روشن ہوگئے منظر سارے اب تو اپنی آنکھیں کھول
دور ہوئے سارے اندھیارے اب تو اپنی آنکھیں کھول
بستی بستی خون برستے منظر نیند اڑاتے ہیں
او غفلت کی نیند کے مارے اب تو اپنی آنکھیں کھول
کب تک محوِ خواب رہے گی دجلہ اور فرات کی موج
جاگ اٹھے گنگا کے کنارے اب تو اپنی آنکھیں کھول
رفتہ رفتہ دھیرے دھیرے بات یہاں تک آپہنچی
ٹوٹ گئے عظمت کے منارے اب تو اپنی آنکھیں کھول
شمع حرم کی کانپتی لو پر تیز ہوا کا حملہ ہے
ایک ہوئے سارے اندھیارے اب تو اپنی آنکھیں کھول
اور رہا کیا دیکھنا باقی بزمی بے بس آنکھوں سے
دیکھ چلے قرآن کے پارے اب تو اپنی آنکھیں کھول