فیصلہ

محمد یوسف رحیم بیدری

س کے قریب ایک بڑی سی شیورلیٹ کے بریک چرچرائے ۔بکپا نے پلٹ کر دیکھا ،رمیش رستوگی شیورلیٹ میں بیٹھا نظر آیا ۔ آج ا س کے ساتھ اس کا ڈرائیور نہیں تھا۔ وہ خود گاڑی ڈرائیو کررہاتھا ۔رمیش رستوگی نے اس بڑی سی شیورلیٹ کا دروازہ کھولا اور کہا۔

’’بکپا ۔۔۔۔اندر آؤ‘‘ بکپا تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے ساتھ گاڑی میں آبیٹھا۔ اس کے بیٹھتے ہی گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ آگے بڑھی ۔ بکپا کا سر ڈیش بورڈ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا ۔ فوری سنبھل کر اس نے Safety belt باندھ لیا۔ گاڑی تیز رفتاری سے انجانے راستوں پر رواں تھی۔ بکپا کا دل ڈول رہاتھا۔ لیکن وہ خود کو مجتمع کرنے کی کوشش میںلگا ہوا تھا۔ شیورلیٹ ایک پل پر رکی۔رمیش گاڑی سے باہر نکل آیا۔ بکپا سوچ رہاتھا اس کو کیا کرنا چاہیے۔ ایک آدھ منٹ کے وقفہ میں اس کو بھی گاڑی سے باہر نکل آنا پڑا۔

رمیش رستوگی کے ہاتھوں میں امپورٹیڈ سگریٹ تھا۔ انتہائی قیمتی لائٹر سے اس نے سگریٹ جلاکر لائٹر ہوا میں اچھال دیا ۔ وہ دور کہیں دیکھے جارہا تھا اور ساتھ ہی سگریٹ کے کش پرکش لے رہاتھا۔ بکپا کے لیے یہ مختصر سا سفر الجھنوں بھراتھا ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ رمیش رستوگی اسکو یہاں کیوں لے آیا ہے؟ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد رمیش رستوگی نے کہا۔ ’’بکپا ۔۔۔۔اس پل کے نیچے تمہیں ایک اور پل نظر آئے گا اور اُس پل کے نیچے ایک اور راستہ ہے ۔ اس راستہ کے نیچے زمینی راستہ ہے۔۔۔۔‘‘بکپا نے پل سے جھانکنے کی زحمت گوارہ نہ کی یاپھر ہوسکتاہے وہ اپنی جگہ چوکنا رہنا چاہتاہو۔ رستوگی کہہ رہا تھا’’جہاں ہم دونوں کھڑے ہیں یہ راستہ ائیر پورٹ کی طرف جاتاہے تم جیسے لوگ اس راستہ کی طرف آنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔نہیں کرسکتے نا؟‘‘بکپا خاموش تھا ۔ رمیش رستوگی نے اس کی طرف پلٹ کردیکھا ۔سگریٹ کا ایک کش لیا اور پھر گویا ہوا۔ ’’ائیر پورٹ کے راستے کو ترقی کا راستہ کہا جاتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔تم اگر ترقی چاہتے ہوتو میں ہرممکن مدد کروں گا‘‘

بکپا کو رمیش رستوگی کی بات سمجھ میں آگئی تھی۔ اس نے اپنے ہونٹ ہلانا ضروری سمجھا ۔ ’’مسٹر رستوگی ۔۔۔۔۔ترقی اپنوں سے دور رہ کر نہیںکی جاتی ‘‘

’’کچھ پانے کے لئے بکپا ۔۔۔۔بہت کچھ کھونا پڑتاہے ‘‘

’’لیکن میںپانا چاہتاہوں ‘‘ وہ بے قرار ہواٹھا

’’ترقی کو ؟‘‘سوال تھا

’’صرف ترقی نہیں کیونکہ ٹینا عرف سیتا ہی میری ترقی ہے ،زندگی کا مقصدہے ‘‘

’’یوبلاڈی باسٹرڈ۔۔۔۔آج میں تجھے قتل کردوں گا‘‘ رمیش رستوگی نے فوراََ پستول نکال کر بکپا پر تان دیا۔ بکپا ایسی دھمکیوں سے کہاں ڈرنے والاتھا۔ ’’رمیش چند رستوگی صاحب پستول جیب میں واپس ڈال لیں ۔یہ طمنچے بڑے لوگوں کی خودکشی کے کام آیا کرتے ہیں ‘‘ ’’ٹھائیں ۔۔۔۔‘‘ ایک فائر ہوااور گولی بکپا کے کندھے کے اوپر اور گردن کے بالکل قریب سے گذری ۔

