مرد اور عورت کا باہمی تعلق تہذیب و ثقافت کا تشکیلی سانچہ بھی ہے اور اس کی علامت بھی۔ اس سلسلہ میں یوروپ کا اپنا ایک مزاج اور اس کی اپنی ایک تہذیب ہے۔ اس تہذیب کی دو خوبیاں ہیں۔ ایک خوبی یہ ہے کہ یہاں مرد اور عورت مطلق آزاد ہیں۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ مرد اور عورت برابر اور یکساں ہیں۔ اس کی آزادی بھی بلاقید آزادی ہے اور اس کی مساوات بھی بلا استثناء برابری ہے۔ ان دونوں نے مل کر یوروپ میں ایک خاص قسم کا ماحول اور خاص تہذیب و ثقافت کو فروغ دیا۔ آزادی نے ننگے پن کی شکل اختیار کرلی اور برابری اور مساوات نے ظلم و زیادتی کی صورت لے لی۔ جب اس آزادی اور مساوات کو قانون کا سہارا ملا تو اخلاق، انسانیت اور ہمدردی رخصت ہوگئے اور باقی رہ گیا صرف مفاد کا حصول اور لذت کوشی۔
مرد اور عورت آزاد ہیں تو شادی بیاہ کا کیا مطلب؟ آزادی کو قانون اور سماجی روایت کی قید میں کیوں دیا جائے؟ شادی کر کے ایک مرد کیوں ایک بیوی سے اور ایک عورت صرف ایک مرد ہی کے دامن سے بندھ کر رہ جائے۔ اور ایک عورت جب کہ وہ آزاد اور مرد کے ’برابر‘ ہے کیوں اپنی آزادی کو مرد کے حوالہ کر کے اس کی دست نگر اور اس کے خاندان اور بچوں کی ’وارڈن‘ بن کر رہ جائے۔ اس سوچ نے سماج کے تانے بانے ’بکھیر دیے‘ خاندانی نظام کو منتشر کر دیا اور نئی نسل کو بے راہ رو اور مجرم بنا دیا۔ نامعلوم ماں باپ کے بچوں کی بھیڑ جمع ہونے لگی۔ قانون نے ان کے تحفظ و پرورش اور حقوق کے لیے ادارے قائم کیے اور ان کو سرکاری دیکھ ریکھ میں پروان چڑھایا جانے لگا۔ یہ سرکاری ’’بچوں کی پروان گاہیں‘‘ ماں کی گود اور باپ کی شفقت و الے گھر کا بدل نہ بن سکیں۔ بالآخر یہ مجرمین کو پروڈیوس کرنے والے ادارے بن گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری مغربی دنیا میں ایک طوفان آگیا اور اہلِ نظر اس آزادی اور مساوات کے نتائج کو دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ مگر یوروپ اس راستے پر اتنی دور نکل گیا تھا کہ واپسی ناممکن تھی۔ واپسی تو کیا ہوتی وہ گزشتہ نصف صدی سے پوری دنیا کو اس کلچر کا خوگر بنانے اور ہر قیمت پر اسے پوری دنیا میں جاری و نافذ کرنے کی جدوجہد میں لگا ہوا تھا۔ اس کے لیے اس نے ہم خیال حکومتوں سے لے کر عالمی اداروں تک کو خوب استعمال کیا۔ عالمی پلیٹ فارمس پر اسی کلچر کے فروغ و اشاعت کے لیے ہتھکنڈے اپنائے اور پوری دنیا میں اسے غالب اور رائج بنانے کی منصوبہ بندی کر ڈالی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں طاقت کے توازن کو کنٹرول کرنے کے لیے اقوام متحدہ بنی۔ لیکن بہت جلد اس اقوام متحدہ نے طاقتور مغربی ممالک کے آلہ کار کی شکل اختیار کرلی اور اس وقت وہ پوری طرح انہی قوتوں کے ایجنڈے کو نافذ کرنے کا آلہ ہے۔ اقوام متحدہ کو جس طرح ان طاقتوں نے دنیا میں سیاسی استعمار کے لیے استعمال کیا اس سے زیادہ قوت کے ساتھ ثقافتی اور تہذیبی استعماری ایجنڈے کو دنیا بھر میں نافذ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ چناں چہ اس ادارے کی شہ اور اس کی پالیسی کے نتیجہ میں عالمی سطح پر درجنوں بڑی بڑی عالمی تنظیمیں اور ادارے قائم کیے گئے جنھوں نے خواتین کے حقوق، جنسی مساوات اور خواتین کی آزادی کے نام پر ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں اپنا مضبوط مکڑ جال پھیلا کر مغرب کی اس ننگی تہذیب کی حمایت میں اپنا پروگرام نافذ کرنا شروع کردیا۔ اس وقت اقوام متحدہ کی عالمی حقوق انسانی تنظیم کے تحت ایک پورا شعبہ ’’ڈویژن فاردی ایڈوانسمنٹ آف وومن‘‘ (DAW)کے نام سے سرگرم عمل ہے۔ اس کی کئی تنظیمیں ایسی ہیں جو براہ راست اس کی اپنی نگرانی میں کام کر رہی ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو براہِ راست تو اس کے تحت نہیں ہیں مگر اقوام متحدہ کے مختلف ادارے انہیں مالی تعاون فراہم کر کے انہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے دفاتر امریکہ میں واقع ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ان اداروں کا خاص ہدف عرب اسلامی ممالک بھی ہیں جہاں وہ مختلف ناموں سے NGO’s قائم کر کے اور ان کے حکمرانوں سے خواتین کے سلسلے میں جاری کردہ چارٹرس پر دستخط کراکر اپنا ایجنڈہ لازمی طور پر نافذکرانے کے لیے مسلم اور عرب حکمرانوں پر عالمی دباؤ بناتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب واضح ہے کہ عرب اسلامی دنیا ہی وہ دنیا ہے جس میں مرد اور عورت کا تعلق ایک خاص قسم کی اخلاقیات میں بندھا ہے چناں چہ وہاں وہ بے قید آزادی میسر نہیں جو مغربی دنیا میں حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری مغربی اور ’’ترقی یافتہ‘‘ دنیا مسلم معاشروں کو پسماندہ اور وہاں کی مسلم خواتین کو مظلوم اور مجبور گردانتی ہے۔ حالاں کہ ان ممالک میں یوں بھی جرائم کی شرح معمولی ہے اور خواتین کے خلاف جرائم تو بالکل ندارد ہے۔
اس کے باوجود محض مغرب کی تقلید اور مغربی دنیا کے سیاسی دباؤ میں عرب اسلامک ممالک ہی نہیں تیسری دنیا اور ایشیا کے قابل ذکر ممالک بھی اپنے یہاں خواتین اور عائلی زندگی کے سلسلے کے مغرب کی جانب سے، جن میں اقوامِ متحدہ خاص ہے، املا کردہ قوانین کو اپنے یہاں نافذ کرتے جا رہے ہیں۔ ان ممالک میں ہمارا ملک بھی قابل ذکر ہے۔ جہاں ہم جنسی کی شادی، لیواِن ریلیشن شب، نصف آمدنی لازمی طور پر بیوی کو دینا، طلاق کے بعد شوہر کی جائداد میں لازمی طور پر نصف کی حصہ داری وغیرہ ایسے امور میں جن پر حالیہ دنوں میں قوانین بنا کر مغرب کی تقلید کی کوشش کی گئی ہے۔
ان پورے قوانین اور ضوابط کا مقصد یہ ہے کہ مشرقی دنیا میں بھی وہی تہذیب رائج ہو جو مغرب میں ہے اور آزادی کا مغربی تصور اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک معاشرے کے مرد اور عورتیں ’شادی کے بندھن‘ سے آزادانہ کرادیے جائیں۔ چناں چہ آزادی اور مساوات کے نام پر وہاں طلاق اور علیحدگی کے قانون کو اتنا سخت اور بھیانک بنا دیا گیا ہے کہ مرد و عورت عمریں گزار دیتے ہیں ایک ساتھ رہتے رہتے۔ بچے بھی ہوجاتے ہیں مگر وہ شادی قانونی طور پر محض اس وجہ سے نہیں کرتے کہ اگر طلاق کی ضرورت پیش آگئی تو کیا ہوگا۔ یہی کچھ اب مشرقی دنیا میں بھی ہونے جا رہا ہے۔ اور یہاں لیوان ریلیشن شپ کو قانونی جواز دے کر نوجوانوں کو ازدواجی اور خاندانی زندگی گزارنے کے بجائے حرام کاری اور مفاد پر مبنی زندگی جینے کے لیے اکسایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف شادی کے بعد طلاق کو مشکل ترین بنا کر شادی کو ایک بڑا رسک اور خطرہ بنایا جا رہا ہے کہ نئی نسل اس سے دور ہی رہے۔ ان تمام چیزوں کا مقصد واضح ہے کہ شادی کو مشکل بنایا جائے اور زناکاری اور حرام کاری کو آسان کر دیا جائے۔ اس طرح آزادی کے اس تصور کی تکمیل ہوگی جو مغربی دنیا میں رائج ہے۔ اور جب یہ تہذیب رائج ہوگی تو خاندان کا آوارہ بکھر کر اپنا وجود کو کھودے گا جیسا کہ اس وقت مغرب میں دیکھنے میں آرہا ہے۔
