غزل

میں خود کو رکھ نہیں پایا کسی بھی خانے میں

جو اک زمیں تھا، اسے آ سماں بنانے میں

کسی بھی طور پگھلنا اسے نہ تھا منظور

مجھے بھی عار تھا لہجے کو آزمانے میں

کسی نے مجھ کو لٹایا ہے دونوں ہاتھوں سے

کسی نے عمر گنوادی مجھے کمانے میں

جہاں پہ داخل مسلک ہو نفرتیں بونا

وہیں ہے لطف دیے سے دیا جلانے میں

وہ جنگ میں نے لڑی ہی نہیں ہے دانستہ

کہ جس میں ہار تھی میری، اسے ہرانے میں

تمام عمر پھر اس کی انا کا پاس رہا

وہ خود سے روٹھ گیا تھا مجھے منانے میں

شیئر کیجیے
Default image
تھذیب ابرار بجنور (یوپی)