’’تم اچھی طرح جانتے ہورمیش ۔۔۔بکپا کبھی دشمن کی گولی سے نہیں ڈرتا۔20سال پہلے تم مجھ پر گولی چلاکر دیکھ چکے ہو‘‘

’’ٹھائیں ۔۔۔‘‘ ایک اور فائر ہوا لیکن آسمان میں ۔رمیش رستوگی کا غصہ عروج پر تھا لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتاتھا۔ آہستہ آہستہ اس کا غصہ اعتدال پر آنے لگا ۔ پل پرسے دوایک گاڑیاں زائیں سے گذرگئیں ۔ شاید انہیں ائیر پورٹ جانے کی جلدی تھی۔

’’بکپا ۔۔۔۔میرا وکیل کہتاہے کہ ہم کیس جیت جائیں گے۔‘‘

’’لیکن مجھے یقین ہے کہ ۔۔۔۔۔سیتا میری ہوجائے گی ‘‘ بکپا کا لہجہ پراعتماد تھا۔رمیش رستوگی نے دانت کچکچاتے ہوئے پوچھا ۔

’’اس یقین کی وجہ پوچھ سکتاہوں ‘‘

’’میرادل کہتاہے۔۔۔۔‘‘

’’بکپا ۔۔۔تیرے دل نے کالج کے زمانے میںبھی یہی سوچا تھا لیکن ٹینا تیری نہ ہوسکی اور میں نے اس سے بیاہ رچالیا۔ آج وہ میرے چار عدد خوبصورت ترین بچوں کی ماں ہے اور میری شریک زندگی ‘‘

’’بچے پیداکرنے یا کسی کے ساتھ زندگی گذارنے کا دل سے تعلق نہیں ہوتا رمیش۔۔۔۔یہ کام محبت میں ناکام ہرلڑکی کیا کرتی ہے‘‘

’’اور تم اپنی ناکام محبت کو عدالت کے سہارے کامیاب بنانا چاہتے ہو؟‘‘ بکپا نے فوری طورپر کوئی جواب نہیں دیا۔سورج مغرب کی سمت غروب ہورہاتھا ۔دونوں اس نظارے سے محظوظ ہونے کے موڈ میں نہیں تھے ۔ آسمان پر پرندوں کے جھنڈ گھروں کی سمت رواں دواں تھے اور ہوا میں خنکی آچلی تھی۔

’’عدالت نہیں بلکہ میں اپنے اعتماد اور اپنے عقیدے کے بل بوتے پر اپنی محبت کو کامیاب بناؤں گا‘‘ رمیش چند رستوگی نے بکپا سے یہ نہیں پوچھا کہ آنجناب کے عقیدے کی تعریف کیاہے ؟اس کو معلوم تھا کہ کالج میں ٹینا اور وہ ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے تھے ۔لیکن رمیش نے ہمیشہ دونوں کے اس رشتہ کو ناپسند کیا ، اس لیے کہ وہ ٹینا سے محبت کرتا تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ ٹینا کسی اور کی ہوجائے ۔ چونکہ وہ رئیس باپ کی اولاد تھا اس لئے اس کو پیسے کے بل بوتے پر حاصل کرنا چاہتا تھا ۔ بکپا غریب والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کے علاوہ نچلی ذات سے بھی ا س کا تعلق تھا۔ ٹینا ذات پات کو نہیں مانتی تھی ۔ اس کا خیال تھا کہ جو دل کو بھائے وہی شریک دل اور شریک زندگی ہوتا ہے۔ کالج کے لیکچررس کو بھی ٹینا اور بکپا کا میل ملاپ پسند نہیں تھا لیکن ٹینا جیسی دولت مند مگرضدی لڑکی کے آگے کسی کی نہیں چل سکتی تھی ،کالج کے پرنسپل صاحب بھی اس کے سامنے بے بس تھے ۔ اس کی ضد کی ایک اور مثال یہ بھی تھی کہ اس نے اپنا پیدائشی نام سیتا کو بھلاکر ٹینا رکھ لیا تھا۔ بہر حال وقت نے کروٹ لی تو بکپا کی جھولی میں کچھ نہ تھا۔ رمیش چندرستوگی ٹینا کو ڈولی میں بٹھا کر اپنے محل لے گیا۔ اور جب وقت کے دریا نے کافی سے زیادہ فاصلہ طے کرلیا تو ایک دن رمیش چند رستوگی کو عدالت کی جانب سے نوٹس موصول ہوئی کہ بکپا نامی شخص سیتا کواپنی بیوی بتلاتا ہے ،تمہیں عدالت آکر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ سیتا تمہاری اپنی بیوی ہے بکپا کی نہیں ‘‘