اسے اس ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے Convention on the elimination of all forms of discrimination against women (CEDAW) تشکیل دیا۔ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۷۹ء میں اقوام متحدہ کے ذریعہ قائم کیے گئے اس ادارے نے ایک ضابطہ اخلاق بنایا اور اسے ’’خواتین کے حقوق کا عالمی چارٹر، کا نام دے کر ۳؍ ستمبر ۱۹۸۱ کو نافذ العمل قرار دیا۔ مزیدار بات یہ ہے کہ امریکہ نے CEDAW پر دستخط نہیں کیے۔جب کہ اس کے نفاذ تک محض ۲۰ ممالک نے دستخط کیے تھے۔ اور اب ۲۰۰۹ تک ۱۸۶ ممالک اس پر دستخط کرچکے ہیں۔ ۱۹۹۵ میں CEDAW کی کانفرنس میں عورت اور خاندان سے متعلق ایک اعلامیہ جاری ہوا جسے”Gender Perspective” کا نام دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا جنس کی بنیاد پر مرد اور عورت کے درمیان ہر قسم کی تفریق کا خاتمہ کیا جائے۔ اس اعلامیہ کی ۱۲۰ شقیں ہیں جو مکمل طور پر انسانی فطرت اور اسلامی اخلاقیات کے برخلاف ہیں۔ چنانچہ بیجنگ+۵ کانفرنس میں جو ۲۰۰۰ء میں منعقد ہوئی مسلم ممالک نے اس پر اپنا ردعمل ظاہر کیا اور کافی غور و فکر بحث و تحقیق کے بعد دنیا کے سامنے اس کا متبادل بھی پیش کیا مگر اگلی کانفرنس بیجنگ+ ۱۰ میں جو ۲۰۰۵ میں منعقد ہوئی مسلم دنیا کے پیش کردہ متبادل کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے گزشتہ کانفرنس کے اعلامیہ کو نافذ کرنے کی تدابیر اور طریقوں پر ہی غور و خوض ہوا۔ اس کے بعد مختلف ذیلی اداروں کی جانب سے کانفرنسیں ہوتی رہیں جن میں Women learning partner ship (WLP) کی جانب سے منعقد کی جانے والی کانفرنس Elimination of voilance against women in muslim societies خاص ہے۔بیجنگ+۱۵ کانفرنس کے آنے تک جو مارچ ۲۰۱۰ میں منعقد ہوئی، تقریباً تمام ممالک جن میں عرب اور اسلامی ممالک شامل ہیں CEDAW پر دستخط کرچکے تھے، سوائے امریکہ، سوڈان اور اسرائیل کے جو اقوام متحدہ کے دوہرے پیمانوں کو واضح کرتا ہے۔ چناں چہ تمام ہی ممالک کے اس چارٹر پر دستخط کردینے کے بعد اس بات پر گفتگو ہوئی کہ CEDAWکی سفارشات کو کس طرح مکمل اور جامع شکل میں دنیا بھر میں نافذ اور رائج کیا جائے۔ اس کانفرنس کے نتائج اور اعلامیے کوچا پوائنٹس میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
۱- جنڈر یعنی جنس کی بنیاد پر کسی بھی تفریق کو شدت کے ساتھ ختم کیا جائے اور مردوں، عورتوں اور تیسری جنس کو یکساں حقوق دیے جائیں۔
۲- CEDAW کا لحاظ کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کا لحاظ رکھا جائے اور خاندان، شادی، طلاق اور وراثت جیسے خاندانی معاملات میں وہ بالکل مرد کے برابر ہو۔
۳- نوجوانوں کو جنسی صحت کے وسائل فرائم کیے جائیں اور محفوظ جنسی عمل کے لیے استعمال ہونے والے ذرائع کو استعمال کرنے کی تربیت فراہم کی جائے اور وہ چیزیں مفت یا معمولی قیمت پر نوجوانوں کو مہیا کرائی جائیں۔
۴- عورت کے گھر میں رہنے اور بچوں کی دیکھ ریکھ شوہر کے کاموں کی انجام دہی اور گھر کے کاموں میں ہی لگے رہنے کو شدت سے رد اور ختم کیا جائے۔
