آخری سبق

تاج الدین محمد ، نئی دہلی

یہ جولائی کی ایک حبس بھری گرم دوپہر تھی۔ ساجدہ مٹھائی کی ٹوکری سر پر اٹھائے پیر صاحب کے حجرے میں قدم رکھنے ہی والی تھی کہ کھسر پسر کی آواز اس کے کان میں پڑی۔ وہ ٹھٹھک کر کچھ دیر کو دروازے پر کھڑی ہو گئی۔ پیر صاحب اپنے ایک مرید سے کہہ رہے تھے:’’عورت ذات کم عقل ہوتی ہے اس کی باتوں کا یقین نہیں کرنا چاہیے۔ قدرت نے ایسی بے ڈھنگی مخلوق اور کوئی نہیں بنائی۔ بابا آدم کو جنت سے نکلوانے والی عورت ہی ہے۔ یہ پسلی سے پیدا کی گئی ہے اس لیے کجی اور خمیدگی اس کی سرشت میں داخل ہے۔ سیدھی کرو تو ٹوٹ جائے گی، یونہی چھوڑ دو تو پوری زندگی ٹیڑھی ترچھی رہے گی۔ اگر ناک نہ ہو تو منھ سے غلاظت کھائے۔‘‘
ساجدہ دروازے پر لٹکتا ہوا بھاری مخملیں پردہ ہٹا کر اندر داخل ہوئی اسے دیکھتے ہی بوڑھے مرید نے جو ساجدہ کا کوئی قریبی رشتے دار تھا گھر کی راہ لی۔ پیر صاحب فرش سے اٹھ کر قریب پڑی ایک چوکی کے نرم و ملائم بستر پر متمکن ہو گئے۔ کمرے میں روشنی کچھ دھندلی دھندلی سی تھی۔ ساجدہ کونے میں ایک خالی چارپائی پر بیٹھ گئی۔ کمرے کا زیادہ تر حصہ قیمتی قالین سے ڈھکا ہوا تھا۔ فضا میں عود اور زعفران کی بھینی بھینی سی مہک پھیلی ہوئی تھی۔ ایک طاق پر صندل کی جلتی ہوئی لکڑی دھوئیں کی باریک سی لکیر پیدا کر رہی تھی جو رہ رہ کر ناک کے نتھنوں سے ٹکرا جاتی اور تقدس اور عبودیت کا سماں باندھ دیتی۔
سلام و تسلیم کے بعد ساجدہ چند پل یونہی ساکت بیٹھی کچھ سوچتی رہی۔ عورت کی تذلیل پر ساجدہ کا دل آج خون ہو کر لفظوں میں بھڑک اٹھا تھا۔ اس کی پیشانی پر تفکر کی شکنیں ابھریں پھر اس نے ایک نیم قہقہ سا لگایا اور تلخ لہجے میں کہا :’’ـپیر صاحب آپ شاید اب تک عورت کو صحیح سے پہچان نہیں پائے، عورت مرد کو بے پناہ عزت دیتی ہے، لیکن اسے عزت اتارتے دیر بھی نہیں لگتی۔ مرد کی تمام تر عزت اور قدر و منزلت اسی عورت کے دم سے قائم ہے۔ ایک مجرد زندگی گزارنے والے کے لیے عورت کی پہچان کیوں کر ممکن ہے؟ آپ کی منشا شاید یہ تھی کہ اس بوڑھے اور ناکارہ مرد کے سامنے عورت ذات کو ذلیل و رسوا کیا جائے؟ آپ نے درست فرمایا اگر عورت کے پاس ناک نہ ہو تو وہ منھ سے نجاست کھائے۔” پیر صاحب یہ سن کر ایک لمحے کو سکتہ میں آ گئے پھر زیر لب مسکرائے اور لڑکھڑاتے ہوئے بولے ایسی بات نہیں ہے بیٹی؟
پھر اس جملے کا مطلب و مقصد کیا تھا؟ آپ کی یہ ڈیوڑھی انہی کم عقل، نادان اور بیوقوف عورتوں کے دم سے تو آباد ہے؟ پیر صاحب کے چہرے پر خفگی کے آثار نمایاں ہوئے۔ وہ غصے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور خشمگیں لہجے میں کہنے لگے:’’مجھ سے یہ خطا غلط فہمی کی بنا پر سرزد ہوئی ہے آئندہ خیال رکھوں گا۔ بات کا بتنگڑ بنانا تو کوئی تم سے سیکھے۔ تم نے شہر میں چار حرف پڑھ کیا لیے کہ کسی کی عزت تمہاری نظر میں بالکل ہی نہ رہی؟ میں تو باتوں باتوں میں ازراہ مذاق بس یونہی کہہ گیا۔‘‘
