دنیا کا گہرا اندھیرا بھی کبھی کبھی ان آنکھوں کے سامنے ہلکا پڑجاتا ہے، جو اس وقت کچھ بھی دیکھنے سے انکار کرنا چاہتی ہوں۔ ہمدم صاحب اندھیرے کے اس ہلکے پن سے ڈر رہے تھے۔ اب انھیں موت کا نہیں، روشنی کا خوف تھا۔ رات بمشکل آدھی بیتی تھی۔ نہر کے کنارے اگتے پتوار کی لمبی کمان نما پتیوں کا بڑا گچھا ان کی آنکھوں اور آسمان کے درمیان بہت صاف ابھرا آیا تھا جیسے سیاہ روشنی والا کوئی انار چھوٹ کر ٹھہر گیا ہو۔
ہوا بالکل ساکت تھی اور صرف دو ہی چیزیں ہمدم صاحب کو نظر آرہی تھیں۔ باریک، لمبی تلوار جیسی پتوار کی سیاہ پتیاں اور ان کے پس پشت کسی خالی پڑے سنیما گھر کے ڈھکے پردے کی طرح کھنچا ہوا آسمان۔ اب انھیں خیال آیا کہ نیچے ٹخنے سے اوپر تک پانی ہے… ان کے پاؤں کو بھگوتا ہوا۔
بہت دیر سے رکی یا گھٹی ہوئی سانس اچانک ان کے پھیپھڑوں نے اس طرح کھینچی جیسے پانی میں طویل غوطہ لگا کر آئے ہوں اور اس کے ساتھ ہی ایک ابکائی سی آئی۔ اس بار ابکائی پسلیوں کے درد یا خوف کے ساتھ نہیں، ایک بدبو کی وجہ سے آئی… خون کی بدبو… اپنے خون کی یا دوسروں کے خون کی بدبو۔
دریں اثناء شاید وہ بے ہوش ہوگئے تھے کیونکہ پسلیوں سے لے کر کندھے اور کان تک آگ سے جلائے جانے جیسی تکلیف محسوس کرنے لگے۔ یہ غنیمت تھی کہ اب وہاں صرف وہ ناقابلِ برداشت جلن ہی تھی ورنہ جس وقت انھیں گولی لگی تھی، اس وقت تو یوں محسوس ہوا تھا جیسے کسی نے بہت وزنی کلہاڑی سے ان کا نصف حصہ چیر دیا ہو اور اس کے بعد کوئی ان کی پسلیاں مروڑ رہا ہو۔ تب ہی وہ چیخے تھے… بے ساختہ، بہت دردناک آواز میں۔
اب انھوں نے غور کیا۔ کیا وہ اکیلے ہی چیخ رہے تھے؟ وہاں تو بہت لوگ تھے؟ تاریکی میں وہ صحیح تعداد بھی تو نہیں جان سکے تھے، لیکن تقریباً سو آدمی تو ہوں گے ہی۔
موت سے پہلے آدمی کے جسم میں شاید بہت کچھ بدل جاتا ہے، مثلاً اس کی آواز۔ وہ اپنی بولی بالکل بھول جاتا ہے۔ اسے کوئی لفظ یاد نہیں رہتا، کان سننا بند کردیتے ہیں۔ خون دہشت سے تھم کر اتنی زور سے چیختا ہے کہ کان بہرے ہوجاتے ہیں۔ شاید یہی کچھ ہوا ہو۔ ہمدم صاحب کے علاوہ اور لوگ بھی چلائے ہوں گے، لیکن ان کی آوازیں سنائی نہیں دیں۔ یاد نہیں آتا تھا کہ انھوں نے گولی کی آواز بھی صاف سنی ہو۔
انھوں نے حرکت کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ صرف اتنا سا سوچنے سے انھیں محسوس ہوا جیسے کوئی ان کی پسلیاں مروڑ رہا ہو یا مروڑ کر اس زخم سے کھیل رہا ہو۔ ان کے گلے سے ایک دبی ہوئی کراہ نکلی، لیکن وہ فوراً خاموش ہوگئے۔ چند لمحوں کے خوفناک سناٹے کے بعد ایک چیخ اور ابھری، جیسے کسی کا گلا دبایا جارہا ہو۔ ہمدم صاحب اس بار اور زیادہ ڈر گئے۔ انھوں نے کراہ کر غلطی کی تھی اور اب اگر وہاں کوئی اور بھی زندہ ہے تو بس بری طرح چیخ کر انھوں نے آفت مول لے لی ہے۔ وہ لوٹ آئیں گے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر گولی ماردیں گے۔ ہمدم صاحب دم سادھے، دہشت سے آنکھیں موندے دیر تک انتظار کرتے رہے، لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہاں کوئی نہیں آیا۔ دہشت پھر بھی کم نہ ہوئی، وہاں اندھیرا بھی کم تھا۔ اگر وہ دوبارہ آجائیں اور تھوڑا سا دھیان دیں تو ہمدم یا اس چیخنے والے دوسرے شخص کو بآسانی تلاش کرسکتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ بھیانک صورتِ حال تو چار پانچ گھنٹے بعد آنے والی تھی، لیکن کیا اس وقت تک زندہ رہنے کا امکان ہے؟ انھوں نے مایوس ہوکر گردن نیچے جھکائی اور تیز دھار والے پتوار کی پتیوں پر ماتھا ٹکالیا۔ ان کے دونوں بازو مصلوب شخص کی طرح پتوار پر دراز ہوکر الجھے ہوئے تھے۔
پتوار پر پیشانی ٹیکے ہوئے اب ان پر ایک گہری مایوسی مسلط ہونے لگی یا شاید نیند یا نیم بیہوشی۔ خون کی بو اب اتنی تیز اور ناقابلِ برداشت ہوگئی تھی کہ انھیں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ خون کے دریا کے کنارے ڈال دیے گئے ہوں۔ انھیں اپنی بے بسی پر اچانک رونا آگیا، لیکن وہ رو نہیں سکے۔ گلے میں پھانسیں سی چبھیں اور آنکھوں میں جلن ہونے لگی۔ ہچکی آئی نہ آنسو۔
اے اللہ! یہ کیا ہوا؟ آخر میں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا۔ ہوش میں آنے کے بعد ان کے دل کی گہرائیوں میں یہ خیال ابھرا۔ وہ شخص پھر کراہا۔ بالکل ایسے ہی جیسے اس کا گلا گھونٹا جارہا ہو۔
خون کی تیز بو کے درمیان یہ آواز… ہمدم صاحب کو لگا جیسے موت بدبودار دانت چمکاتی ہوئی، ان کے کانوں کے پاس غرارہی ہو۔ اگر ان کی پسلیوں کی تکلیف پھر نہ ابھر آئی ہوتی تو وہ یقینا موت کے اس بدبو دار خیالی جبڑے سے بچنے کے لیے پتوار کے نیچے پھسل جاتے۔ انھوں نے اپنے دانت سختی سے بھینچ کر پیشانی پتوار پر اور زیادہ گاڑ دی۔
موت کے دانتوں کی وہ بدبو داروغہ شیام لال کو بھی محسوس ہوئی۔ وہ دو سپاہیوں کے ساتھ نہر کے کنارے کنارے سائیکل پر چلا جارہا تھا۔ سپاہی آپس میں بلند آواز میں باتیں کررہے تھے۔ داروغہ نے دوبارہ لمبی سانس کھینچی۔ اس بار وہ بدبو محسوس نہیں ہوئی۔ اسے لگا یہ وہم تھا لیکن اسی وقت ایک سپاہی نے بات چیت کا تسلسل منقطع کردیا۔ ’’یہ بدبو کا ہے کی ہے بے؟‘‘
اسی وقت داروغہ نے یہ بدبو پھر محسوس کی۔ اس بار پہلے سے زیادہ۔
’’کوئی مردہ جانور نہر میں پھینک دیا گیا ہے۔‘‘ لیکن یہ کہتے کہتے دوسرا سپاہی بھی سہم گیا۔ تینوں کو لگا کہ یہ بو مردہ جانور کی نہیں بلکہ تازہ خون کی ہے۔ اسی دوران دوسرے شخص کے کراہنے کی آواز سنائی دے گئی۔ رات کے سناٹے میں داروغہ جی کو جھرجھری آگئی۔ اچانک تینوں سائیکل روک کر اتر پڑے۔
داروغہ نے کڑکتی ہانک لگائی: ’’ابے کون ہے وہاں؟‘‘ جواب میں پہلے سے بھی زیادہ دہشت زدہ سناٹاچھا گیا۔
’’ابے کون ہے، بولتا کیوں نہیں؟‘‘ ایک سپاہی نے ٹارچ روشن کی۔
اب انھونے محسوس کیا کہ بدبو بہت تیز ہے اور ان کے پیروں کے قریب سے آرہی ہے۔ انھیں یہ بھی لگا کہ آس پاس کی زمین خاصی بھیگی ہے۔ اسی وقت پہلا سپاہی قریب قریب چیخ پڑا: ’’صاحب لاشیں، لاشیں!‘‘
داروغہ نے اپنی ٹارچ کی روشنی نہر کے ڈھال پر گھمائی۔ اس روشنی میں نہر کے پانی تک بہے خون میں لتھڑی لاشیں ایک دوسرے سے الجھی پڑی تھیں۔ دس، بیس، پچاس، سو… داروغہ نے اتنا خون اور اتنی لاشیں اپنی زندگی میں نہیں دیکھی تھیں۔
داروغہ جھٹکے سے پلٹا۔ اسے لگا کہ وہ چلائے گا، لیکن کوئی آواز نکالے بغیر وہ ڈھال سے کود کر سڑک پر آگیا اور تیزی سے شہر کی طرف پیدل ہی دوڑ پڑا۔ وہ اس طرح بے تحاشا دوڑرہا تھا جیسے موت لاشوں سے ہٹ کر اپنا خوفناک پنجہ اس کی طرف تانے پیچھے جھپٹتی آرہی ہو۔
نہر کے آر پار بنے پل سے گزرنے والی سڑک پر آکر دوڑنے میں اسے نسبتاً زیادہ آسانی ہوئی۔ گول چکر والے بڑے چوراہے سے سیدھا آگے بڑھ کر اس کی چوکی تھی، لیکن وہ ادھر نہیں گیا بلکہ دائیں مڑکر دوبارہ بائیں ایک تنگ سڑک پر اتر کر اسی طرح دوڑتا رہا۔
اسی سڑک کے سرے پر پولیس کپتان کا بڑا سا مکان تھا، جس کے باہر پہریدادوں کے لیے ایک چھوٹی سی گمٹی بنی ہوئی تھی۔ کوئی اور دن ہوتا تو داروغہ گمٹی پر کھڑے سنتری سے ضرور بات کرتا اور اسے خوش کرنے کے بعد کپتان صاحب کے بارے میں پوچھتا لیکن آج اچانک تاریکی کا لبادہ چاک کرتا ہوا، داروغہ نمودار ہوا اور چھلانک لگا کر پھاٹک کے اندر داخل ہوگیا۔ بوکھلایا ہوا سنتری چلایا: ’’ارے… ارے…‘‘
کپتان اس وقت ایک آرٹس سوسائٹی کے جشن تمثیل سے لوٹے تھے۔ ابھی انھوں نے ایک پیر جیپ سے باہر نکالا ہی تھا کہ نیم بدحواس داروغہ وہاں پہنچ گیا۔ جیب میں بیٹھا ہوا سپاہی اچھل کر داروغہ کے پیچھے آکھڑا ہوا۔
