی طرف لے جاتا وہ یک دم ٹھٹک کر انھیں دیکھنے لگا ۔ کتنی بے گانگی اور اجنبیت تھی ان کے لہجے میں۔
یحییٰ نے چند لمحے رک کر غور کیا۔ لیکن اسے حال میں کی گئی کوئی ایسی حرکت یاد نہ آئی جس کی وجہ سے امّی ناراض ہوتیں۔
’’کیا بات ہے آپ مجھ سے خفا ہیں کیا…‘‘ وہ نرمی و عاجزی سے پوچھ رہا تھا۔
’’میں بھلا کیوں خفا ہونے لگی۔ اولاد جو جوان ہوجائے تو والدین یہ حق کھودیتے ہیں۔‘‘ وہ ہنوز رخ موڑے ہوئے تھیں۔ ان کی بات پر وہ ہکا بکا ہوگیا۔
اس سے امی کی ناراضگی کہا ںبرداشت ہوتی تھی۔ اس نے پلیٹ میں لقمہ واپس رکھ دیا۔
’’کھانا کھاؤ‘‘
’’پہلے آپ بتائیے کہ…‘‘
’’میں نے کہا کھانا کھاؤ۔‘‘ وہ بھی اسی کی ماں تھیں سختی سے کہا تو وہ چپ چاپ بے دلی سے کھانے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ ہر اس ممکن بات کے بارے میں سوچنے لگا جو امی کو ناراض کرسکتی تھی۔
فی الحال ان کے پاس ہاٹ ایشو اس کی شادی کا ہی تھا۔ جب سے اس نے کالج جوائن کیا تھا، ان کی بس ایک ہی رٹ تھی، شادی کرلو۔ اور وہ شادی سے انکار کب کررہا تھا بس تھوڑا سا وقت مانگ رہاتھا۔ لیکن وہ تو ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہ رہی تھیں… دوسرا ٹاپک مسیرہ کے متعلق ہوسکتا تھا… (اف) وہ الرٹ ہوگیا… مسیرہ کا معاملہ بھی کب سے التوا میں پڑا تھا۔ اسے حسن سے اس کے متعلق بات کرنے کا موقع ہی نہیں مل پار ہا تھا۔ ابھی امتحانات کی وجہ سے یحییٰ خود بھی بہت مصروف تھا۔ حسن سے بہت مختصر سی ملاقات ہورہی تھی۔ ایسا کوئی فرصت کا وقت نہیں ملا تھا، جس میں وہ یہ موضوع چھیڑتا۔ اپنے طور پر تو وہ مسیرہ و حسن کی بات پکی کرچکا تھا۔ جب سے مسیرہ میڈیکل فیلڈ میں آئی تھی تب سے وہ حسن اور اسے ایک دوسرے کے شریکِ حیات کے روپ میں تصور کررہا تھا… (اللہ کرے ایسا ہوجائے) یہ صرف اس کی تمنا ہی نہیں دعا بھی تھی۔
’تو چل میں آیا‘ کے مصداق وہ نوالے لیتے ہوئے ذہن کے گھوڑوں کو بھی دوڑا رہا تھا۔ امی کے چہرے پر ناگواری اور بے زاری کے تاثرات پھیلے تھے۔
یحییٰ نے ذہن کے گھوڑوں کی رفتار اور بھی تیز کردی تھی۔ ان دونوں موضوعات کے علاوہ تیسری بات گھریلو امور مثلاً وہ بجلی کا بل ادا کرنا بھول گیا ہو، یا اسی قبیل کی کوئی اور بات … بے چاری امی کے پاس ان چند باتوں کے علاوہ اور کرنے کو تھا بھی کیا…؟
