اخوان المسلمون اور عالمی برادری

یحییٰ بن زکریا

جمہوریت اور انتخابات عالمی سطح پر تسلیم شدہ طرزِ حکمرانی ہے۔ شخصی اور خاندانی حکومتوں کا دور ختم ہوچکا ہے۔ کیااس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا سے جبر و استبداد کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ ایسا نہیں ہے! نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے باوجود ایشیا و افریقہ کے غلام ملکوں کے عوام کو حقیقی آزادی میسر نہیں آئی ہے۔ خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے مسلمان ملکوں میں فوجی جبر و استبداد نے اپنے پنجے گاڑ رکھیں۔ چونکہ اسلام کی بنیادی تعلیم مسلمانوں کو غلامی قبول کرنے پر راضی نہیں رکھتی اس لیے ہر جگہ آزادی کی تحریکیں جاری ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مغربی دنیا نے جمہوریت کا نعرہ لگانے کے باوجود مسلم ممالک میں فوجی جبر و استبداد کی کیوں سرپرستی کی۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے اگر جمہوریت نئی عالمی سامراجیت کی خدمت گزار ہے تو قابلِ قبول ہے ورنہ نہیں۔مسلم ممالک کا علاج فوجی جبر واستبداد ہے۔امریکی اور مغربی ممالک کی ’’جمہوریت‘‘ کا ایک نمونہ ہم مصر میں دیکھ رہے ہیں۔ مصر دنیائے اسلام اور عالمی سیاست میں اہم مقام رکھتا ہے۔ مصر بھی دنیائے اسلام کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد سے فوجی آمریت اور جبرو استبداد کی حکمرانی رہی ہے۔ عرب بہار کے بعد حسنی مبارک کی جابرانہ استبدادی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ فوجی وعسکری جبرواستبداد کے خاتمے کے لیے مصر کے عوام نے عصر حاضر میں غیر معمولی عوامی مزاحمت اور جان و مال کی قربانی کی مثالیں قائم کیں۔ جمہوریت کی بحالی کی عوامی جدوجہد کی رہنمائی اور قیادت کا فریضہ اسلامی تحریک اخوان المسلمون نے انجام دیا۔ اخوان المسلمون آمرانہ حکومت کے دور میں سیاسی پابندیوں کا شکار رہی، لیکن اخوان کی عوامی جمہوری جدوجہد نے حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ کیا، اس کے ساتھ ہی اخوان نے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی، مصر میں عوامی حکمرانی اور جمہوریت کے ذریعے اسلامی قوتوں کی پیش رفت کو سیکولر فوج اور اس کے پشت پناہ امریکا، برطانیہ اور اسرائیل نے قبول نہیں کیا اور ایک بار پھر فوج نے منتخب حکومت اور منتخب صدر کو برطرف کردیا اور سیاسی کارکنوں کے لیے جیل خانے کھول دیے گئے۔ جنرل عبدالفتاح السیسی کے جابرانہ اقدام کو امریکا اور برطانیہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیر نے جن کو خود برطانیہ میں سابق امریکی صدر بش جونیئر کاپوڈل کہا جاتا تھا بیان دیا ہے کہ مغرب کو ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ کے خلاف جنگ کو اپنی پہلی ترجیح قرار دینا چاہیے اور اس مقصد کے لیے مصر میں فوجی حکومت کی حمایت کی جانی چاہیے۔ ٹونی بلیر نے اس بات کوچھپانے کی کوشش بھی نہیں کی کہ مغربی دنیا مصر کی حکومت کے جبرو استبداد، جمہوریت دشمنی، عوام کی منتخب حکومت کی معزولی اور کینگرو عدالتوں کے ذریعے سیاسی کارکنوں اور عوام کو دی جانے والی سزائوں کی سرپرست ہے۔ اسی وجہ سے جنرل عبدالفتاح السیسی نے کہا ہے کہ وہ اگر صدر منتخب ہوگئے تو اخوان المسلمون کا وجود بھی مٹادیں گے۔ یہ ہے امریکہ اور برطانیہ کی سرپرستی میں جاری جمہوری اور انتخابی ڈرامے کی حقیقت۔ جمہوری جدوجہد کو کچلنے کے لیے مصر کی جانبدار عدالتیں تھوک کے حساب سے سیاسی کارکنوں اور عوام کو پھانسی اور قید کی سزائیں دے رہی ہیں۔ مصر کی ایک عدالت نے جمہوریت اور منتخب حکومت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنے کے الزام میں مزید 107 کارکنوں کو 5 سے 10 سال قید کی سزا سنادی ہے۔ 102 افراد کو 10، 10 سال جب کہ 5 افراد کو 5، 5 سال کی سزا سنائی ہے۔ اس سے پہلے مصر کی ایک عدالت اخوان المسلمون کے مرشد عام محمد بدیع سمیت 683 افراد کو سزائے موت سنا چکی ہے مصر کے عوام اپنے ملک میں جمہوریت اور منتخب حکومت کی بحالی کے غیر معمولی صبرو استقامت اور قربانیوں کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ مصر کے عوام دشمن نام نہاد جمہوری ماڈل کو امریکااور مغرب نے قبول کرلیا ہے اس لیے دنیا نے اپنی آنکھیں اور زبان ایک اہم ترین ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ظلم و استبداد سے بند کی ہوئی ہی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں