جنوری کی تین تاریخ تھی، صبح سے شام تک کی مسلسل بارش نے یخ کردینے والی سردی پیدا کردی تھی۔ گو سرِ شام ہی سے بادل چھٹ گئے تھے، مگر تیز ہوا نے سردی کو اور بھی چمکا دیا تھا۔ چھ بجے شام ہی سے سارا بازار سنسان ہوگیا تھا۔ مگر سڑک پر بنے چائے خانہ میں کافی گہما گہمی تھی۔ دسمبر، جنوری کے مہینوں ہی میں تو ہمارا سیزن لگتا ہے۔
جمعدار فضلو پچاس کے لگ بھگ تھا، لیکن اس بڑی عمر میں بھی اس کے ارادے بڑے تھے۔ وہ بڑا محنتی اور ملنسار تھا۔
آج بارش کے پہلے چھینٹوں کے ساتھ قہوہ خانہ گاہکوں سے بھر گیا اور جمعدار اپنی دوستی کا حق ادا کررہا تھا۔ وہ اپنے موٹے جسم کے باوجود پھرکی کی مانند گھوم رہا تھا۔ کبھی برتن دھونے میں مصروف اور کبھی بھٹی کی آگ دہکانے میں مشغول، کبھی گاہکوں کے آگے چائے کی بھری ہوئی پیالیاں رکھ رہا تھا، تو کبھی اُن سے پیسے وصول کررہا تھا۔ برفانی پہاڑوں سے آتی ہوئی برفانی ہوا کے تند و تیز جھونکے سائیں سائیں کررہے تھے، پھٹے پرانے کپڑوں میں اپنے نحیف و نزار جسم کو ڈھانپنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے، مدقوق چہروں والے لوگ سی سی کرتے ہوئے آتے رہے اور گندے تالاب کے غلیظ پانی کی رنگت کی چائے پیتے رہے اور میں اُن سے دو روپے پیالی کے بجائے تین روپے کے حساب سے پیسے وصول کرتا رہا۔ وہ بھی مجبور تھے اور میں بھی۔ انھیں گرم کپڑے میسر نہ تھے اور مجھے چائے خانہ کی اس کالی کوٹھری کے بارہ سو روپے ماہوار کے ساتھ ساتھ بوڑھی والدہ، جو وقت پر کھانا نہ ملنے پر اپنا منہ نوچ لیتی تھی، بیوہ بہن اور اس کے دو بچوں کا پیٹ پالنا تھا۔
آخر رات کے ایک بجے دودھ ختم ہوگیا اور مجھے قہوہ خانے کا اکلوتا دروازہ جو انسانوں، چڑیوں، ابابیلوں اور چمگادڑوں کے ساتھ ساتھ ہوا کے آنے جانے کا واحد ذریعہ تھا، بند کرنا پڑا۔ اس وقت تند وتیز ہوا کی شدّت میںاور بھی اضافہ ہوگیا تھا، ہاتھ اور پاؤں سن ہورہے تھے۔ دانت چائے کی خالی پیالیوں کی طرح کھنک رہے تھے، میں نے اوور کوٹ کے کالر کھڑے کیے اور ہاتھ جیبوں میں ٹھونس لیے۔ جمعدار نے بھی اپنی رضائی جسے وہ رات کو بطور رضائی اور دن کو بطور کمبلی استعمال کرتا تھا، سر سے پاؤں تک اوڑھ لی اور کہا:
’’بھائی! غضب کی سردی ہورہی ہے۔ گھر کیسے جائیں گے؟‘‘
جب ہوا کے ایک تیز جھونکے نے اس کی رضائی اُس کے جسم سے جدا کردی تو وہ سی سی کرتا ہوا اللہ خیر کا وظیفہ پڑھنے لگا۔
’’تیرے پاس تو رضائی ہے، میرے پاس تو خاک بھی نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
اور ہم دونوں خاموش چل دئیے۔
