ہمارے اعضائے جسمانی میں آنکھیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور ان کی دیکھ بھال بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ دوسرے اعضائے جسمانی کی ، لہٰذا ہم یہاں آنکھوں کی چند اہم ورزشیں پیش کرتے ہیں، جنہوں نے متعدد لوگوں کی عینک چھڑا دی۔ اگر آنکھ میں کوئی عضوی خرابی نہیں پیدا ہوگئی ہے، تو یہ ورزشیں سو فی صد فائدہ پہنچائیں گی۔ بس ان کا مسلسل استقلال کے ساتھ کرتے رہنا شرط ہے۔ انھیں دن میں کسی بھی وقت سہولت کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔
۱- اپنی آنکھوں کے بائیں کونے سے دور تک دیکھئے۔ اس طرح دائیں اور بائیں باری باری سے دیکھتے رہیے۔ یہ خیال رہے کہ آپ کا چہرہ بالکل سیدھا رہے، وہ دائیں اور بائیں جانب نظر کے ساتھ نہ مڑ جائے۔
۲- اپنی نظر کو اوپر کی جانب اٹھائیے اور اوپر دیکھئے، پھر فوراً ہی نظر کو نیچے کی جانب فرش پر لے آئیے، اس طرح آپ باری باری نیچے کی طرف دیکھتے رہیے۔
۳- یہ ورزش ایک طرح سے ورزش نمبر ایک اور ورزش نمبر دو ہی کی مشق ہے۔ اپنی آنکھوں کے ڈھیلے کو بائیں طرف سے گردش دے کر اوپر، دائیں اور نیچے کی طرف ملائیے اور اس طرح ایک چکر سا باندھ دیجیے۔ اس کے بعد یہی گردش دائیں طرف سے شروع کر کے اوپر، بائیں اور نیچے کی طرف دیجئے اور اس کا بھی ایک چکر باندھ دیجئے۔ گویا پہلے بائیں طرف سے ڈھیلوں کو گھمایا تھا تو اب دائیں طرف سے گھمایا جائے۔
۴- پہلے سامنے دور کسی چیز پر نظر ڈالیے، پھر ایک دفعہ ہی اپنی نظر کو واپس اپنے ہاتھ کی انگلیوں پر یا کسی دوسری چیز پر لے آئیے، جو آپ کی آنکھوں سے دو فٹ کے فاصلے پر ہو۔ اس سے آنکھوں کے ان عضلات کی ورزش ہوتی ہے جو آنکھوں کے فوکس کو درست کرتے ہیں۔
۵- آنکھیں بند کر کے انگلیوں سے پپوٹوں کا مساج کیجیے۔ اس سے دوران خون تیز ہوگا اور آنکھوں کے عضلات قوت پکڑیں گے۔
۶- آنکھوں کو خوب زور سے بھینچ کر بند کر دیجیے اور پھر ایک دفعہ ہی ڈھیلا چھوڑ کر کھول دیجیے۔
۷- جلدی جلدی پلکوں کو جھپکائیے۔ پندرہ سے بیس مرتبہ تک یہ ورزشیں بجز ورزش نمبر چھ تقریباً بیس مرتبہ تک کی جائیں گی۔ ورزش نمبر چھ کو تین چار مرتبہ تک کرنا کافی ہوگا، اس لیے کہ اس کو زیادہ کرنے سے آنکھوں میں خون زیادہ آجائے گا اور وہ سرخ ہوجائیں گی۔
۸- برنر میگفیڈن کے رسالے نیو فزیکل کلچر امریکہ بابت ماہِ اکتوبر ۱۹۴۶ء میں ایک شخص جے مرفی نے ان ورزشوں سے پوری طرح استفادہ کرنے کے بعد اس ضمن میں یہ بھی بتایا ہے کہ سورج کی شعائیں بھی آنکھوں کو تقویت پہنچاتی ہیں۔ بہت لوگ نقصان کے اندیشے سے اس کا اہتمام کرتے ہیں کہ سورج کی روشنی براہِ راست ان کی آنکھوں پر نہ پڑے۔ حالاں کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ آنکھ بنی ہی روشنی سے ہیں۔ روشنی ہی میں بصارت نصیب ہوئی ہے۔ وہ گدھے جو کانوں کے اندر کام کرتے ہیں اور کبھی سورج کی روشنی میں نہیں آتے، بہت جلد اندھے ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر ان کو کان سے باہر نکال کر کچھ ہفتے دن کے وقت سورج کی روشنی میں میدانوں میں چرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے، تو ان کی بصارت لوٹ آتی ہے اور وہ پھر دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ زیر زمین تالابوں کی مچھلیاں، جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچتی، بالکل اندھی ہوتی ہیں اور ان میں بہت سوں کی تو آنکھوں کا نشان بھی مٹ جاتا ہے۔ دور کیوں جائیے۔ جب کسی حیوان یا انسان کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو کچھ دیر روشنی میں رہنے کے بعد دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ پیدا ہوتے ہی اس کی بصارت کام نہیں کرتی۔ جب کچھ وقت روشنی میں گزارتا ہے تو اس کی قوتِ بصارت کام کرنے لگتی ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ آنکھوں کو تاریکی نقصان پہنچاتی ہے مگر خیال رہے کہ چکاچوند اور خیرگی جسے انگریزی میں (Dazzling) کہتے ہیں، اس سے فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ نقصان پہنچ جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ماہرین چشم یہ مشورہ دیتے ہیں کہ دن ہو یا رات، پڑھتے وقت اپنی نشست ایسی جگہ رکھئے کہ روشنی پشت پر سے آپ کی کتاب پر پڑے، آنکھوں پر نہ پڑے۔
بہرحال، سورج کی شعاعوں سے براہِ راست استفادہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ شروع میں دو تین دن تک سورج کی سمت یوں ہی دیکھ لیا جائے اور بس۔ اس کے بعد ایک لمحے کیلیے سورج کی طرف دیکھئے اور دیکھتے ہی پھر آنکھیں زور سے بھینچ لیجیے۔ دن میں ایک یا دو بار اس طریق پر سورج سے ’’آنکھیں لڑانا‘‘ آپ کی بینائی کو حیرت انگیز فائدہ پہنچائے گا۔lll