داروغہ بولا نہیں، اس نے صرف اس طرح مشینی سلیوٹ کیا جیسے ہتھیلی کی پشت سے پیشانی کا پسینہ پونچھ رہا ہو۔ ہاتھ براہِ راست نیچے نہیں آیا۔ لگا جیسے اس کا جوڑ اتر گیا ہو اوروہ جھول سا گیا ہو، کپتان نے اسے گھورتے ہوئے کہا: ’’کیا ہے؟‘‘
بہت کوشش کے بعد داروغہ کے گلے سے دوبارہ غیرو اضح لفظ نکلا: ’’جناب…‘‘
یہ تخاطب اتنا مڑا تڑا تھا جیسے وہ اسے بہت دیر تک پسیجی مٹھی میں دبائے رہا ہو۔
کپتان نے بہت جلد اس کی وحشت بھانپ لی۔ چوکی میں کوئی حوالاتی اس کے ہاتھوں مرگیا ہے۔ انھوں نے تھوڑی درشت لیکن، اطمینان بخش آواز میں کہا: ’’ٹھیک ٹھیک بتاؤ، کیا بات ہے؟‘‘
وہ ایک لفظ ’’جناب‘‘ بھی اس بار صاف ادا نہ کرسکا۔ وہ کچھ اس طرح کانپنے لگا جیسے اس پر دورہ پڑنے والا ہو۔
’’ہوا کیا؟‘‘ آرام سے بتاؤ۔ ’’تماشا نہ کرو…‘‘ کپتان نے کیا: ’’پانی پیو گے؟… پانی لاؤ!‘‘
داروغہ کو سنبھلنے میں کچھ زیادہ ہی وقت لگا۔ تب تک دونوں سپاہی بھی داروغہ کی سائیکل لیے ہوئے پھاٹک پر آن کھڑے ہوئے۔
داروغہ نے لاشوں کی جو تفصیل بتائی تو کپتان صاحب اس پرفوراً یقین نہ کرسکے۔ انھوں نے داروغہ کو ایک بار پھر بغور دیکھا۔ داروغہ نے شراب پی ہوئی نہیں تھی۔ بھنگ پینے کے بعد بھی یہ حالت نہیں ہوسکتی تھی۔
کچھ دیر بعد داروغہ نے جو کچھ بتایا کپتان صاحب اس پر یقین نہیں کرسکے۔ ’’اتنی لاشیں…؟‘‘
’’ہاں جناب سینکڑوں…‘‘
’’لاشیں کہاں ہیں؟… کہاں؟‘‘
’’بارڈر پر جناب۔ میرٹھ غازی آباد بارڈر پر نہر کے اندر…‘‘
’’نہر کے اندر؟ غازی آباد میں؟‘‘
’’جی جناب!‘‘
کپتان صاحب لپک کر دفتر والے کمرے میں آئے۔ اس کے وائرلیس پر کسی کو بھونڈی آواز میں لگاتار کوئی اطلاع بھیجی جارہی تھی۔ بہت بلند آواز میں کپتان صاحب نے لاشوں کی اطلاع کنٹرول روم بھیجی اور لڑکھڑاتے داروغہ کو ساتھ لے کر نہر کے کنارے چل دیے۔
گھبراہٹ میں داروغہ اس جگہ کی شناخت کرنا بھول گیا تھا۔ اس نے اندازاً جیپ جس جگہ رکوائی وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ بہت دور تک تاریکی میں جھینگروں کی آواز کے سوا سب کچھ پر سکون تھا۔ نہر میں بہت تھوڑا پانی چپ چاپ بہہ رہا تھا۔
کیا اس نے خواب دیکھا تھا؟ وہ مغالطہ تھا؟ داروغہ بوکھلا گیا۔ اس کی آواز ایک بار پھر غائب ہوگئی۔ اس دوسرے صدمے سے وہ بے ہوش ہوجاتا کہ وہ کراہ کہیں دور سے آتی ہوئی سنائی دی۔ اس بار جیسے کوئی قے کررہا ہو۔
قے ہمدم صاحب ہی کررہے تھے۔ بہت دیر سے گھٹی ہوئی متلی ان کے سوکھے گلے کو چرچراہٹ کے ساتھ پھاڑ کر باہر آگئی تھی۔ بھیانک بدبو اور اپنی بے بسی کے بعد وہ اس گھناؤنے رد عمل کے لیے قطعاً تیار نہیں تھے، لیکن انھوں نے اسے بھی قبول کرلیا۔ اینٹھن کے ساتھ پسلیوں سے کندھوں تک پھیل جانے والے درد سے لڑتے ہوئے انھوں نے دوبارہ اپنی مرضی سے قے کرنی چاہی لیکن اس بار بہت بھیانک گوں گوں اور بے بسی آلود رونے کے علاوہ گلے سے کچھ بھی باہر نہ آیا۔
اس کے بعد وہی ہوا جس کا انھیں اندیشہ تھا۔ بہت سے بھاری قدم دوڑتے ہوئے قریب آئے۔ ان کے ساتھ ہی فوراً ایک گاڑی بھی آگئی۔ کئی ٹارچیں اور جیپ کی ہیڈ لائٹس سے بہت تیز اور چکا چوند پیدا کرنے والی روشنی کا دھماکا سا ہوا۔ انھیں پولیس کی وردیوں کی جھلک سی نظر آئی۔ انھوں نے گندگی کو نظر انداز کرکے دانت بھینچے اور پیشانی دوبارہ پتوار سے پیوست کردی لیکن وہ اپنے آپ کو اس حالت میں زیادہ دیر نہ رکھ سکے۔ اس کے بعد وہ اپنی موت کے تمام انتظامات کو بخوبی دیکھ لینا چاہتے تھے۔
’’زندہ ہے!‘‘ ایک آواز آئی۔ آوازسن کر سرد پانی میں ڈوبے ٹخنوں میں ایک تھرتھراہٹ ہوئی، لیکن انھوں نے آنکھیں بند نہیں کیں۔ ٹارچ کی روشنی میں ان کی بہت پھٹی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر کپتان اس کی طرف جھکا: ’’ڈرو نہیں، باہر آؤ…‘‘