ساجدہ فرسودہ روایتوں میں جکڑی ہوئی عورت نہیں تھی۔ وہ پرانے رکھ رکھاؤ کے ساتھ جدید علم کے جوہر سے بھی آشنا تھی۔ پیر صاحب کی بات اس کے دل پر گہری چوٹ کی طرح لگی تھی چنانچہ اس نے پھر سوال کیا؟ کیا ان باتوں میں عورت کے لیے تضحیک کا کوئی پہلو اور اشارہ نہیں تھا؟ کیا واقعی وہ ناسمجھ و کم فہم ہوتی ہے؟ اس کے دل میں ایک خفیف سا شکوہ ابھرا، گویا اپنے آپ میں شرمندگی کا اظہار کر رہی ہو، جسے زیر لب لاتے ہوئے وہ ذرہ برابر نہ گھبرائی۔ علم خوف و طمع کے سارے دروازے بند کر دیتا ہے۔ یہ سن کر پیر صاحب کے چہرے کا رنگ کچھ زردی مائل اور پھر سیاہ پڑ گیا۔ میں تو یونہی کھیل کھیل میں کہہ گیا تم بھی کیا غضب کرتی ہو، یوں چوری چھپے بڑوں کی باتیں نہیں سننی چاہئیں۔
ساجدہ نے پیر صاحب سے معذرت کرتے ہوئے مٹھائی کی ٹوکری کھولی اور حضرت کے منھ میں مٹھائی کا ایک ٹکڑا رکھتی ہوئی بولی:’’چلیے چھوڑیے، خاک ڈالیے ان بے کار کی باتوں پر اور غصہ تھوک دیجئے۔ “مبارک ہو آپ کی دعا رنگ لائی اور میں نانی بن گئی”۔ پیر صاحب نے ساجدہ کے سر پر شفقت و محبت کا ہاتھ رکھتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا اور پھنسی پھنسی سی آواز میں بولے میں شرمندہ ہوں یہ میرے لیے افسوس کا محل ہے کہ میرے منھ سے ایسی بات نکل گئی جس سے تمہیں سخت تکلیف پہنچی۔ پھر ساجدہ ٹوکری کے پاس واپس آئی وہ ٹوکری کے اندر سے پھولوں کی ڈلیا اور نذرانے کی رقم نکال ہی رہی تھی کہ اچانک ایک دل دوز چیخ فضا میں بلند ہوئی۔ وہ غش کھا کر زمین پر گر پڑی۔ اس کے جسم میں تناؤ اور لرزش پیدا ہونے لگی۔ شدت درد سے اس کی آنکھیں کبھی کھلتیں تو کبھی بند ہو جاتیں۔ اس نے پوری قوت سے سب کو آواز دی۔ اس کے سینے میں سانس جیسے رک سی رہی تھی۔ سانس لینا گویا اس کے لیے دشوار ہو رہا تھا۔
اس اچانک کی افتاد سے پیر صاحب کے کانوں کی لوئیں سرخ ہو گئیں۔ اسی اثنا میں دروازے پر دستک ہوئی اور آن کی آن میں کئی لوگ اکٹھے ہو گئے۔ ساجدہ کی قمیض کا ایک سرا مٹھائی کی ٹوکری میں الجھ کر اس کے پیٹ اور اوپر کے جسم کو ننگا کر رہا تھا۔ مٹھائی کی ٹوکری بھی حجرے میں ایک طرف کو بکھری پڑی تھی۔ پیر صاحب پر مشکوک نگاہیں اٹھنے لگیں۔ پیر صاحب کو ٹوکری کے اندر دبکے کسی سانپ کے کاٹنے کا گمان گزرا لیکن سانپ کا نام و نشان کہیں موجود نہیں تھا انھوں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی لیکن کچھ بھی نظر نہ آیا۔ یہ ایک معمہ تھا جو آن کی آن میں ظاہر ہوا اور ماحول پر ایک ناقابل بیان شدت کے ساتھ اچانک ہی چھا گیا۔