پچھلی دفعہ جب اس نے قطعیت سے شادی والا چیپٹر کلوز کیا تھا تو اب اسے یہ امید کم ہی تھی کہ امی اس کا تذکرہ بھی چھیڑتیں… لیکن اس کے کھانا ختم کرنے سے پہلے ہی وہ پھر اسی ذکر کو لے بیٹھیں تو اس کا اچھا بھلا موڈ خراب ہونے لگا۔ یوں لگتا تھا گویا اب ان کے پاس بات کرنے کو اس کے علاوہ کوئی موضوع ہی نہیں…… کوفت ، بیزاری اور اکتاہٹ اس پر ایک ساتھ حملہ آور ہوئے۔ اب بندہ اپنی بات زبان سے ہی سمجھا سکتا تھا۔ پھر یہ امی کی سمجھ میں معمولی سی بات کیوں نہیں آرہی تھی وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہونے لگا۔
پلیٹ سرکا کر وہ بہت آف موڈ کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر گیا تھا۔
برتن سمیٹتے ہوئے اس کی امی اندر ہی اندر اس کے اوپر پیچ و تاپ کھا رہی تھیں۔
’’یہ لڑکا تو کچھ سمجھنے کو تیار ہی نہیں … شادی کی بات نکلی نہیں کہ کنّی کترا کر نکل جاتا ہے… ٹھیک ہے آجائے عمارہ بھی … بڑی بہن کے داؤ پیچ کا مقابلہ کیسے کرتا ہے دیکھتی ہوں میں بھی۔‘‘
٭٭
اگلا دن بے حد خوشگوار تھا۔ یحییٰ کی بڑی بہن عمارہ کی دو بچوں سمیت آمد نے سارے گھر میں خوشی کی ایک لہر دوڑا دی تھی۔ دونوں بچے تو آتے ہی شعیب ماما سے لپٹ گئے تھے۔ اشمیرہ عمارہ بجّو کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سمارہی تھی تو مسکراہٹ بھی مسیرہ کے لبوں سے چپک گئی تھی۔ عمارہ نے اسے کافی دیر خود سے لپٹائے رکھا۔ اپنی یہ سنجیدہ اور پروقار سی بہن اسے بہت عزیز تھی۔
تینوں بہنیں سارا دن ہنستی مسکراتی رہیں۔ نئے نئے پکوان بنے خوب ساری باتیں ہوئیں۔ عمارہ نے اپنے مقام کا احوال بتایا۔ مسیرہ نے اپنی جاب کے مختصر عرصے میں ہونے والے قابلِ ذکر واقعات سنائے تو اشمیرہ کی زبان سے بھی کچھ نہ کچھ نکلتا رہا۔
رات کو جب اشمیرہ اور مسیرہ عشاء کے لیے کھڑی ہوئیں تو عمارہ اوپر یحییٰ کے کمرے میں چلی آئیں۔
بہن کی اتنے دنوں بعد آمد پر وہ بھی مسرور تھا۔ پہلے تو عمارہ نے اس کے خوب کان کھینچے کہ پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے اس نے بہن کی خبر کیوں نہیں لی۔ پھر اس موضوع کی طرف آگئیں جس کے لیے انھیں بطورِ خاص بلوایا گیا تھا۔
’’مجھے چاچی جی نے کل فون کیا تھا۔‘‘ گلا کھنکھار کر انھوں نے بات شروع کی۔
’’اچھا، کیا کہہ رہی تھیں…‘‘
’’وہ مسیرہ کے لیے بہت پریشان ہیں… بتارہی تھیں کہ ……‘‘
’’میرے ہوتے ہوئے انھیں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ عمارہ نے ماتھے پر بل ڈال کر اسے دیکھا۔ جبکہ وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