اس کی اس آواز پر اس نے کوئی حرکت نہیں کی۔پلک تک نہ جھپکائی۔ انھیں اور قریب سے دیکھنے کے لیے کپتان نے پاؤں نہر کے اندرونی نشیب پر اتارا۔ پاؤں ٹکا نہیں جیسے وہاں چکنی کیچڑ ہو، وہ پھسل گیا۔ کھڑا ہوا تو اس نے دیکھا کہ اس کی وردی، جوتوں اور ہتھیلیوں پر نیم منجمد، سرخ اور کہیں گرد آلود سیاہی مائل خون لتھڑ گیا ہے۔ پھر جیپ کی روشنی میں اسے نہر کے کنارے سے لے کر پانی تک لاشیں ہی لاشیں ایک دوسرے سے الجھی ہوئی نظر آئیں۔
’’یہ ہوا کیا ہے؟‘‘
’’جناب گولیاں! انھیں گولیاں لگی ہیں…‘‘ ایک سپاہی نے کہا۔
وہاں کل ۷۸ یا ۷۶ لاشیں تھیں۔ دو ابھی زندہ تھے۔ اٹھائے جاتے وقت بھی وہ ان سپاہیوں کے بارے میں اسی بے یقینی سے آنکھیں پھاڑ کر گھور رہے تھے۔ کپتان کو خون کی بو لاشوں اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے کے بعد محسوس ہوئی۔ دو بڑے داروغاؤں کو وہاں چھوڑ کر کپتان صاحب گھر لوٹ آئے۔ جلد از جلد غسل کر لینا چاہتے تھے۔ زندگی میں پہلی بار وہ وردی پر سرخ سیاہی مائل داغ دیر تک کٹ کٹ کر گرتے دیکھتے رہے۔ جب نہاکر واپس آئے تو انھوں نے محسوس کیا کہ انھیں کچھ غیر معمولی ٹھنڈ محسوس ہورہی ہے۔
زندہ بچنے والے دونوں اشخاص کے زخموں میں زیادہ بو نہیں تھی۔ ہمدم صاحب کے اوپر سے دوسری پسلی اور کندھے کے درمیان گولی لگ کر ترچھی نکل گئی تھی۔ دوسری پسلی بری طرح ٹوٹ چکی تھی اور بغل میں بازو کے نیچے گوشت پھٹ کر لٹک گیا تھا۔ خون ضرور زیادہ بہہ گیا تھا، لیکن پھیپھڑے صحیح سلامت تھے۔ دوسرے آدمی کے کولہے میں دو گولیاں لگی تھیں۔ آپریشن کے بعد دونوں کو دوسرے دن دوپہر تک ہوش آگیا۔
کپتان صاحب نے خود بیان لیا۔ پہلے دوسرے شخص کا۔ تکلیف خاصی حد تک کم ہوگئی تھی، لیکن بولنے میں سانس کچھ اکھڑتی تھی۔ پھر بھی وہ گرمجوشی سے بیان دیتا رہا۔ ’’صاحب! اللہ مالک ہے، اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر میں نے کبھی کوئی اسلحہ جمع کیا ہو یا بلوے فساد میں حصہ لیا ہو…‘‘
’’ٹھیک ہے وہ بعد کی بات ہے۔ پہلے یہ بتاؤ کہ تمہارا نام کیا ہے اور کہاں کے رہنے والے ہو…؟‘‘ کپتان صاحب نے پوچھا۔
’’صاحب، وہی تو بتایا تھا۔ صاحب! میں غریب آدمی، ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتا ہوں۔ انھوں نے ہم بے قصوروں پر گولی چلائی…‘‘
’’بھئی، نام بتاؤ، نام!‘‘
’’عبدالرؤف۔‘‘
’’کہاں رہتے ہو؟‘‘
’’ملیانہ میں۔ سبزی منڈی میں صاحب، وہاں پنکچر بناتا ہوں۔‘‘
’’ہوا کیا تھا؟‘‘
’’صاحب اللہ گواہ …‘‘
’’بھئی، تم بات تو بتاؤ… کپتان صاحب تھوڑا بے صبر ہوگئے۔‘‘ تم نہر تک کیسے پہنچے، کس نے گولی ماری؟‘‘
’’پی اے سی نے صاحب، پی اے سی نے گولیاں چلا کر ہم کو بجھا دیا۔ میرا کوئی قصور نہیں تھا صاحب! مگر ان لوگوں نے ہمیں گھیر لیا تھا۔‘‘
’’کہاں گھیر لیا؟‘‘
’’ہمارے ہی گھروں میں۔ ہزاروں سپاہی تھے پی اے سی (پراونشل آرمڈ کانسٹیبلری) کے۔ ہمارا سارا سامان سڑک پر پھینک دیا۔ عورتوں اور بچوں کو رائفلوں کے کندوں سے مارنے لگے تو ہم بکسوں کے ڈھیر کے پیچھے سے نکل آئے۔ سب لوگوں کو باہر اکٹھا کرلیا۔ محلے کے جتنے بھی مرد تھے، بوڑھے، جوان کسی کو بھی نہیں چھوڑا۔ سب کو لے کر شہر سے باہر آگئے۔ تب ان کا افسر بولا: ’’یہاں نہیں غازی آباد لے چلو۔‘‘بس، صاحب نہر تک لائے، پھر سب کو قطار میں کھڑا کردیا اور تڑاخ تڑاخ گولیاں چلانے لگے۔ صاحب ایک ایک کو بھون دیا۔ ایک ایک کو… ایک ایک کو مار دیا صاحب…‘‘ وہ شخص رونے لگا۔ کپتان صاحب نے آہستہ سے اس کا ہاتھ دبایا۔
پورا واقعہ خوفناک بھی تھا اور الجھن میں مبتلا کردینے والا بھی۔ سرشام ملیانہ میں لوگوں کو گھروں سے نکالا گیا اور غازی آباد کی حدود میں لاکر پی اے سی نے گولیوں سے بھون دیا۔ عبدالرؤف تعداد تین چار سو بتاتا ہے لیکن اگر اب لاشیں نہر میںنہیں تھیں تو زخمیوں سمیت ان کی تعداد ۷۸ تھی۔
اب باری ہمدم صاحب کی تھی، لیکن وہ کچھ دیر تک نہیں بولے۔ کئی بار پوچھنے پر اپنا نام اور پتہ بتادیا اور پھر چپ ہوگئے۔
