اعضاء جسمانی میں سے بغیر ہڈی کے اور سب سے نرم عضو ’’زبان‘‘ ہے لیکن اس کا گھاؤ تلوار کے گھاؤ سے بھی زیادہ کاری ہے۔ تلوار کا گھاؤ تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مندمل ہوجاتا ہے لیکن زبان کا گھاؤ زندگی بھر سامنے والے بندے کو محسوس ہوتا ہے اور کچو کے لگاتا رہتا ہے۔ جی ہاں اسی زبان سے نکلے چند میٹھے الفاظ انسان کو محفل کی جان بنا سکتے ہیں اور چند کڑوے الفاظ اسے سامنے والوں کی نظروں سے گرا دیتے ہیں۔ آپ اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں تو اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوجائیں گے۔
انسان کی گفتگو اس کی شخصیت کی مظہر و عکاسی ہے۔ وہ اس زبان کی بدولت نہ صرف لوگوں کے دل میں گھر کر جاتا ہے بلکہ اس کی بات بھی سامنے والے کے دل پر اثر انداز ہوجاتی ہے جبکہ کڑوی اور بدزبان گفتگو کا مالک دوسروں کی نظروں سے نہ صرف گر جاتا ہے بلکہ بے اثر بھی ہوجاتا ہے۔ دین اسلام نے بھی حسن گفتگو، نرم خوئی اور خوش اخلاقی کو سراہا ہے۔ آپؐ کا ہر قول و عمل اللہ کی مرضی کے مطابق تھا، آپ کی گفتگو نرم لہجہ، انداز بیاں اور حسن اخلاق سے مکہ کا ہر فرد متاثر تھا۔ اسی خوبی نے کفارِ مکہ کے دلوں کو مسخر کیا۔ کٹر سے کٹر دشمن بھی آپ کی اس خوبی کے سامنے ڈھہ جاتا کبھی بھی زبان مبارک سے سخت الفاظ و بد دعا نہ سنی گئی۔ زندگی میں کئی ایسے موقعے آئے لیکن سبحان اللہ آپ کی گفتگو و انداز بیاں میں فرق نہ آیا۔ آپؐ نے فرمایا ہے کہ ’’مومن (دوسروں سے) مانوس ہوتا بھی ہے اور انہیں مانوس کرتا بھی ہے اور جو ایسا نہ کرے اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو۔‘‘ خوش اخلاقی کو مومن کی بہترین صفات میں سے کہا گیا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے بہترین اخلاق سے اپنی ذات کو سنوارنے کا حکم دیا ہے اور اسی حسن و خوش اخلاقی و حکمت و دانائی سے لوگوں کو دین حق کی طرف راغب کرنے کی بھی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ میں ارشاد ربانی ہے: ’’اے نبیؐ، اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت و عمدہ نصیحت کے ساتھ۔‘‘ اس ارشاد باری تعالیٰ سے ہدایت کی طرف بلانے اور پراثر پر حکمت اور موہ لینے والے انداز گفتگو و طریقے کار کی اہمیت واضح ہے۔ آپؐ کو اللہ نے ان خوبیوں سے منور کیا تھا کہ آپؐ نے عرب میں اسلام کی روشنی پھیلائی۔ سورہ آلِ عمران میں اللہ فرماتا ہے ’’یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم دل واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔‘‘
آج سے پندرہ سولہ سال پہلے کی بات ہے جو آج بھی میرے دل و دماغ پر نقش ہے۔ آپی (بڑی بہن) کے پڑوس کی ایک 5 یا 6 سالہ بچی سے آپی کے گھر ملاقات ہوئی جو اپنی میٹھی اور دلچسپ باتوں کی وجہ سے ہماری توجہ کا مرکز تھی۔ میں نے اسے پیار کرکے کہا ماشاء اللہ بہت پیاری بچی ہو آپ کا نام کیا ہے۔ بچی نے مجھے غصے، نفرت اور رکھائی سے جواب دیا میں پیاری بچی نہیں ہوں میں بہت ’’بدتمیز اور گندی‘‘ ہوں‘‘ میں نے بچی کو پیار سے کہا نہیں آپ تو بہت اچھی اور پیاری ہو بالکل گڑیا کی طرح۔
میری بات پر اس نے پہلے والے انداز میں ہی کہا، نہیں… نہیں، دادی، مما، بابا سب کہتے ہیں میں بدتمیز ہوں میں اچھی نہیں ہوں۔ وہ ہمیشہ مجھے یہی کہتے ہیں مین گندی ہوں… گندی ہوں۔ بچی کے ان دو جملوں سے اندازہ لگائیں کہ بڑوں کے ان چند غیر مہذب جملوں نے اس کے دل و دماغ کو کس طرح جکڑ لیا تھا۔ ہماری زبان سے نکلے چند الفاظ سامنے والے پر کاری ضرب لگانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ گفتگو کرتے وقت سامنے والے کے رشتے، مرتبے، عمر اور موقع محل کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ اگر کہیں سامنے والے کی غلطی دیکھیں تو تدبر و حکیمانہ انداز اختیار کریں اور کوشش ہونی چاہیے کہ لوگوں کے سامنے ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی تشہیر نہ ہو، بحث و تکرار اور طنزیہ گفتگو رشتوں اور ناتوں میں دراڑیں پیدا کردیتی ہیں۔ کئی موقعوں پر کفارِ مکہ نے آپؐ کے ساتھ زیادتی کی جس پر صحابہ کرام غصہ میں آجاتے لیکن آپ نے نرمی اختیار کی، آپؐ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر اتنا دیتا ہے جتنا سختی پر نہیں دیتا۔‘‘
گفتگو میں جھوٹ سے پرہیز بھی لازمی ہے جو لوگ جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے ہیں، دیکھا گیا ہے کہ ان کی سچی بات پر بھی کم ہی اعتبار کیا جاتا ہے۔ دین اسلام میں جھوٹ بولنے والے کے لیے کوئی رعایت نہیں ہے۔ (ابن ماجہ) جھوٹے گواہ کے پاؤں قیامت میں حرکت نہ کرسکیں گے جب تک کہ اس پر جہنم نہ واجب کردی جائے۔ ایک اور جگہ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ہمیشہ سچ بولو کیوں کہ سچ نیکی کا راستہ بتاتا ہے اور سچ اور نیکی جنت میں داخل کرنے والے ہیں تم جھوٹ سے بچو کیوں کہ وہ گناہ کا راستہ بتاتا ہے اور جھوٹ اور گناہ جہنم میں داخل کرنے والے ہیں۔‘‘
گفتگو کرتے ہوئے اسباب کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر آرام سے سوچ سمجھ کر گفتگو کی جائے، حضرت عبدالمالک بن عمیر فرماتے ہیں کہ۔
ایک آدمی نے کھڑے ہو کر نبی کریمؐ کے سامنے کلام کیا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے منہ سے جھاگ نکالا، اس پر نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:
’’تم سیکھو اور منہ پھاڑ کر کلام کرنے سے بچو اس لیے کہ منہ پھاڑ کر کلام کرنا شیطان کے منہ سے نکلنے والے جھاگ کی طرح ہے۔‘‘
بیکار اور فضول گفتگو سے پرہیز کے لیے آپؐ کا ارشاد ہے کہ آدمی کے اسلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ بیکار باتوں کا مشغلہ چھوڑ دے۔ (ترمذی) جبکہ آج ہم اپنے آس پاس دیکھیں تو لوگ بیکار فضول گفتگو میں جھوٹ اور غیبت سب گناہوں کا ارتکاب ہوتا رہتا ہے۔ وقت کا بھی گنوانا اور اپنے اعمال میں گناہون کا ذخیرہ جمع کرنا۔ یہ خصوصیت اکثر خواتین کی محفلوں میں دیکھی گئی ہے۔ بیکار اور فضول گفتگو، غیبت، طنز اور جھوٹ کا برملا اظہار کرتی ہیں۔ ان بیکار فضول گفتگو میں نہ صرف وقت کا ضیاع ہے بلکہ یہ معاشرتی برائیوں، فساد اور بگاڑ کا باعث بنی ہیں جسے اللہ تبارک تعالیٰ نے ناپسند فرمایا ہے۔
بعض لوگ اپنے برے انداز گفتگو کے سبب اپنی صحیح بات کو بھی دوسروں تک نہیں پہنچا پاتے، گلا پھاڑ کر غلط انداز میں یا جلد بازی سے گفتگو اس طرح کرتے ہیں کہ سامنے والے پر برا اثر پڑتا ہے اور ان کو صحیح بات بھی ناگوار گزرتی ہے یہ ان کی بدنصیبی ہے۔ اگر یہی بات وہ تحمل، بردباری نرم لہجے اور ٹھیر ٹھیر کر کریں تو نہ صرف دوسروں کے لیے وہ بات قابل قبول ہوگی بلکہ پسند بھی کی جائے گی۔ چاہے مخاطب چھوٹا ہو یا بڑا اگر اسے عزت و تکریم سے مخاطب کیا جائے تو وہ بھی آپ کی عزت کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ایک مرتبہ محفل میں میں نے اپنی بہو کو کسی کام کے لیے بیٹا جان کہہ کر بلایا۔ وہاں ایک بچی (شادی شدہ) بیٹھی ہوئی تھی بہت حیران ہوئی کہ آپ اپنی بہو کو اتنے پیار سے بلا رہی ہیں میری ساس تو کڑوی گولی کی طرح مجھ سے مخاطب ہوتی ہیں، میں نے اس بچی کو جواب دیا کہ اگر میں اسے عزت دوں گی تو لازماً وہ بھی مجھے دے گی۔
ایک اور بچی نے مجھ سے کہا کہ میں اپنی ساس سے بدتمیزی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی ہوں لیکن اس کی بدتمیزی اور سخت رویے کی وجہ سے میں اعتراف کرتی ہوں کہ میرے دل میں ان کے لیے وہ مقام اور عزت نہیں ہے جس کی وہ حقدار ہیں، ہاں میں بزرگ ہونے کے طفیل ان کا ادب ضرور کرتی ہوں۔ دوسروں کی گفتگو تحمل سے سننا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا، غلطیوں پر تدبر اور حکمت عملی سے ان کی اصلاح کرنا اچھی گفتگو کے حامل لوگوں کی خوبی ہے۔ دوران گفتگو دوسروں کی بات کاٹ کر اپنی بات شروع کرنا یا انہیں جھڑکنا بداخلاقی ہے۔ ایسے لوگوں کو شریک محفل پسند نہیں کرتے۔ آپؐ اور صحابہ کرامؓ کا طریقہ کار اور انداز گفتگو و محفل کے آداب کو مدنظر رکھ کر اپنی گفتگو پر نظرثانی کرنے سے اپنی گفت شنید کی غلطیاں اور کوتاہیاں دور کی جاسکتی ہیں۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ صاحب ایمان لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے اور اولاد کی تعلیم و تربیت میں بھی اسباب کی نگرانی و اصلاح ضروری امر ہے تا کہ وہ بھی گفتگو کے آداب سے آشنا ہوسکیں اور یہی طریقہ اختیار کرسکیں۔lll