’’اشمیرہ اور مسیری میری بھی تو ذمہ داری ہیں۔ اصل میں بجّو اس میں میری بھی کوتاہی ہے پچھلے دنوں اتنی مصروفیت رہی کہ میں مسیرہ کے سلسلے میں کچھ کر ہی نہ سکا۔‘‘
’’تم اپنی مصروفیتوں کا رونا روتے رہو اور جب وقت ہاتھ سے نکل جائے تو پچھتانے کے لیے فرصت ہی فرصت ہوگی۔‘‘ وہ تلخی سے بول رہی تھیں
یحییٰ نے ان کے تلخ لہجے کو سن کر کچھ حیرانگی سے ان کی صورت دیکھی تھی لیکن وہ ناراضی سے اسے بتائے جارہی تھیں کہ مسیرہ کے لیے ایسے اونگے بونگے لوگ بھی رشتہ لانے لگے ہیں… اور چچا جان ہر رشتے پر غور وفکر کررہے ہیں… حد تو یہ ہے کہ تائی جی بھی اپنے نالائق اسجد کے لیے اشاروں میں چاچی جی سے کہہ چکی ہیں۔
یحییٰ خاموش سے ان کی ساری باتیں سن رہا تھا آنکھوں میں سوچ کی گہری پرچھائیاں تھیں۔
بجّو کے چہرے سے پریشانی ہویدا تھی۔ اداس لہجے میں بولیں:
’’تمہیں معلوم نہیں چاچی جی کتنی متفکر ہیں۔ انھوں نے بھرائی ہوئی آواز سے مجھے یہ کہانی سنائی تھی۔ انھوں نے ہمیں اولاد جیسی ہی محبت دی ہے، آج بڑے ہوکر کیا ہم ان کی پریشانی دور نہیں کرسکتے؟ انھوں نے تو تمھیں ہمیشہ ہی داماد کے روپ میں دیکھا ہے مگر تمہارے سر میں نہ جانے کیا سودا سمایا ہے…‘‘
آخر تم بتاتے کیوں نہیں کہ تم نے آخر سوچا کیا ہے۔ تمہارے اس فیصلے کے پیچھے یقینا کوئی ٹھوس وجہ ہوگی۔ پھر تم ہمیں مطمئن کیوں نہیں کردیتے… خوامخواہ امی کو بھی ناراض کررہے ہو۔ اپنا غصہ دبائے وہ اپنی آواز کو بلند ہونے سے روک رہی تھیں۔ جب سے اس نے مسیرہ سے شادی کے لیے انکار کیا تھا، وہ اس سے ناراض رہنے لگی تھی۔ اور آج وہ اس سے جواب لینے کا مصمم ارادہ کرچکی تھیں۔
’’بہت ساری وجوہ ہیں…‘‘ اس نے کندھے اچکائے۔
’’میں سب سننا چاہوں گی۔‘‘ وہ اطمینان سے بولیں۔
’’اپنا شریکِ زندگی چننے کا حق ہر انسان کو ہے تو خوامخواہ اس پر دباؤ ڈالنے کا مطلب… مسیرہ ایک کامیاب ڈاکٹر ہے اور ڈاکٹرز عموماً یہ چاہتے ہیں کہ ان کا لائف پارٹنر بھی ڈاکٹر ہو۔ اگر مسیرہ ایسا چاہتی ہے تو اس میں غلط کیا ہے۔‘‘
’’لیکن مسیرہ تو ایسا نہیں چاہتی۔‘‘ انھوں نے اس کی بات کاٹی۔
’’کیا اس نے آپ کو بتایا ہے…؟‘‘ وہ ٹھٹھکا۔
وہ گڑبڑاگئیں۔ ’’نہیں بتایا تو نہیں ہے لیکن…‘‘
’’لیکن بس یہ کہ ہم سب اس پر اپنی مرضی تھوپنا چاہ رہے ہیں۔ کسی نے اس کی خواہش جاننے کی ضرورت نہیں سمجھی۔‘‘ اس نے ان کا جملہ اچک لیا۔ ’’خیر ایک دوسرا اس سے ز یادہ مضبوط سبب ہے میرے پاس۔ اگر دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو تو ہمیشہ زیادہ اچھی چیز کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ آپ کی نظر میں میں اچھا لڑکا ہوں۔ لیکن اگر ایک لڑکا مجھ سے زیادہ بہتر ہے، اخلاق و کردار میں بھی اور خاندان و پیشے میں بھی، تومسیرہ کے لیے اسے کیوں نہیں منتخب کیا جاسکتا؟‘‘