شہر سے کافی دور ایک کم آباد محلے میں ہم نے ایک چھوٹا سا مکان کرایہ پر لے رکھا تھا۔ اس میں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا، جس میں دو چارپائیوں کے علاوہ ہم نے ایک ٹرنک کی جگہ بھی بنا لی تھی۔ ایک چھوٹا سا صحن تھا، جس کو میں بطورِ مرغی خانہ استعمال کرتا تھا۔ ہمارا راستہ تنگ و تاریک گلیوں سے گزرتا تھا۔ جن کی نالیوں پر دن کو بچے اور رات کوبڑے رفع حاجت کیا کرتے تھے اور جن کی بدبو بقول جمعدار اہلِ محلہ کی غذا کا جزو بن چکی تھی۔
جب ہم منزلِ مقصود پر پہنچے تو حسبِ معمول ہمارا استقبال کتیا نے کیا، جسے جمعدار فضلو ’’بی ہمسائی‘‘ کے نام سے پکارا کرتا تھا۔ اس ’’بی ہمسائی‘‘ سے بھی اس کا ایک نامکمل رومان وابستہ تھا، بات دراصل یہ تھی ہمارے ہمسائے میں ایک بابو صاحب رہا کرتے تھے، کہیں محکمۂ تعلیم میں کلرک تھے۔ یہی کوئی چالیس کے لگ بھگ تھے، مگر اُن کی بیگم صاحبہ بڑی ہٹی کٹی تھیں۔ بڑی کائیاں، ادھر جمعدار بھی بڑے حضرت یعنی نہلے پر دہلے۔ جھٹ اُس کے خاوند سے دوستانہ گانٹھ لیا اور لگے اُن کے گھر آ نے جانے ۔ کچھ عرصے بعد جب بابوصاحب کا تبادلہ ہوگیا تو وہ یہ کتیا جمعدار کو دے گئے۔ جمعدار کو بھی دوستی کا پاس تھا۔ وہ اس کی خوب دیکھ بھال کرتے اور جبکہ آٹا افیون کے بھاؤ بک رہا تھا، یہ دو تین روٹیاں اُس کے لیے ضرور پکاتے، کتیا بھی دن رات ہمارے دروازے کے آگے پڑی رہتی جاتے وقت دم ہلاکر اور آتے وقت ہمارے پاؤں چوم کر اورقلا بازیاں کھاکر ہمارا استقبال کرتی، لیکن کتیا کی حالت آج کچھ غیر تھی، وہ پاگلوں کی طرح بھاگ رہی تھی۔ ہم اس کا نوٹس لیے بغیر اندر چلے گئے اور بمشکل اندر والے کمرے میں پہنچے ہی تھے کہ دروازہ زور سے بجا، جیسے کنڈی کھٹکھٹانے کے بجائے کوئی ہاتھوں سے دروازے کو پیٹ رہا ہو۔ میں نے جمعدار سے کہا:
’’جمعدار ذرا دیکھو، کون گدھا آیا ہے…؟‘‘ جمعدار چلا گیا۔
’’بی ہمسائی (کتیا) ہے۔‘‘ جمعدار نے وہیں سے پکارا۔
’’بی ہمسائی ہے؟… نکال دو اسے۔‘‘ میں نے کوٹ اتارتے ہوئے کہا۔ اتنے میں مرغیوں کی بے تحاشا کاں کاں شروع ہوئی۔ میں تیزی کے ساتھ صحن میں گیا۔ کتیا باہر کی طرف بھاگی اور جمعدار سے جاٹکرائی وہ ڈر سے یا کسی اور وجہ سے دھڑام سے گیلے فرش پر گرا۔
’’ارے! اس کے منہ میں بچہ تھا۔‘‘ اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’کس کا …‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’اُس کا اپنا…‘‘
’’اب کہاں ہے؟‘‘
پلے کی ٹاؤں ٹاؤں نے جمعدار کے جواب سے پہلے بتادیا کہ وہ مرغیوں کے ڈربے کے نیچے ہے، مرغیاں اب بھی شور مچا رہی تھیں۔ مگر میری موجودگی سے اُن کا شور کم ہوتا جارہا تھا۔ تیز ہوا سے کھلا ہوا دروازہ تڑاغ سے بند ہوگیا جوں ہی دروازہ بند ہوا پھر مکہ بازی شروع ہوئی، جمعدار نے جاکر دروازہ کھول دیا۔ کتیا بھاگتی ہوئی آئی۔ منہ کھول کر دوسرے پلے کو پہلے کے ساتھ رکھ دیا۔ مرغیو ںکاشور پھر بلند ہوا۔ جو فضائے بسیط کو چیرتا ہوا دور درختوں سے جا ٹکرایا۔
’’جمعدار ادھر آؤ!‘‘ میں نے جمعدار کو اپنی طرف بلایا جو اپنے کپڑوں سے کیچڑ کھرچ رہا تھا۔
’’ان حرامزاوں کو اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دو…!‘‘
’’مگر یار… یہ مرجائیں گے… سردی میں …‘‘ اس نے میری بات کاٹ کر کہا۔
’’مرنے دو اِن کتیا کے بچوں کو۔‘‘ میں نے غصہ سے کہا۔
’’لیکن مامتا…‘‘ کتیا اپنے تیسرے بچے کو اٹھائے بھاگتی ہوئی آئی۔
’’معلوم ہوتا ہے۔ اس کا ٹھکانہ بارش کے پانی سے بھر گیا ہے… جبھی تو وہ انہیں محفوظ جگہ پر منتقل کررہی ہے… ماں ہے آخر … مامتا ہے…‘‘ جمعدار نے کہا۔
ماں اور مامتا کے الفاظ نے مجھے سن کر دیا۔ مجھے کتیا کے ساتھ بے پایاں ہمدردی ہوگئی۔
’’جمعدار! ذرا خود جاکر باقی ماندہ بچے اٹھا لاؤ اور دروازہ بند کردو… دیر ہوجائے گی… نیند آرہی ہے… جمعدار تیزی کے ساتھ باہر نکل گیا میں واپس کمرے میں آکربستر میں پڑگیا۔ دروازہ ہوا کے زور سے کھلتا اور بند ہوتا رہا۔ آدھا گھنٹہ گزرگیا، نہ تو جمعدار واپس آیا اور نہ کتیا۔ مجھے کچھ وسوسہ سا ہوا، میں نے ایک جھٹکے کے ساتھ رضائی الگ کی اور اٹھ کھڑ ا ہوا۔ کھونٹی پر لٹکا ہوا کوٹ اوڑھ سا لیا اور باہر گلی میں آکر زور سے پکارا۔
’’جمعدار… ارے جمعدار…‘‘
’’ہاں بھائی… ‘‘ لکڑی کی ٹال کے پیچھے سے آواز آئی اور میں اس طرف چل دیا۔
’’کیا ہے؟‘‘ میں نے جمعدار کو کسی چیز پر جھکے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔ اُس کے ہاتھ میں دو پلّے تھے جو ٹوں ٹوں کررہے تھے۔ پاس ہی اُن کی ماں کھڑی مامتا بھری نظروں سے انہیں تک رہی تھی اور دم ہلا رہی تھی۔
’’بچہ ہے۔‘‘ جمعدار نے جواب دیا۔
’’کس کا؟ ‘‘
’’انسان کا۔‘‘
’’انسان کا …‘‘ میری زبان نے الفاظ دہرائے۔
’’زندہ ہے یا …؟‘‘ موت کے خوف سے میرے ہونٹ سی دیے اور ’’مردہ‘‘ کا لفظ میرے حلق میں اٹک کر رہ گیا ’’مردہ‘‘ جمعدار نے کہا۔
میں آگے بڑھ کر جمعدار کے پاس پہنچا اور پاؤںکے بل بیٹھ گیا۔ ایک پتلے سے کپڑے میں لپٹا ہوا ایک نوزائیدہ بچہ پڑا تھا۔ موٹا موٹا سا جسم نازک نازک سے ہاتھ۔ چھوٹی چھوٹی سی انگلیاں، دل کشا سا مکھڑا۔ سنہری بال، دو گول گول سی آنکھیں۔ جنھیں قدرت نے انسان اور حیوان کی تمیز کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھول دیا تھا۔ کتنا خوبصورت تھا بچہ… دل چومنے کو چاہتا تھا۔
’’اس کی ماں…؟‘‘ میری زبان سے بے ساختہ نکل گیا۔
’’کیا معلوم؟… ‘‘ جمعدار نے کہا۔
’’مگر مامتا…‘‘
ہماری نگاہیں چاروں طرف گھوم گئیں۔ کتیا اپنے بچوں کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ دور کہیں سے اُلو کی چیخ سنائی دی۔ ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا، بچے پر پڑا ہوا کپڑا اڑ کر دور جاپڑا۔
——