’’کیا بہت تکلیف ہے؟‘‘ کپتان نے تنگ آکر پوچھا۔
’’نہیں حضور! اب بہتر ہوں۔‘‘وہ پھر خاموش ہوگئے۔ اب وہ کپتان کو نہیں، چھت کو گھو رہے تھے۔ جب شاید ان کی آنکھیں تھک گئیں تو انھوں نے پلکیں موند لیں اور بہت آہستہ سے ایک شعر پڑھا:
دنیا میں اے جواں، روش صلح کل نہ چھیڑ
جس سے کسی کو رنج ہو، ایسا بیاں نہ چھیڑ
شعر پڑھنے کے بعد وہ خاموش ہوگئے۔ بہت کوشش کے بعد بھی وہ نہیں بولے تو کپتان صاحب مایوس سے ہوگئے۔ جب وہ باہر جانے لگے تو ہمدم صاحب نے دایاں ہاتھ تھوڑا سا اٹھایا اور دھیرے سے آواز دی: ’’سنیے…!‘‘
کپتان صاحب فوراً واپس آگئے۔ ’’فرمائیے؟‘‘
’’آپ تشریف رکھئے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، بیٹھ جاؤں گا۔ میں چاہتا ہوں آپ بیان دے دیں۔‘‘
ہمدم صاحب دھیرے سے بولے: ’’جناب! میں عرض کروں۔ اس ملک کو کسی بہت بڑی سازش کا شکار بنایا جارہا ہے۔ میں جانتا ہوں آپ ایک ایماندار اور سچے افسر ہیں۔ آپ خود بھی واقف ہوں گے۔ بس یہی تکلیف ہے میرے دل میں۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے، لیکن آپ اس ’’وقوعہ شوٹنگ‘‘ کے بارے میں کچھ بتائیں۔‘‘
’’وقوعہ شوٹنگ! دیکھئے اس وقت ہمارے ملک کے وزیر اعظم راجیو گاندھی پر چاروں طرف سے حملے ہورہے ہیں۔ اپوزیشن غیرملکی طاقتوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر وزیرِ اعظم کو اقتدار سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ عالی جناب! ان کی کوشش ہے کہ ملک ٹکڑے ٹکرے ہوجائے، اس لیے انھوں نے راجیو گاندھی پر گندے الزامات عائد کرنا شروع کردیے ہیں۔ جناب آپ جانتے ہیں کہ وہ اتنے اعلیٰ و افضل خاندان کے وارث اور سارے ملک کے مالک ہیں۔ بھلا توپوں اور آبدوزوں کے کمیشن سے ان کا کیا بھلا ہوگا، جناب…‘‘
’’بجا فرمایا آپ نے، لیکن میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں پر گولیاں کس نے چلائیں؟‘‘ کپتان صاحب کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹنے لگا۔
’’حضور! اللہ کی مرضی۔ آپ جیسے نیک دل لوگ جانتے ہیں۔‘‘ ہمدم صاحب نے سانس لے کر اور مضمحل آواز میں اپنی بات کا آغاز کیا۔ ’’جناب لوگ کہتے ہیں اترپردیش کے وزیرِ اعلیٰ جناب ویر بہادر سنگھ صاحب نے، اللہ ان کی عمر دراز کرے، میرٹھ میں فسادات کروادیے۔ وہ بھی اس لیے کہ لوگوں کی توجہ بوفورس کی طرف سے ہٹ جائے اور حفظ امن و امان کے نام پر وشواناتھ پرتاپ سنگھ کے باقی جلسے روکے جاسکیں۔ میں پوچھتا ہوں، حضور اس میں کیا برائی ہے؟ آخر یہ سیاست ہے جناب، کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے اگر اس ملک کو انتشار اور علیحدگی پسندی سے بچانے کے لیے اور اپنے ہر دلعزیز راجیو گاندھی کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے میرٹھ سے چند قربانیاں طلب کی گئیں تو اس میں کیا قباحت تھی؟ عوام کا فرض ہے ملک کے لیے قربانیاں دینا۔ جناب شاعر نے کہا ہے، سب سے پہلے مرد بن…‘‘
کپتان صاحب نے بے چینی سے بالوں میں انگلیاں گھسائیں اور سر کو اس طرح جھٹکا دیا جیسے بالوں کی گرد جھاڑ رہا ہو۔ پھر وہ کچھ ناراضی کے ساتھ بولا: ’’دیکھئے بھائی، میں جو کچھ پوچھ رہا ہوں، آپ وہ بتائیے…‘‘
’’جی؟ بہتر ہے، بہتر ہے حضور!‘‘ ہمدم صاحب کچھ زیادہ ہی مایوس ہوگئے۔
’’کیا یہ سچ ہے کہ آپ لوگوں کو یہاں لاکر پی اے سی والوں نے گولی ماری؟‘‘
’’جناب، فرقہ پرست اور انتشار پسند طاقتیں کہاں نہیں ہیں حضور؟ میں عرض کرنا چاہتا ہوں…‘‘
کپتان صاحب نے بہت لمبی سانس لے کر کہا: ’’ہمدم صاحب! میرا خیال ہے اب آپ آرام فرمائیے…‘‘
’’جی؟ جی ہاں، شکریہ‘‘ ہمدم صاحب کے چہرے پر مایوسی اور گہری ہوگئی۔
