غزل

سفر دارِ بقا کی سمت آساں کر کے چھوڑوں گا

میں خود کو دارِ فانی سے گریزاں کر کے چھوڑوں گا

مرے اجداد کے خون سے چراغاں تھا کبھی جس میں

میں اس ایوان ویراں شبستاں کر کے چھوڑوں گا

فزوں ہے سرکشی تیری بہت اے نفس امارہ

تجھے اک دن گور غریباں کر کے چھوڑوں گا

تمسخر جو اڑاتے ہیں ہماری نرم خوئی کا

انہیں خود اپنی ہی حالت پہ خنداں کر کے چھوڑوں گا

پیمبر کی بیاں کردہ صدائے حق طبیعت پر

گزرتی ہے گراں لیکن میں ارزاں کر کے چھوڑوں گا

علاوہ اس کے بھی اک بت بسائے رکھتا ہے خود میں

دل مشرک تری تجدید ایماں کر کے چھوڑوں گا

بتاؤ لگا میں رخ گرد اپنے بے یقین کی

جو لاامکاں ہے اب تک اس کو امکاں کر کے چھوڑوں گا

شیئر کیجیے
Default image
تہذیب ابرار، میوہ نوادہ، بجنور (یوپی)