[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

احساس زیاں

انور کمال (مرحوم) وانمباڑی

اس نے کینوس پر آخری ٹچ دے کر برش کو ایک طرف رکھ دیا، اور پہاڑی سے نیچے کی طرف دیکھنے لگا۔ دور بکریوں کا ایک ریوڑ گزررہا تھا، جسے شبنم ہانک رہی تھی۔ وہ اس کی آئیڈیل تھی۔ وہ اکثر اس کے خیالوں میں چلی آتی۔ اس نے شبنم کی تصویر آرٹ کمپٹیشن کے لیے روانہ کی تھی، اور اس کو اس سال کا بہترین آرٹسٹ تسلیم کرلیا گیا تھا۔

فضا میں خنکی بڑھنے سے ہوا میں نمی آگئی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے بارش شروع ہونے والی ہے۔ وہ کینوس اور برش وغیرہ اٹھا کر اپنے چھوٹے سے بنگلے کی طرف چلنے لگا۔ ابھی تھوڑی دور ہی چلا ہوگا کہ بوندا باندی شروع ہوگئی اور پھر چندہی لمحو ںکے بعد بارش شدت اختیار کرنے لگی۔ درختوں کے پتے موسلا دھار بارش میں پھڑپھڑاتے ایک خاص قسم کا شور پیدا کررہے تھے اور درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھے ہوئے پرندے سردی کی شدت سے بے چین ہونے لگے تھے۔

اپنے بنگلے تک پہنچتے پہنچتے وہ کافی بھیگ چکا تھا۔ کینوس وغیرہ کو ایک طرف رکھ دیا اور آتش دان میں رکھے ہوئے کوئلوں اور لکڑیوں میں آگ لگائی۔ پھر اپنے گیلے کپڑے تبدیل کیے اور شیشوں کے دریچے سے باہر برستے ہوئے پانی کو دیکھنے لگا۔

اچانک اس کو پیچھے ہلکی سی آہٹ محسوس ہوئی اور وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے لگا۔ اس کے سامنے شبنم کھڑی تھی، وہ اس کی طرف عجیب سے نظروں سےدیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے کے تاثرات بتار ہے تھے کہ وہ کسی گہری سوچ میں ہے۔ شاید اس کو کسی بات کا افسوس ہے، یا وہ اس سے ناراض ہے۔ وہ اس کی طرف کچھ ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے وہ کچھ سوچ رہی ہو یا وہ اس میں کچھ ڈھونڈنا چاہتی ہو، اس کے چہرے پر معصومیت بھی تھی اور غم کی لکیریں بھی اور کچھ بے بسی کا احساس بھی۔

اس کے اندر شبنم کی نظروں کی تاب لانے کی سکت نہیں تھی۔ اس کی نظروں نے اسے ایک عجیب قسم کی تھکن کا احساس دیا تھا جو اس نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا حالانکہ وہ بارہا بلا سوئے اور بلا تھکے کام کرنے کا تجربہ بھی کرچکا تھا۔

شبنم گم صم کھڑی ہوئی تھی۔ آتشدان سے نکلنے والے شعلے سخت سردی میں جسم اور ماحول کو گرمی دینے لگے تھے۔ اچانک اس کے لبوں میں جنبش ہوئی اور وہ رک رک کر کہنے لگی: ’’یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔ ناصر! کیوں کہ تم بھی ایک عام مرد بن گئے ہو۔ شہرت حاصل کرنے کے لیے تم نے میری نیم عریاں تصویر پیش کی ہے اور ایک مشہور آرٹسٹس بن گئے ہو۔ مگر ناصر! تمہیں لوگوں سے ایک سوال یہ کرنا چاہیے کہ انسان ذہنی سکون چاہتا ہے یا جسمانی آسودگی، سچی محبت چاہتا ہے یا صرف لذت؟‘‘

اس کی یہ بات سن کر سخت سردی کے باوجود بھی ناصر کے چہرے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ پل بھر کے لیے زوردار بجلی چمکی اور پھر کڑک کے ساتھ دوبارہ سناٹا چھا گیا۔

ناصر نے آگ کو بھڑکانے کے لیے کوئلے کے چند ٹکڑے اور ڈالے اور پھر شبنم کی طرف دیکھا لیکن شبنم کہاں؟ کمرے میں اس کے سوا کوئی نہیں تھا! پھر اس نے ہال کے کونے میں رکھے ہوئے کینوس کی طرف دیکھا — مگر— مگر یہ کیا؟ کینوس تو ایک کورے کاغذ کی مانند بالکل صاف تھا۔ اس پر کوئی تصویر نہیں تھی۔

کمرے میںصرف شبنم کے سوال کی گونج سنائی دے رہی تھی کہ انسان ذہنی سکون چاہتا ہے یا جسمانی آسودگی؟ محبت چاہتا ہے یا لذت؟

***

جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تو وہ جاگ رہا تھا۔ ’’کیا ابھی تک تم نہیں سوئے؟‘‘ شبنم نے پوچھا۔

’’میں تمہارا انتظار کررہا تھا۔‘‘ ناصر نے کہا۔

یہ سن کر وہ چپ ہوگئی اور اپنی آنکھیں بند کرکے کچھ سوچنے لگی۔

’’سنو!‘‘ تھوڑی دیر بعد ناصر نے اس کو مخاطب کیا۔

’’ہوں‘‘ اس نے اپنی نیم وا آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔

’’میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ بولا۔

’’اس کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ وہ بولی ، پھر وہ جانے کی تیاری کرنے لگی۔

’’کیا تم جارہی ہو؟‘‘ ناصر نے شکایت آمیز لہجے میں پوچھا۔

’’ہاں—!‘‘ وہ بولی۔

’’کیوں—؟‘‘ اس نے پوچھا

’’مجھے پیاس محسوس ہورہی ہے!‘‘ وہ بولی۔

’’کیا تم پیاسی ہو؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔

’’ہاں! برسوں سے۔‘‘ شبنم کے لہجے میں شدید درد کا احساس پوشیدہ تھا۔

ناصر کو ایسا لگا جیسے کسی نے اس کے دل میں نوکیلی سلاخ گھونپ دی ہو اور اس کے لب تھرتھرانے لگے ۔

’’ایسا کیوں ہے–؟‘‘ اس نے دھیرے سے پوچھا۔

’’سب خود غرض ہیں۔ ہر کوئی اپنی پیاس بجھانا چاہتا ہے، کوئی بھی دائمی اور سچی محبت نہیں کرتا۔‘‘

وہ کچھ کہہ نہ سکا اور کمرے میں خاموشی چھا گئی۔

چند لمحوں بعد ناصر نے کچھ کہنا چاہا۔ اچانک اس پر کھانسی کا دورہ پڑا۔

’’کیوں؟ کیا ہوا—؟‘‘ شبنم نے پوچھا۔

’’میں بھی تمہاری ہی طرح—‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔

’’کیا تم بھی پیاسے ہو؟‘‘ شبنم نے حیرت کا اظہار کیا۔

’’ہاں برسوں سے!‘‘ اب ناصر کے لہجے میں درد تھا۔ اس نے کہا : ’’میں اس ٹہنی کے مانند ہوں جس کے پھل نوچ لیے گئے ہوں اور اب وہ بے وقعت ہوگئی ہے۔‘‘

اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔

پھر—!!

وہ دونوں کسی گہری سوچ میں کھوگئے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں