ٹھوکر

نشاں خاتون

’’شیریں! یہ تمہاری روز روز کی تلاوت مجھے چین سے سونے بھی نہیں دیتی۔‘‘ رمیز نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا۔
’’رمیز توبہ کرو اللہ سے، اس طرح نہیں کہتے۔‘‘
اور پھر اس نے دوسری طرف منہ کرکے آنکھیں بند کرلیں۔ شیریں اپنے کاموں میں مصروف ہوگئی۔
شیریں بچپن ہی سے صوم و صلوٰۃ کی پابند تھی۔ اس کی شادی کو ابھی سات مہینے ہوئے تھے۔ شروع کے چھ مہینے وہ سسرال والوں کے ساتھ ہی رہی۔ اوراب اسے دلّی آئے ہوئے ایک ہی مہینہ ہوا تھا۔ جب وہ نماز کے وقت رمیز کو جگاتی تو ہمیشہ ہی نوک جھونک ہوتی۔
’’تم مجھے روز جلدی اٹھا دیتی ہو اور میری نیند پوری نہیں ہوپاتی۔‘‘ اس نے ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’رمیز! روزے نماز سے گھر میں برکت ہوتی ہے۔ تم خود نماز پڑھا کرو، دیکھو دل کو کتنا سکون حاصل ہوتا ہے۔‘‘
’’شیریں! یہ اکیسویں صدی ہے۔ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں اور تم تو مجھے انیسویں صدی کی تخلیق لگتی ہو۔‘‘
’’رمیز! صدیاں بدلنے سے دین اور اس کے احکام نہیں بدلتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے، جو ہمیشہ رہے گی۔‘‘ اس نے چائے کا کپ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’پھر تمہارا وہی لیکچر۔ میں نے جب تمھیں گاؤں میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو میں سمجھا کہ یہ تم ممی ڈیڈی کو امپریس کرنے کے لیے کررہی ہو، لیکن تم تو ایک مذہبی لیڈی نکلیں۔‘‘
’’ہمیں ہر کام اللہ کی خوشنودی کے لیے کرنا چاہیے۔ رمیز! پتہ نہیں یہ سب تمہاری سمجھ میں کب آئے گا۔ لیکن مجھے اللہ پر پورا یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن تمہاری سمجھ میں آہی جائے گا۔‘‘
چلو ختم کرو یہ فلسفہ، شام کو تیار رہنا ہمیں نشو کی میرج انیورسری میں چلنا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں مغرب کی نماز کے بعد تیار ہوجاؤں گی۔‘‘
پارٹی میں سب لوگ مٹک رہے تھے۔ شیریں ایک طرف کرسی پر بیٹھ گئی۔
’’بھابھی آپ یہاں اکیلی کیوں بور ہورہی ہیں۔ انجوائے کیجیے۔‘‘ ایک عورت اس سے کہہ رہی تھی۔
’’نہیں میں یہاں ٹھیک ہوں۔‘‘ اس نے کراہیت سے کہا۔ اسے یہاں گھٹن محسوس ہورہی تھی۔
’’جی مجھے یہ سب پسند نہیں۔‘‘ اس نے بیزاری کے ساتھ دوسری طرف منہ کرلیا۔
’’شیریں رات تمہارا موڈ کیوں آف تھا؟‘‘
’’تم نے یہ بات رات تو پوچھی نہیں، اب کیوں میری فکر ہورہی ہے؟‘‘
’’رات مجھے بہت نیند آرہی تھی۔‘‘
’’یہ نہ کہو تم نے رات پی بہت لی تھی۔‘‘
’’نہیں میں نے تو زیادہ نہیں پی تھی۔‘‘
’’رمیز! شراب اسلام میں حرام ہے اور تم شراب پیتے ہو، یہ بات کل معلوم ہوئی۔ میں تو یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی اور تمہارے سارے دوست بھی شرابی ہیں۔‘‘
’’شیریں! آج کل پارٹیوں میں یہ چلتی ہے، اور سب پیتے ہیں۔‘‘
’’سب حرام کو اختیار کرلیں تو کیا وہ حلال ہوجائے گی؟‘‘ اس نے پوچھا۔
اور رمیز کوئی جواب نہ دے سکا، لیکن اس کا جملہ اس کی سوچ کی عکاسی کرتا تھا ’’کم از کم پارٹیوں میں لوگوں کو کمپنی تو دی جاسکتی ہے۔‘‘
’’تم میرے اسٹیٹس کا تو خیال کرتیں، کیا سوچتا ہوگا عامر کہ ایک آفیسر کی بیوی گنوار ہے۔‘‘