اور آج رمیش اوربکپا ایک دوسرے کے مدمقابل شہرکے سب سے بڑے پل پر کھڑے تھے ، جس کے نیچے مزید راستے تھے بلکہ راستوں کا ایک جال بچھا ہوا تھا ۔ لیکن ترقی کا راستہ ان سب راستوں کے اوپر تھا۔ اور اس راستہ پر دونوں دشمن کی طرح کھڑے تھے ۔ ایک دشمن چاہتا تھا کہ دوسرا حریف ترقی کے راستے کو اختیا رکرتے ہوئے ملک سے باہر چلاجائے ۔ دوسرے دشمن کو غیر ملک نہیں اپنے ہی دیش میں رہنابے حد عزیز تھاتاکہ وہ عزیزوں سے مل جل سکے، ان کے درمیان رہ کر زندگی گذار سکے۔

’’کیا تمہیں یقین ہے کہ تم ٹینا۔۔۔میر امطلب ہے مقدمہ جیت لوگے ‘‘ رمیش کے استفسار میں اس کی بے بسی صاف طورپر جھلک رہی تھی ۔

’’ہاں مجھے یقین ہے صدفیصد یقین کہ ۔۔۔۔ٹینا میری ہوجائے گی ‘‘

’’ٹینا کولے کر کیا کروگے ؟ اس کا شباب ڈھل چکا ہے۔‘‘

’’کیسی باتیں کررہے ہو رمیش ۔۔۔‘‘ بکپا تڑپ اٹھا۔ ’’میں نے ٹینا کی جوانی سے نہیں ، اس کی روح سے محبت کی ہے ‘‘

’’اگر ٹینا تمہارے ساتھ آنے سے انکار کردے تو‘‘

’’ایسا ہونہیں سکتا رمیش رستوگی ۔۔۔اس لئے کہ اس کا ایک نام سیتا بھی ہے ۔سیتا کبھی بے وفا نہیں ہوسکتی اس کو راون کی لنکا چھوڑنی ہی ہے ۔ تاریخ خود کو دوہراتی ہے اور یقینا تاریخ دوہرائے گی اپنے آپ کو ۔۔۔۔۔لیکن ایک منٹ ۔۔ایک منٹ ‘‘ بکپا نے جیسے خود سے کہا اور رمیش کے قریب آکر کہنے لگا’’تمہیں کیوں یقین ہوچلا ہے کہ تم مقدمہ ہار جاؤگے‘‘ رمیش چند رستوگی نے اس کے چہرے پرسرسری نظر ڈالی ۔ اس کے نزدیک یہ ایک انتہائی کریہہ چہرہ تھا ۔ لیکن وہ کیا کرسکتاتھا ، اس کو بہرحال اپنی بیوی کو بیوی ثابت کرنے کے لیے عدالتی لڑائی لڑنی تھی اور ہر پیشی پر اس کو کریہہ چہرہ وہ دیکھتاتھا۔ آج اتفاق سے بکپا راستے میں مل گیا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اس سے مفاہمت کی راہ نکال کردیکھتے ہیں ۔ اگر وہ مان جاتاہے تو ٹینا اور اس کے درمیان کا کانٹا نکل جائے گا۔ لیکن اس مفاہمتی گفتگو نے اس کو پست ہمت بنادیاتھا۔ وہ مرے مرے قدموں سے اپنی شیورلیٹ میں آبیٹھا اور پھر اس کے اپنی گاڑی بڑھائی ۔ بکپا وہیں پل کر اکیلا کھڑا تھا۔