اسپتال میں انھیں زیادہ دن نہیں لگے۔ وہ کندھے سے لے کر پسلیوں سے نیچے تک پلاسٹر میں ملفوف، باہر تشریف لائے اور میرٹھ جانے والی بس پر سوار ہوگئے۔ انھوں نے ملیانہ تک پہنچتے پہنچتے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ بال بچوں سے ملنے کے بعد جلد از جلد گورنر صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل کریں گے۔ پی اے سی کے ذریعہ غازی آباد کی حدود میں چھہتر آدمیوں کے قتل عام کے بارے میں اخبارات صدائے احتجاج بلند کرنے لگے تھے۔ انھیں اس معاملے میں پیش قدمی کرنی ہوگی۔ یہ ان کا فرض ہے۔
ملیانہ ویسا نہیں تھا جس میں انھوں نے زندگی گزاری تھی۔ ملیانہ کی مین روڈ پر بارڈر کے پاس والی پلیا کے اوپر دونوں طرف سپاہی بیٹھے تھے۔ کھڑکھڑے والے نے انھیں ملیانہ سے کچھ پہلے دائیں جانب مڑنے والی سڑک کے پاس اتار دیا تھا۔ وہاں سے پیدل راستہ کچھ زیادہ نہیں تھا۔ انھیں قطعاً امید نہ تھی کہ قصبہ شروع ہونے سے پہلے ہی سپاہیوں سے ملاقات ہوجائے گی۔ وہ غیر ارادی طور پر سہم گئے۔ لیکن اب پیچھے جانا بھی ممکن نہ تھا۔ انھوں نے کلیجہ مضبوط کیا اور سیدھے قدموں کے ساتھ پلیا کی طرف بڑھے۔
وہ عجیب اجڈ قسم کے سپاہی تھے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے، انھوں نے ہمدم صاحب کو گھورنا شروع کردیا۔ ان نگاہوں کے نرغے میں چلنا ایسا لگا جیسے کسی نے انھیں تیروں سے چھلنی کرکے اٹھالیا ہو۔ سپاہی شاید کچھ زیادہ ہی متجسس تھے، جب وہ عین ان کے درمیان پہنچے تو ایک سپاہی نے بے حد اجڈ انداز میں آواز دی: ’’میاں جی!‘‘
’’ملا جی کہو، ملا جی، کہاں چلے؟‘‘
’’آپ نے کچھ ارشاد کیا؟‘‘ ہمدم صاحب نے رک کر نہایت شائستگی سے پوچھا: ’’سپاہی ہنسنے لگے: ’’ابے شاعری بولتا ہے۔‘‘
ہنسنے سے فارغ ہونے کے بعد کسی سپاہی نے سنجیدگی سے پوچھا: ’’کہاں جارہے ہو؟‘‘
’’جی، گھر جارہا ہوں۔ جناب۔‘‘
’’کہاں سے آئے ہو؟‘‘
’’اسپتال سے، چوٹ لگ گئی تھی۔‘‘
ہوں، تبھی۔ تمھیں معلوم نہیں کہ یہاں کرفیو لگا ہے۔
’’جی کرفیو؟ مگر میں تو اپنے گھر جارہا ہوں بندہ پرور!‘‘
’’کہا نہیں کہ کرفیو لگا ہے۔ جاؤگے کیسے! پاس ہے کرفیو کا؟‘‘ سپاہی نے پوچھا۔
’’جی پاس تو نہیں ہے، مگر میں تو…‘‘
’’میاں جی، میری صلاح مانو۔ واپس ہولو۔ مصیبت میں پڑجاؤگے۔ ہم تو شرافت سے پیش آرہے ہیں۔ آگے ڈنڈے سے بات ہوگی۔‘‘
’’جی‘‘ ہمدم صاحب پریشان ہوگئے۔ ’’اگر میں یہاں… میرا مطلب ہے کرفیو پاس تو بنتا ہوگا؟ دیکھئے میں…‘‘
ہمدم صاحب کے جی میں آیا کہ وہ بتادیں کہ وہ ایک مشہور قومی شاعر ہیں، حتی کہ گورنر صاحب کے روبرو بیٹھ کر اپنی نظمیں سنائی ہیں، لیکن وہ رک گئے۔
سپاہی شاید اتنا برا نہیں تھا۔ سمجھاتا ہوا بولا: ’’ملا جی، پہلے بنتاتھا، اب نہیں۔ اب تو میرٹھ میں بنوانا پڑے گا۔ ڈی ایم کے یہاں چلے جاؤ، بن جائے گا۔ تم تو اسپتال میں تھے، اس لیے تمہارا کیس مضبوط ہے…‘‘
ہمدم صاحب نے ایک بار سپاہیوں کو دیکھا۔ انھیں محسوس ہوا کہ جو کچھ کہا گیا ہے اسے مان لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔
میرٹھ میں حالات بہتر نہیں تھے، بلکہ میرٹھ، غازی آباد روڈ کے بس اڈے سے بہت پہلے انھیں روک دیا گیا۔ انھیں شہری حدود سے باہر اس طرح نرغے میں لے لیا گیا جیسے وہ کوئی مغرور ملزم ہو۔
بے حد خفت اور ذلت کے ساتھ اپنی پسلیوں پر چڑھا ہوا پلاسٹر کئی بار دکھانے کے بعد صرف اتنا ہوا کہ ان سپاہیوں نے انھیں جانے کی اجازت دے دی۔
واپس؟ لیکن کہاں؟
وطنی اور قومی فرائض کے بعد پہلی بار انھیں اپنے گھر کی یاد آئی۔ اس سال چونے میںپیلی مٹی ملا کر پتائی کرانے کے بعد دروازوں پر روغنی نیلا رنگ انھوںنے خود ہی لگایا تھا۔ دروازے خوب چمکنے لگے تھے۔ ان کی بدمزاج بیوی ان سے چاہے جس طرح پیش آتی ہو، پڑوس کی ہر عورت پر اس نے ان کی شاعری اور گورنر صاحب سے ان کے تعلقات کا رعب غالب کررکھا تھا۔