تھوڑی بہت دیر میں ماتمی ہوا حجرے میں پوری طرح داخل ہو چکی تھی۔ عقیدت میں ڈوبی ہوئی احترم و اکرام کی معیت لعنتوں و ملامتوں میں یک لخت بدل گئی۔ بچے بوڑھے جوان، عورت و مرد کے آہ و نالہ کی آوازیں حجرے میں بلند ہونے لگیں۔ شکوک و شبہات کے بادل آسمان پر پوری طرح چھا گئے تھے اور اب ایک زوردار آندھی کے ساتھ تیز بارش اور اولے پڑنے کا انتظار تھا۔ کسی بشر کے ذہن میں یہ بات صاف اور واضح نہیں تھی کہ اصل معاملہ کیا ہے؟ اب حبہ و دستار کی باری تھی۔
’’مریدوں کے آنکھ نہیں صرف کان ہوتے ہیں۔‘‘ پیر صاحب کے کانوں میں ایک لرزہ کر دینے والی سماعت ٹکرائی۔ بہت جلد آستانہ عالیہ سے پیر صاحب کو رخصت کرنے کی تیاریاں مکمل ہو گئیں۔ پیر صاحب گویا عاجزی و مسکنت کی آخری منزل طے کر رہے تھے۔
کوئی ساجدہ کے منھ پر پانی کے چھینٹے مار رہا تھا تو کوئی پنکھا جھل رہا تھا ایک عورت سر میں تیل ڈال رہی تھی تو دو عورتیں ہلکے ہلکے پیر دبا رہی تھیں۔ پیر صاحب بدحواسی کی حالت میں تسبیح و مناجات اور دعا میں لگے ہوئے تھے اور بار بار ساجدہ کے چہرے پر کچھ پڑھ کر پھونک رہے تھے۔ وہ بڑبڑا رہی تھی۔ اس کے اکثر الفاظ بالکل معنی تھے ۔ ایک طبیب کو بلایا گیا اس نے نبض دیکھی لیکن ان کے لیے کچھ سمجھنا مشکل تھا۔ خون کی روانی سست پڑنے لگی تھی۔ دماغ کے تمام عضلات میں گویا حرارت باقی نہ رہی تھی۔ اس بے ہنگم ہجوم کا ہر فرد چاہتا تھا کہ ساجدہ کو ہوش آ جائے وہ اٹھے اور کچھ بتائے کہ اصل ماجرا کیا ہے؟ اس اچانک کے ہنگامے میں پیر صاحب ایک مجسمہ کی صورت کبھی بیٹھتے تو کبھی اٹھ کھڑے ہوتے ۔ان کے لب گویا سل گئے تھے۔ وہ حواس باختہ تھے جس سے شرارتی اور فساد انگیز عناصر کو مزید فتنہ پھیلانے میں تقویت مل رہی تھی۔
تھوڑے سے وقفے کے بعد ساجدہ کی طبیعت پر ٹھہراؤ اور سکون کی کیفیت ظاہر ہونے لگی پھر اس نے ایک لمبی سانس کھینچی اور اچانک ہی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس نے چند ساعت کو تجسس پیدا کرنے والی خاموشی اختیار کی۔ چہرے پر ایک دل دوز رنجیدگی مترشح تھی پھر اس نے انگشت شہادت اوپر اٹھائی اور صلی علیٰ کی آواز بلند کی۔ اس نے ایک لحظہ توقف کیا پھر پیر صاحب کو بغور دیکھا۔ ان کی دھڑکنیں ٹھہری ہوئی تھیں اور سب ہمہ تن گوش تھے۔ اچانک بارش کی ہلکی سی پھوار صحن پر پڑی اب گرمی کی شدت قدرے کم ہو گئی تھی۔
ساجدہ پر وجد کی کیفیت طاری تھی۔ اب تاب انتظار نہیں پیچھے سے ایک مرید کی آواز آئی۔ کسی نے اونچی آواز اور تیز لہجے میں کہا۔ کیا ہوا سچ سچ اور جلدی بتاؤ۔ پھر اچانک ہی سبحان اللہ کی صدا بلند ہوئی۔ کلمہ طیبہ اور درود پاک کا ورد شروع ہوا۔ یک گونہ سکوت کے بعد وہ گویا ہوئی ’’میں کسی حقیقی وجود کے طلسم میں ابتک اسیر ہوں۔ میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے اور عین سعادت ہے کہ آپ جیسے مقدس بزرگ کا دیدار و مراقبہ نصیب ہوا۔ حضرت کی روح جنت معلی کی سیر کر رہی ہے۔ مجھے چند لمحے میں ہی حضرت کے ساتھ کئی برس کی رفاقت نصیب ہوئی۔ مجھے اشتیاق قدم بوسی کی اجازت درکار تھی کہ اچانک میری نیند کھل گئی۔ میرے راستے سے ہٹو میں حضرت کے متبرک قدموں کو جوتیاں پہنانے کی سعادت حاصل کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