اس ملاقات کے چند ہی دن بعدفیصلے کی تاریخ دے دی گئی ۔ اس دن عدالت کا کمرہ لوگوں کی کثرت کے باعث کھچا کھچ بھرا ہواتھا۔ اس لئے کہ رمیش اور بکپا کے درمیان ہونے والا یہ مقدمہ کافی مشہور ہوچکاتھا ۔ مقامی چینل کے علاوہ ریاستی زبانوں کے چینل نے بھی اس مقدمے میں دلچسپی دکھائی تھی ۔ آج کا فیصلہ سننے اور اس کو ٹیلی کاسٹ کرنے سارے ہی ملک سے مختلف زبانوںکے چینلس کے کیمرہ مین اور نمائندے عدالت میں موجود تھے ۔ لیکن انہیں تصاویر لینے یا ویڈیو شوٹنگ کی قطعی اجازت نہیں تھی ۔ وہ صرف مقدمے کا فیصلہ سن سکتے تھے۔

رمیش چند رستوگی کابرا حال تھا۔ اس کی آنکھیں سوجی سوجی لگ رہی تھیں ۔ شاید وہ رات بھر سو نہیں سکاتھا۔ سیتا یعنی ٹینا اپنے چاروں بچوں سمیت عدالت سے غیر حاضر تھی جسکی اجازت اس نے عدالت سے لے لی تھی ۔

وقت مقررہ پر فاضل جج رام نارائن شرما اپنی کرسی پر براجمان ہوئے ۔ عدالت میں بیٹھے ہوئے لوگوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور فیصلہ سنانے لگے ’’اس کیس کا تعلق ثبوتوں اور گواہوں سے زیادہ ایک انسان کے عقیدے سے ہے ۔ بکپا اور سیتا آپس میں محبت کرتے تھے اور شاید آج بھی محبت کرتے ہیں ۔نوجوانی میں ایک دفعہ سیتا حاملہ بھی ہوئی تھی جس کو ضائع کردیا گیا یہ حمل دراصل بکپا کا تھا۔ کسی کنواری لڑکی کااپنے آپ کو کسی مرد کے سپرد کرنا اس بات کو ظاہر کرتاہے کہ وہ اس کو اپنا پتی مان چکی ہے ۔ بکپا آج بھی سیتا کو اپنی بیوی بلکہ اس سے آگے بڑھکر دیوی سمجھتاہے ۔ رہی بات رمیش چند رستوگی کی ، رمیش نے سیتا سے شادی ضرور کی ، بچے بھی پیداکئے لیکن ان دونوں کا تعلق آستھا یعنی عقیدے کا نہ رہا ۔ سماج کے بنائے ہوئے بندھن انسانی عقیدے کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ عدالت کی نظر میں انسانی عقیدہ اصل ماخذ ہے۔ سماجی بندھنوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو سیتا آج بھی رمیش چند رستوگی کی بیوی ضرور ہے لیکن فاضل عدالت کی نظر میں دراصل وہ بکپا کی بیوی ہے ‘‘ فاضل جج نے ایک طویل سانس لی اور پھر کہا ’’یہ عدالت رمیش چند رستوگی کو حکم دیتی ہے کہ وہ سیتا کو بکپا ڈانڈین کے حوالے کردے ‘‘

اچانک عدالت کے کمرے میں ایک چیخ بلند ہوئی۔ لوگوں نے دیکھا کہ رمیش چندرستوگی اپنی سیٹ پر بے ہوش ہورہاہے۔ اور اس کا چہرہ کرب کی آماجگاہ بناہواہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146