گزشتہ سال چھبیس جنوری یومِ جمہوریہ کے موقع پر ان کی بہت کوششوں کے بعد گورنر کی کوٹھی پر ہونے والے مشاعرے کا دعوت نامہ محکمہ اطلاعات نے دے دیا تھا۔ مشاعرے والے دن شام کوئی چار بجے گورنر کے یہاں ہونے والے عصرانے میں شرکت کا موقع بھی انھیں حاصل ہوگیا تھا۔ اس عصرانے میں شرکت کے اعزاز کو وہ کبھی فراموش نہیں کرسکتے تھے۔ وہاں کتنے بڑے بڑے لوگ تھے۔ پولیس افسران اپنے تمغے چمکاتے ہوئے، اعلیٰ حکام، مودب ملازمین، بہترین مٹھائیاں، پیروں کے نیچے دبیز قالین جیسی گھاس…
ہمدم صاحب کے بچوں نے بہت دیر تک فرمائش کرکے ان سے ہر مٹھائی کی شکل اور ذائقے کی تفصیلات معلوم کی تھیں۔ اس کے بعد بچے مٹی اور پتھر کے ٹکڑوں سے مٹھائیاں بنالیتے اور اینٹوں پر کوئی ردی کا غذسجاکر انھیں میزیں سمجھ لیتے، اس طرح گورنر صاحب کے یہاں کی ٹی پارٹی کا کھیل وہ بہت دنوں تک کھیلتے رہے تھے۔
قصائی منا، اس دعوت کے بعد انھیں اہم ترین اور معزز شخص ماننے لگا تھا۔ بھنبھناتی مکھیوں والے چبوترے پر بیٹھ کر وہ انھیں چائے پینے کے لیے مجبور کردیتا تھا۔ جس بنئے سے وہ راشن لاتے تھے، اسے بھی انھوں نے باتوں ہی باتوں میں سب کچھ بتادیا تھا۔ اسے راشن کی دکان کے لائسنس کی ضرورت تھی، لہٰذا اس نے انھیں دو بار روک کر ٹھنڈے مشروب کی بوتل پلائی تھی۔
انھیں اس وقت اس سے کچھ زیادہ یاد نہیں آیا۔ احساس ہوا کہ اس دوران گھر سے باہر ایک زمانہ گزرچکا ہے اور یادداشت خاصی کمزور ہوگئی ہے۔ انھوں نے بادل نخواستہ ایک اہم فیصلہ کرلیا۔ وہ گورنر صاحب سے ملیں گے، حالانکہ ننگے بدن پر چڑھے پلاسٹر کے اوپر لٹکایا ہوا کرتہ بہت بے ڈھنگالگ رہا تھا، لیکن ایسے ہی سہی۔ کپتان صاحب نے یہ مہربانی ضرور کردی تھی کہ چلتے وقت انھیں ان کا کرتہ اور پاجامہ بھی دے دیا تھا۔ پتہ نہیں سرکاری خزانے یا اپنی طرف سے اس نے جو سو روپے انھیں دیے تھے اس میں سے بہت تھوڑی سی رقم خرچ ہوئی تھی۔ اپنے اس وقت کے مسئلے کے لیے گورنر صاحب سے ملاقات کچھ ایسی تھی جیسے چیونٹی مارنے کے لیے توپ استعمال کی جائے، لیکن انھیں اس کے سوا کوئی اور راستہ نہ سوجھا۔
اس بار گورنر صاحب کی کوٹھی انھیں اتنی دلکش نہیں لگی۔ صدر دروازے کے سنتری نے بھی ان پر توجہ نہیں دی۔ لیکن آگے ایک چھوٹا حوض بنا ہوا تھا۔ اس سے کچھ پہلے ہی دو آدمیوں نے انھیں ٹوکا۔
غنیمت ہوا کہ انھوں نے کچھ شائستگی سے کام لیا اور کوٹھی کے استقبالیہ کمرے کی طرف اشارہ کردیا۔ استقبالیہ کمرے میں چند حضرات کسی موضوع پر بہت گرمجوشی سے بحث کررہے تھے۔ ہمدم صاحب بہت ادب سے تسلیمات عرض کرکے ایک کنارے کھڑے ہوگئے۔
دراصل یہ معاملہ کسی کی چھٹی کا تھا جس کی فائل گم تھی۔ جب وہ مباحثے سے قریب قریب تھک گئے تو ان میں سے ایک ہمدم صاحب کی جانب متوجہ ہوا: ’’فرمائیے!‘‘
’’آداب عرض ہے۔ خاکسار کو ہمدم ملیانوی کہتے ہیں۔ گزشتہ برس ۲۶؍جنوری کے مشاعرے میں حضور نے اس ناچیز کو یاد فرمایا تھا…‘‘
’’جی، اچھا، تشریف رکھئے۔‘‘ اس نے کہا۔
ہمدم صاحب کچھ بے تکے انداز سے کرسی میں دھنس گئے اور پسلیوں میں ابھرنے والے درد کی وجہ سے تھوڑی سی بگڑی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ بولے: ’’جناب، اسپتال سے آرہا ہوں۔ ایک عجیب حادثہ سا ہوگیا تھا۔‘‘
اسپتال کے نام پر وہ صاحب کچھ متجسس سے ہوئے۔ ’’کیا ہوا تھا؟‘‘
’’کیا عرض کروں حضور! میری بدقسمتی کہیے۔ جناب اسی سلسلے میں حضرت عارف صاحب سے شرف ملاقات حاصل کرنے کا خواہشمند تھا…‘‘
’’اوہ…‘‘ وہ آدمی سمجھ گیا کہ ہمدم صاحب علاج کے لیے کچھ مانگنے کے لیے آئے ہیں۔ اس نے اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے کہا: ’’گورنر صاحب تو اس وقت کہیں تشریف لے جارہے ہیں۔ وزیرِ صحت سے ملاقات کیجیے۔‘‘
’’جی؟‘‘
’’اگر ضرورت ہو تو ایک سلپ دے دوں؟‘‘
’’جی شکریہ، مگر جس کام کے لیے میں گورنر صاحب سے ملنا چاہتا ہوں… میرا مطلب ہے مجھے دراصل کچھ عرض کرنا ہے…‘‘
’’کس سلسلے میں؟ آپ مجھے بتائیں…‘‘ اس شخص نے کہا۔
ہمدم صاحب کو کچھ تذبذب ہوا، پھر وہ دھیرے دھیرے بتانے لگے: ’’حضور بات یہ ہے کہ احقر ملیانہ کا رہنے والا ہے۔ جی ہاں وہی ملیانہ آج کل کرفیو لگا ہوا ہے۔ جناب میں کیا عرض کروں… میں ان دو لوگوں میں سے ایک ہوں، جنھیں باقی سو ڈیڑھ سو گولوں کے ساتھ غازی آباد لے جاکر بھون دیا گیا تھا۔‘‘
’’کیا؟‘‘ اچانک وہ شخص بوکھلا گیا۔ ’’مطلب آپ، یعنی آپ کو، میرا مطلب ہے کہ…‘‘
’’حضور میں ان ہی لوگوں میں سے ایک ہوں۔ اللہ کاشکر ہے کہ میں بچ گیا۔‘‘
لیکن وہ شخص اب آگے کی بات نہیں سن رہا تھا۔ اس نے بے چینی سے پہلو بدل کر کہا: ’’سنئے! آپ ذرا انتظار کیجیے، میں ابھی حاضر ہوا۔‘‘
’’بہتر ہے حضور، بہتر ہے۔‘‘
’’آپ کے لیے چائے بھجواتا ہوں۔‘‘
’’جی نہیں، شکریہ، ایک گلاس پانی مل جاتا…‘‘
’’پانی؟‘‘ اس شخص نے کسی کو بلا کر انھیں پانی اور چائے دینے کے لیے کہا اور کوٹھی کے اندر چلا گیا۔
وہ خاصی دیر بعد واپس آیا۔ اس وقت تک پانی تو آگیا تھا، لیکن چائے نہیں آئی تھی۔ اس شخص نے آتے ہی کہا: ’’عزت مآب جانے والے ہیں، لیکن آپ سے دو منٹ کے لیے ملنا پسند کریں گے۔‘‘
’’یا اللہ…‘‘ ہمدم صاحب نے چھت کی طرف دیکھ کر کہا: ’’تیرا کرم ہے…‘‘ گورنر صاحب اپنے دفتر میں تھے۔ انھوں نے ہمدم صاحب کو بہت عزت سے اپنے قریب کی سیٹ پر بٹھایا۔ ہمدم صاحب کا گلا بھر آیا: ’’جس سرکار کے سب سے بڑے حاکم اتنے رحم دل اور مہربان ہوں اس حکومت کے خلاف لوگ ایسی باتیں کریں۔‘‘
وہ کچھ دیر تک کچھ بولے بغیر گورنر صاحب کو ڈبڈبائی آنکھو ںسے دیکھتے رہے۔ گورنر صاحب ان کی دلی کیفیت سمجھ گئے۔ چند لمحوں بعد انھوں نے پوچھا: ’’کیسے ہیں آپ؟‘‘
’’جی آپ کی دعا سے زندہ ہوں۔ ویسے حضور میں اسے بھی اللہ کی رضا مانتا ہوں۔ اس نے مجھے زندگی کی کچھ اور مہلت بخشی ہے تاکہ میں فرقہ پرستوں اور ملک دشمن طاقتوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرسکوں۔ حضور! اب دیکھئے جو غازی آباد والا حادثہ ہوا ہے اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد کی جارہی ہے جبکہ سب بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت مادرِ وطن کے لیڈروں کے خلاف کھلے عام سازش کی جارہی ہے…‘‘
گورنر صاحب نے ایک اخبار آہستہ سے ان کے سامنے رکھ دیا، غازی آباد کے حادثے کے بارے میں وزیرِ اعلیٰ کا بیان چھپا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’چھہتر آدمیوں کا قتل عام سراسر جھوٹ ہے۔‘‘
اخبار پڑھتے پڑھتے ہمدم صاحب جوش میں آگئے۔’’یہ ٹھیک کیا جناب۔ اس سازش کا جواب اسی طرح دینا چاہیے تھا۔‘‘
ہمدم صاحب باقی خبر پڑھتے پڑھتے مضطرب ہونے لگے۔ خبر ختم کرنے کے بعد وہ پھٹی آنکھوں سے گورنر صاحب کو گھورنے لگے۔ کچھ دیر بعد ہی ان کے منہ سے آواز نکلی: ’’جناب ، میں … اللہ کی قسم جناب… یہ سب جھوٹ ہے، سفید جھوٹ۔ میں… میرا مطلب ہے دو سال قبل پاکستان سے شعراء آئے تھے۔ میں نے ان سے ملاقات ضرور کی تھی، مگر خدا گواہ ہے میرا کسی پاکستانی جاسوس سے تعلق… مگر حضور سنئے… کیا آپ اس بیان پر یقین کرتے ہیں؟ میں تو عبدالرؤف صاحب سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ وہ سائیکل کا پنکچر تو ٹھیک سے بنا نہیں پاتا۔ غیر قانونی اسلحہ جات کیسے بنائے گا… جناب… میں… یہ تو حد ہوگئی حضور، یہ تو درست ہے جناب، آپ تو مجھے جانتے ہیں۔ جناب قومی یک جہتی پر میری نظم پر آپ نے خود داد دی تھی۔ حضور، یقین کیجیے۔ یہ سب جھوٹ ہے جناب، سفید جھوٹ۔‘‘
گورنر صاحب نے ہاتھ بڑھا کر دھیرے سے ان کا کندھا دبایا۔ اور کوئی وقت ہوتا تو ہمدم صاحب اس احسان سے نہال ہوجاتے اور اس اعزاز کا تذکرہ مہینوں تک کرتے رہتے، لیکن اس وقت وہ ہاتھ وہیں پڑا تھا جہاں زخم تھا اور اس لمس سے انھیں فخر نہیں بلکہ شدید درد محسوس ہوا جو ان کے کلیجے تک اترگیا۔
——