ایک لمحے کے لیے حاضرین مجلس کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ ذہن میں ایک خلفشار برپا تھا جو اب دور ہوتا نظر آ رہا تھا۔ پھر ساجدہ کی وضاحت سے مطلع بالکل صاف ہو گیا اور مبارک سلامت کا شور بلند ہوا۔ گلاب و چنبیلی کی ہلکی سی بوچھار سے مذموم فضا پھر سے معطر ہو گئی۔ نذرانے پیش کیے گئے اور قدموں پر پھول ڈالے گئے۔ اب ماحول پر پوری طرح اطمینان کی کیفیت طاری تھی ۔ سب نے جھک کر باری باری سے سلام کیا اور تسلیمات بجا لائے۔ سانجھ ڈوبنے لگی تھی سورج زرد پڑ چکا تھا اکثر لوگ گھروں کو جا چکے تھے۔
آزردگی و برہمی غصہ اور خوف اب مایوسی اور پشیمانی میں بدل چکا تھا۔ کئی مریدین کی آنکھوں میں آنسو تھے تو بعض گستاخوں کے چہرے پر شرمندگی چھائی ہوئی تھی۔ اب تک کچھ لوگ صحن اور برآمدے میں مجتمع تھے۔ ایک ہی لمحے کو سارا ماحول قرق ہو گیا تھا۔ عورتوں کے چہرے پر رنج و اضمحلال کی سیاہی صاف نظر آ رہی تھی عام مردوں کے چہرے کسی تاثر سے بظاہر عاری تھے۔
ساجدہ نے کچھ سراسیمگی اور قدرے افسردگی کے عالم میں ایک خفیف اشارے سے حضرت کو اپنے سامنے بیٹھنے کا عندیہ فرمایا۔ سر کو ہلکہ سا بوسہ دیتے ہوئے اس نے اپنی آنکھیں نیچی کر لیں کہ کہیں کوئی اور گمان نہ کر بیٹھے۔ عورت کو نیچ، کند ذہن اور کمزور سمجھنے کا سبق اس نے پیر صاحب کو آج یک لخت ہی ازبر کرا دیا تھا۔ پھر نہایت شائستہ اور پر رعب آواز سرگوشی کی صورت ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ “حضرت میں نے گستاخی ضرور کی ہے لیکن آپ کو آشفتہ کرنے کی خواہش ہرگز نہیں تھی مقصد عورت کی اہمیت بتانی تھی۔ عزت و توقیر سے ذلت و رسوائی اور خواری و بدنامی سے بےپناہ عظمت و شہرت کا سفر آپ نے ایک عورت کی وجہہ سے چند لمحوں میں ہی طے کر لیا “۔ پیر صاحب غم و غصہ کو حلق کے اندر نگلتے ہوئے آہستہ سے بولے۔ “مجھے تو تم نے گویا طشت ازبام کر دیا”۔ رنج اور برہمی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ ایک پھیکی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر پھیل گئی۔ اس کیفیت سے مغلوب ہو کر انھوں نے اپنا سر قدرے جھکا لیا۔’’عورت کی تذلیل و تحقیر کا ایک ایسا درس اور ’سبق آموز‘ نصیحت جو عزت و ذلت کے تار عنکبوت میں الجھی تاحیات صیغہ راز میں ہی رہی۔ وہ کون ہے جو اس راز کی معنویت تک پہنچ سکے گا؟‘‘ ساجدہ نے ایک سرد آہ بھری، ایک لمبی سانس لی اور سامنے لگے قد آدم آئینے میں اپنا سراپا دیکھا پھر حجرے کے چاروں جانب نگاہ دوڑائی اور سلام کرتی ہوئی فوراً ہی دروازے سے باہر نکل گئی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146