’’رمیز! سارا اسٹیٹس ان مغربی طور طریقوں میں نہیں رکھا ہے۔ کیا ناچنے اور پینے سے آدمی کے مقام اور مرتبے میں ترقی ہوجاتی ہے؟‘‘
’’ختم کرو یہ بحث۔ نہ جانے کہاں سے یہ دقیانوسی باتیں تم نے اپنے دماغ میں بٹھا رکھی ہیں۔‘‘
رمضان کا چاند دیکھ کر وہ چھت سے اتری تو سامنے ہی رمیز سے ٹکر ہوگئی۔
’’کیا بات ہے آج؟ بڑی خوش نظر آرہی ہو۔‘‘
’’بات ہی خوش ہونے کی ہے۔ کل سے برکتوں کا مہینہ رمضان شریف شروع ہونے والا ہے اور کل سے ہم دونوں روزہ رکھیں گے۔‘‘
’’میں پورے دن بھوکا نہیں رہ سکتا۔ میں نہیں رکھ پاؤں گا روزہ۔‘‘ اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا اور کمرے میں چلا گیا۔ اور پھر شیریں کے پر زور اصرار کے باوجود اس نے روزہ نہیں رکھا۔ اس دن ماہِ رمضان کا آخری روزہ تھا۔ شیریں نے کہا : ’’رمیز! میں چاہتی ہوں کہ آج آپ جلد گھر آجائیں اور ساتھ روزہ افطار کرکے عید کا چاند دیکھیں۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے میں اذان سے پہلے ہی تمہاری خدمت میں حاضر ہوجاؤں گا۔‘‘
اذان ہوتے ہی شیریں نے روزہ افطار کرکے مغرب کی نماز پڑھی اور بے قراری سے اس کا انتظار کرنے لگی، کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف اس کی نند نائلہ تھی۔ ’’بھابھی عید مبارک ہو۔ بھیا کہاں ہیں؟ آپ کب تک یہاں پہنچیں گے؟‘‘
’’رمیز کہیں کام سے گئے ہیں، ہم لوگ عید کی نماز سے پہلے گاؤں پہنچ جائیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔ رات کے بارہ بجے کے قریب رمیز گھر میں داخل ہوا۔ شیریں نے اس وقت کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ اس کے منہ سے شراب کی بور آرہی تھی۔
رمیز اور شیریں کو دیکھ کر سارے گھر والے خوش ہوگئے۔ شیریں نے پہنچتے ہی سارے گھر کا کام سنبھال لیا تھا۔ زبیدہ بیگم اور اشفاق صاحب شیریں کو دعائیں دے رہے تھے۔ وہ اپنے سسرال والوں کے ساتھ بہت ہی خوش تھی۔
اور جب وہ دو دن بعد دہلی جانے کے لیے تیار ہوئے تو نائلہ نے اسے روک لیا اور وہ بھی انکار نہ کرسکی۔
پورے ایک مہینے کے بعد دہلی پہنچی، کال بیل بجانے پر دروازہ کھلا۔ رمیز ہکا بکا کھڑا تھا۔ اس کے منہ سے اتنا ہی نکل پایا ’’شیریں تم؟‘‘
رمیز کے پیچھے سے ایک لڑکی کی آواز آئی ’’آؤ شیریں آؤ۔‘‘ وہ اسے دیکھتے ہی پہچان گئی کہ یہ سنیتا ہے۔
’’آپ یہاں کیا کررہی ہیں؟‘‘ اس نے تلخی سے اس سے کہا۔
’’شیریں اگر تمہیں یہاں رہنا ہے تو رہو لیکن میں سنیتا کی انسلٹ برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘ رمیز نے اونچی آواز میں کہا۔
اور اسے سب کچھ سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگی۔ اس نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور اگلے ہی دن وہ اپنی ماں کے گھر چلی گئی۔ رمیز نے اسے روکنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ وقت اپنی رفتار سے گزررہا تھا۔ اسے آئے ہوئے پورے دو مہینے گزرگئے تھے۔ اس درمیان رمیز کی ممی ڈیڈی سے اس کی بات بھی ہوئی تھی۔ ان کی پوری ہمدردی اس کے ساتھ تھی، لیکن وہ اپنے بیٹے کو اس کو بلانے کے لیے تیار نہیں کرسکے تھے۔ اس دن وہ جب ظہر کی نماز پڑھ کر اٹھی تو فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ دوسری طرف نائلہ تھی۔
