عزم و حوصلے کی فتح

ہر ماں اور باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بیٹے اور بیٹیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ اگر ان کے مقام پر اعلیٰ تعلیم کے ادارے نہیں ہوتے تو وہ حسبِ استطاعت اپنے بچوں کو اچھی  تعلیم کے حصول کے لیے ایسے شہر میں بھیج دیتے ہیں جہاں معیاریتعلیم کے ادارے موجود ہوتے ہیں۔ ان کے بچے یا تو بورڈنگ ہاؤس میں رہتے ہیں یا پھر اپنے کسی رشتہ دار کے یہاں قیام کرتے ہیں۔ والدین اگر گاہے بہ گاہے ان کی نگرانی نہ کریں تو بچوں کے بگڑنے کا امکان قوی ہوجاتا ہے۔ بعض بچے ایسے ہوتے ہیں کہ اگرچہ ان میں زیادہ بگاڑتو پیدا نہیں ہوتا لیکن وہ کھیل کود میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اور پڑھائی میں ایسے بچے کمزور ثابت ہوتے ہیں، نتیجہ امتحان میں ناکامی ہوتی ہے۔

ایسے ہی ایک نوجوان کا سچا قصہ پیش نظر ہے۔

اس کا نام محمد حسین تھا وہ کسی دیہات سے شہر کے ہائی اسکول میں پڑھنے آیا اور اپنے کسی رشتہ دار کے یہاں رہائش اختیار کی۔ وہ درجہ نہم کا طالب علم تھا۔ اگرچہ وہ اسکول پابندی سے آتا لیکن اس کا دل کھیل کود میںرہتا۔ دوست بھی اسے ایسے ہی مل گئے نتیجہ یہ ہوا کہ سالانہ امتحان میں فیل ہوگیا۔ پرنسپل نے جب نتیجہ سنایا تو کامیاب طلبہ میں اس کا نام نہیں تھا۔

وہ فوراً پرنسپل کے کمرے میں گیا اور پرنسپل صاحب سے عرض کیا: سر! کیا میرا نام کامیاب طلبہ کی فہرست میں نہیں ہے؟‘‘ انھوںنے کہا: ’’جی! آپ کا نام اس فہرست میں شامل نہیں ہے، کیوں کہ آپ کئی مضامین میں فیل ہیں اور فیل بھی برے طریقے سے ہیں۔ آپ جائیں اور دوبارہ محنت کریں۔‘‘

طالب علم مایوس ہوا، لیکن اس نے کئی بار پرنسپل سے درخواست کی اُسے پاس کردیا جائے۔ پرنسپل نے پھر وہی جواب دہرایا، مگر لڑکے نے پھر اصرار کیا۔ پرنسپل نے قدرے غصہ میں کہا۔ دیکھو! تمہیں ہم درجہ ہشتم کا انگریزی اور حساب کا پرچہ دے دیتے ہیں اگر تم نے اسے حل کرلیا تو ہم تمہیں نویں درجہ میں بھی پاس کردیں گے۔

لڑکے نے پھر اصرار کیا۔ پرنسپل کو غصہ آگیا اور اس نے ترش لہجے میں کہا: ’’جاؤ تم تین سال بھی پاس نہیں ہوسکتے۔‘‘ یہ سن کر لڑکے پر خاموشی چھا گئی اور وہ نہ صرف وہاں سے چلا گیا بلکہ اس نے اسکول سے بھی اپنا نام خارج کرالیا۔ایسا محسوس ہوا کہ طالب علم نے پرنسپل کا سخت ریمارک اپنے دل پر لے لیا۔

ٹھیک دو سال کے بعد طالب علم پرنسپل کے کمرے میں داخل ہوا۔ نہایت ادب سے سلام کیا اور کہا پرنسپل سر! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ پرنسپل نے جواب دیا: ’’ہاں تم وہی محمد حسین ہو جو دو سال پہلے اس اسکول کے طالب علم تھے۔‘‘ طالب علم نے کہا: ’’جی ہاں، میں وہی ہوں۔‘‘ اس نے اپنا نتیجہ پرنسپل کو دکھایا اور کہا: ’’سر! میں نے میٹرک کا امتحان پاس کرلیا ہے اور میرے نمبرات بھی اچھے ہیں۔ سر! آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں تین سال تک بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ میں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ میں سر کو کامیاب ہوکر دکھاؤں گا۔‘‘

اس نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا کہ جناب! میں اپنے وطن واپس ہوا اور پھر ایک دوسرے مقام پر ایک اسکول میں داخلہ لیا اور خوب محنت شروع کی۔ میرے دماغ میں آپ کا وہ جملہ ہمیشہ کلبلاتا رہتا کہ میں تین سال تک بھی پاس نہیں ہوسکوں گا۔ میں نے آپ کا یہ چیلنج قبول کرلیا اور خوب محنت کی۔ کتنی راتیں میں نے آنکھوں ہی میں کاٹ دیں۔ بعض اوقات میری سمجھ میں مضامین نہیں آتے تھے مگر میں بار بار پڑھتا، دوستوں سے پوچھتا اور اپنے اساتذہ سے معلوم کیا کرتا۔ دھیرے دھیرے میرا دماغ کھل گیا۔ میں نے نویں جماعت پاس کی اس کے بعد دسویں میں اور زیادہ محنت کی۔ اللہ نے میری محنت اور دعا قبول کرلی اور میں کامیاب ہوگیا۔ اور آج میں آپ کے سامنے ہوں۔ پرنسپل صاحب نے طالب علم کو گلے لگایا، خاطر تواضع کی اور اسکول کے تمام طلبہ اور اساتذہ کی نشست میں سارا قصبہ بیان کیا۔ طالب علم کی خوب پذیرائی اور عزت افزائی کی گئی۔

اس واقعے میں والدین، اساتذہ اور طلبہ کے لیے کئی سبق پوشیدہ ہیں۔

والدین کو اپنے بچوں کے سلسلے میں مستقل نگرانی رکھنی چاہیے۔ پرنسپل اور اساتذہ کو چاہیے کے طلبہ کو پست ہمت نہ کریں۔ جب محمد حسین کو پرنسپل صاحب نے کہا کہ ’’تم تین سال تک بھی پاس نہیں ہوسکتے۔‘‘ تو اس کا اثر طالب علم پر یہ پڑسکتا تھا کہ وہ اپنی پڑھائی چھوڑ دیتا یا پھر مایوس ہوکر کوئی اور سخت ناپسندیدہ اقدام کربیٹھتا۔

طلبہ کے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ اگر ان کے ساتھی یا اساتذہ یا والدین پست ہمتی کی بات کہیں تو اس کوچیلنج سمجھنا چاہیے اور پھر محنت کرنی چاہیے اور اللہ سے دعا کرنی چاہیے۔ ان شاء اللہ کامیابی قدم چومے گی۔ کتنے ہی ایسے طلبہ وطالبات ہیں جو بچپن میں کسی مضمون میں کمزور ہوتے ہیں لیکن بعد میں محنت و مشقت کے بعد اسی مضمون میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں۔ آئیے زندگی کے ہر مرحلے میں ہم چیلنج قبول کریں اور ناموافق حالات سے پنجہ آزمائی کرکے کامیابی و کامرانی سے سرفراز ہوجائیں۔

حوصلے پست تھے فاصلہ دیکھ کر

فاصلے گھٹ گئے حوصلہ دیکھ کر

شیئر کیجیے
Default image
محمد جاوید اقبال