’’بالکل کیا جاسکتا ہے۔‘‘ وہ مسکرائیں۔
’’یقین کریں بجّو، وہ میری نظر میں دنیا کا سب سے اچھا لڑکا ہے۔‘‘
’’ہاں،… اور اس دنیا کا سب سے اچھا لڑکا ڈاکٹر حسن کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے۔‘‘
وہ خوشدلی سے ہنسیں تو وہ بھی مسکرادیا۔ ’’بالکل صحیح سمجھیں، تو آپ کا مقصد حل ہوا۔‘‘
’’ابھی کہاں… تمہارا معاملہ بھی تو نپٹانا ہے۔‘‘ وہ معنی خیز ی سے بولیں۔
’’اس معاملے کو تو ابھی رہنے ہی دیں۔‘‘ بیڈ پر پیر پسار کر وہ لاپرواہی سے بولا ’’امتحان کے بعد دیکھیں گے۔‘‘
’’تم بے فکر رہو ہم تمھیں ڈسٹرب نہیں کریں گے فی الحال تو تم صرف اتنا بتاؤ کہ کیا تمھیں کوئی لڑکی پسند ہے۔؟؟
’’جی…؟؟‘‘ وہ ٹھٹک کر انھیں دیکھنے لگا آنسوؤں سے بھیگا ہوا ایک روشن اور شفاف چہرہ آنکھوں میں آن سمایا تھا۔ دل میں اچانک ہی ہلچل مچی تھی۔
عمارہ اسے منتظر نگاہوں سے تک رہی تھیں۔ خود کو سمیٹتا ہوا وہ نارمل لہجے میں بولا ’’جی نہیں۔‘‘
’’واقعی… لیکن چہرہ تو کچھ اور ہی بتا رہا ہے۔‘‘
’’چہروں پر مت جائیے۔ یہ بڑے دھوکے باز ہوتے ہیں۔‘‘ شرارتی لہجے میں انھیں آگاہ کیا تھا۔
’’بتادو… ورنہ ہماری دیکھی ہوئی لڑکی برداشت کرنی پڑے گی۔‘‘ انھوں نے گویا دھمکی دی تھی۔
’’مجھے آپ کی پسند پر زیادہ بھروسہ ہے۔‘‘ وہ قابلِ دید اطمینان سے بولا تو وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگیں۔
وہ ایسا ہی تھا… مان اور عزت بڑھانے والا۔ مخاطب کو لمحوں میں آسمان پر لے جابٹھاتا۔ وہ اسے بہت اچھی طرح جانتی تھیں کہ اگر کسی بات کو حق جان لے تو ایک انچ اس سے پیچھے نہیں ہٹتا تھا۔ اپنے ارادوں اور فیصلوں پر مضبوطی سے جمنے والا اور دوسروں کو بھی اس پر قائل کرنے والا …… اور آج کیسے اس نے اپنی زندگی کے سب سے اہم فیصلے کا اختیار انھیں سونپ کر انھیں اپنی ہی نظروں میں معتبر کردیا تھا۔
’’ایسے بھائی سب کو نصیب نہیں ہوتے۔‘‘ بھیگی پلکیں جھپکاتے ہوئے انھوں نے دل میں اعتراف کیا تھا۔ آنکھوں میں محبت کا سمندر سموئے وہ اسے احترام و ملائمت سے تک رہی تھیں۔ یحییٰ نے ان کی عزت اور ان کا مان بڑھایا تھا پھر وہ اس اعتماد کو بھلا کیسے ٹوٹنے دیتیں۔ جب انھوں نے اسے لڑکی کا نام بتایا تو وہ مارے حیرت و خوشی کے گنگ رہ گیا تھا۔
——