اس کانفرنس میں شرکاء نے اس بات پر زور دیااور اختتامی سیشن میں اس کی شدید ضرورت کا اظہار کیا کہ عرب اور اسلامی ممالک کے حکمرا اپنے یہاں کے علماء اور مذہبی اداروں کے دباؤ میں آئے بنا CEDAW کے چارٹر کو نافذ کریں۔
اس کے بعد سے مسلسل ان ممالک پر دباؤ بنایا جا رہا ہے کہ وہ CEDAW کی سفارشات کو اپنے یہاں نافذ کریں۔ چنانچہ ۱۵؍ مارچ کے دوران اقوام متحدہ کے ادارے برائے امور خواتین کی جانب سے ایک کانفرنس منعقد کی گئی اور اس نے ایک اعلامیہ جاری کیا جسے “Elimination and prevention of all forms of voilance against women and girls” کا نام دیا گیا ہے۔ اس اعلامیے کی اہم نکات درج ذیل ہیں:
۱- گھر کے اندر کے کاموں مثلاً: اخراجات اور بچوں کی دیکھ ریکھ کو برابر برابر تقسیم کیا جائے۔
۲- تعدد ازدواج، عدت، ولی کی شرط، مہر اور شادی میں ’’دین‘‘ کی شرط کو ختم کیا جائے۔
۳- وراثت میں عورت کو برابر کا حصہ ملے۔
۴- سفر، نوکری، گھر سے نکلنے اور منع حمل کے سلسلے میں شوہر کی اجازت ختم ہو۔
۵- طلاق کا حق شوہر سے لے کر عدالت کو دیا جائے اور طلاق کی صورت میں تمام جائداد آدھی آدھی تقسیم ہو۔
۶- عورت کو عدالت میں شوہر کے خلاف ہر قسم کی شکایت کا حق دیا جائے۔
۷- لڑکی کو جنس کے اختیار کی مکمل آزادی ہو یعنی اگر وہ چاہے تو مرد سے شادی کرنے چاہیے تو لڑکی سے شادی کرے اور چاہے تو تیسری جنس سے۔
۸- نوجوان لڑکیوں کو منع حمل کے وسائل فراہم کرائے جائیں۔
۹- غیر منکوحہ عورت کو بھی منکوحہ کا درجہ ملے اور اس سے پیدا اولاد کو بھی وہی درجہ ملے جو منکوحہ کی اولاد کا ہے۔
۱۰- تیسری جنس کو بھی مرد و عورت کے حقوق دیے جائیں، ان کا احترام ہو اور ان کو حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ اور طوائف گری کرنے والوں کو بھی حکومت کی حمایت ملے۔اس کے ساتھ ہی اس کانفرنس میں ہم جنسوں کے لیے Homosexual کے لفظ بدل کر نئی شناخت LGBT عطا کی گئی اور اس کو رواج دینے کا اعلان کیا گیا۔
اقوامِ متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کی کارکردگی، اس کی کانفرنسوں کے اعلامیوں اورCEDAW سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ان کی تمام کوششیں پوری دنیا میں مغربی تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لیے ہیں۔ ان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ان پوری کوششوں کا ہدف اصلی مسلم ممالک اور مسلم دنیا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں ان کاوشوں کے نتائج بھی برآمد ہونے شروع ہوگئے ہیں اور عرب اور مسلم ممالک میں جواب تک اپنی معاشرت و ثقافت میں کافی شدت پسند واقع ہوئے تھے دھیرے دھیرے تبدیلی آرہی ہے۔مصر میں اس طرح کی کوششوں کو کامیابی ملی ہے اور آزاد خیالی کو فروغ ہوا ہے، ملیشیا، پاکستان جیسے مسلم ممالک کا طرزِ زندگی مغربی ہوتا جا رہا ہے اور سعودی عرب جیسے ’’مقفل‘‘ سمجھے جانے والے معاشرے میں عورتوں کو ہر دن ’’آزادی کا نیا تحفہ‘‘ نصیب ہو رہا ہے۔
مسلم دنیا اور مسلم سماج کے لیے آنے والے دنوں میں سب سے بڑا چیلنج اپنے خاندانی نظام اور بنیادی اخلاقی اقدار کا تحفظ ہوگا۔ مگر کتنے لوگ ہیں جو ان کوششوں کے پس منظر کو سمجھتے اور اپنے خاندانی نظام کو محفوظ رکھنے کی فکر اور تدبیریں سوچتے ہیں۔lll