’’بھابی!‘‘
’’کیا بات ہے نائلہ تم رو کیوں رہی ہو؟‘‘
اس کے دل میں انجانا سا ڈر تھا۔
’’بھابی بھیا کی حالت بہت خراب ہے۔ میں دہلی کے ہاسپٹل سے بول رہی ہوں۔‘‘
یہ سن کر اس کے ہاتھ سے رسیور چھوٹ گیا۔
’’شیریں کیا ہوا؟‘‘ عرشی بھابی اس کے قریب آگئیں۔
’’بھابی! رمیز بیمار ہیں۔ وہ ہاسپٹل میں ہیں۔ خدا کرے وہ ٹھیک ہوجائیں۔‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’شیریں! اس نے تمہارے ساتھ کیا کیا ہے یہ تم جانتی ہو۔‘‘ شہاب بھائی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’شہاب! شیریں کو خو دفیصلہ کرنے دو۔‘‘
عرشی، شہاب کو دوسرے کمرے میں لے گئیں۔
ہاسپٹل کے پرائیویٹ روم میں بیڈ پر وہ بے ہوش پڑا تھا۔ نائلہ بیڈ کے پاس پڑے اسٹول پر بیٹھی تھی۔ اشفاق صاحب باہر بے چینی سے ٹہل رہے تھے۔ روم کے اندر جاتے ہی شیریں کی نظر رمیز پر پڑی۔ اف دومہینوں میں ہی اس کی یہ حالت ہوگئی۔ اس نے سوچا۔ نائلہ اس کو دیکھتے ہی لپٹ گئی۔ ’’بھابی!‘‘ اس کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہنے لگے۔
’’بھابی! شراب کی وجہ سے بھیا کی یہ حالت ہوئی ہے۔‘‘
پورا ایک ہفتہ گزر گیا تھا۔رمیز کی حالت پہلے سے اب بہتر تھی۔ وہ اس کے قریب بیٹھی تلاوت کررہی تھی کہ رمیز نے آنکھیں کھولیں۔’’رمیز! کیسی طبیعت ہے؟‘‘ سارے گلے شکوے بھول کر وہ اس کی طرف جھکی۔
’’شیریں!‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن وہاں نرس آگئی اور وہ وہاں سے ہٹ گئی۔
پورا ایک مہینہ گزر گیا تھا۔ شیریں نے اس کی خدمت میںدن رات ایک کردیا تھا۔ اس کی حالت اب بہت بہتر ہوگئی تھی۔
’’شیریں! شیریں!! مجھے معاف کردو میں بہت شرمندہ ہوں۔‘‘ واقعی تم نے میری کتنی خدمت کی ہے۔‘‘ اس کی آواز میں ندامت تھی۔
’’یہ میرا فرض ہے۔ اور اس وقت تم کچھ نہ کہو۔ لو یہ جوس پی لو۔‘‘ اس نے جوس کا گلاس آگے بڑھایا۔
اس وقت اس کے دل میں سنیتا کے یہ الفاظ گونجے ’’رمیز! مجھ سے تمہاری یہ خدمت نہیں ہوسکتی۔ اس سب سے میری بیوٹی متاثر ہوگئی۔‘‘
’’کیا سوچ رہے ہو رمیز؟‘‘ شیریں کے کہنے پر وہ چونک پڑا۔
اگلے ہی دن اسے ڈسچارج کردیا گیا۔ زبیدہ بیگم، نائلہ اور اشفاق صاحب گاؤں چلے گئے اور وہ دونوں اپنے گھر آگئے۔
’’شیریں! واقعی تم نے میری بہت خدمت کی اور تمہاری اسی خدمت کی وجہ سے میں ٹھیک ہوسکا۔‘‘
’’نہیں تم میری دعاؤں اور اللہ کے کرم سے صحت یاب ہوئے ہو؟‘‘ شیریں کے لہجے میں خوشی تھی۔
’’شیریں میں نے تمہیں بہت پریشان کیا؟‘‘
’’اب اور زیادہ پریشان نہ کرو، رات بہت ہوگئی ہے سوجاؤ۔‘‘
اگلی صبح جب شیریں کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گئی کہ رمیز بستر پر نہیں ہے۔
’’یہ رمیز صبح صبح کہاں چلے گئے۔‘‘ یہ سوچ کر وہ برآمدے میں آگئی، لیکن وہاں کا منظردیکھ کر اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ رمیز سجدہ کی حالت میں تھا۔ شیریں نے بھی جلدی سے وضو کیا اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد اللہ کا شکر ادا کیا۔ اور بے ساختہ اس کے ذہن میں یہ شعر گونج گیا:
ایک ٹھوکر کی حقیقت کچھ نہیں یوں تو مگر
کھول دے آنکھیں تو ساری عمر کا حاصل کہیں
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146