اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کے لئے سکون کا ذریعہ بنایا ہے۔ وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرواور تمہارے درمیان محبت و الفت پیدا کردی۔‘‘
یہ انسانی زندگی کی بڑی ضرورت ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لئے باعث سکون ہوں۔ یہ صورت حال ہو تو اس سے جو نفسیاتی آسودگی اور ذہنی و جذباتی طمانیت حاصل ہوتی ہے وہ خوشحال زندگی کے لئے اور زندگی کے مختلف محاذوں پر کامیابی کے لئے بنیاد کا کام کرتی ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ایک اچھی بیوی کو مرد کے لئے اللہ کی عظیم ترین نعمتوں سے ایک قرار دیا ہے۔ ایسا ہی معاملہ عورت کے ساتھ بھی ہے۔ شوہر اور بیوی میںایک دوسرے کے ساتھ محبت اور ہم آہنگی ہو تو گھر بھی سکون کا گہوارہ بنتا ہے۔ بچوں کو خوشگوار ماحول میسر آتا ہے۔ ایسے ماں باپ کے بچے نفسیاتی لحاظ سے مضبوط اور اچھی جذباتی ذہانت کے مالک ہوتے ہیں۔ ایک مثالی جوڑا صرف اپنے لئے اور بچوں کے لئے ہی نہیں بلکہ وسیع تر خاندان کے دیگر اجزا پر بھی اچھے اثرات ڈالتا ہے اور بالآخر ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل میں کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے بالمقابل اگر شوہر اور بیوی کی آپس میں ناچاقی ہو تو گھر ان دونوں کے لئے تو جہنم بنتا ہی ہے، سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہوتا ہے۔ ان کے حواس مستقل ناخوشگوار مناظر کی زد میں رہتے ہیں۔
منفی جذبات اور منفی رویوں کی یورشوں کے درمیان جب ان کے معصوم جذبات تشکیل پاتے ہیں تو ان کی شخصیتوں میں خلا رہ جاتا ہے۔جذباتی ذہانت کم ہوجاتی ہے۔ بچپن کے ناخوش گوار تجربات زندگی بھر ان کا پیچھا کرتے ہیں ۔ ان کے اندر ایسے رویوں کو پروان چڑھاتے ہیں جو ساری زندگی ان کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ ایک جوڑے کے درمیان تنائو، شوہر اور بیوی کے ماں باپ ، بھائیوں، بہنوں اور ان کے خاندانوں پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔اس طرح ایک جوڑے کا تنازعہ پورے معاشرہ کا زخم بن سکتا ہے۔
ہمارے ملک میں بطور خاص مسلمانوں میں ازدواجی تنازعات کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔دس سال پہلے ہمارے ملک میں ایک ہزار میں سے ایک شادی ٹوٹتی تھی اب یہ شرح بڑھ کر پندرہ ہوچکی ہے۔ شہروں میں تو یہ شرح بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ میٹرو شہروں میں گزشتہ چند سالوں کے درمیانطلاق کی شرح کئی گنا بڑھ گئی۔ کیرلہ جیسی ترقی یافتہ ریاستوں میں ہر پانچ گھنٹوں میں ایک شادی ٹوٹ رہی ہے۔ مسلمانوں میں بھی صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔ فیملی کورٹس میں مسلمان جوڑوں کے تنازعات کا تناسب بڑھتا جارہا ہے۔یہ ایک بہت بڑا بحران ہے۔ اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس پر قابو پانے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ نے ازدواجی تنازعات کا حل یہ بتا یا ہے کہ پہلے میاں، بیوی آپس میں اپنے تنازعات کو خوشدلی کے ساتھ اور ایک دوسرے سے عفو و درگذر کرتے ہوئے حل کرلیں اور ایسا نہ ہو سکے توکسی تیسرے فریق کی مدد لیں جسے قرآن میں تحکیم کا اصول کہا جاتا ہے۔وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا ج اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھُمَا (اور اگر تم کو میاں اور بیوی کے درمیان تعلق ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرد وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں تو اللہ موافقت کی صورت نکال دے گا) یہی تحکیم جدید زمانہ میں کونسلنگ کہلاتی ہے۔ اب کونسلنگ ایک پوری سائنس ہے اور اس میں جدید موثر طریقوں کی مدد سے تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ کونسلنگ کے ایسے ادارے مسلم سماج میں بھی قائم ہوں۔ عیسائیوں میں چرچ کے اندر کونسلنگ کے ادارے ہوتے ہیں۔ یہاں کونسلنگ کرنے والوں کو اعلی درجہ کی جدید ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری مسجدوں اور دینی مراکز میں بھی ایسے ادارے قائم ہوں۔ اور ان مسائل کو ہم اسلامی شریعت کی رہنمائی میں اور جدید طریقوں کی مدد سے حل کریں۔ اس لئے جو لوگ مسلمانوں کے درمیان کونسلنگ کا کام کرنا چاہیں، ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسلام اوراسلامی شریعت سے بھی اچھی طرح واقف ہوں اورکونسلنگ کے جدید فنون کی بھی مہارت رکھیں۔اس مسئلہ کے شرعی اور دینی پہلو پر دیگر مضامین میں تفصیلات موجود ہیں۔ اس مضمون میں میں کوشش کروں گی کہ کونسلنگ کے فن کی مبادیات پر ،کچھ روشنی ڈالوں۔
گزشتہ مضمون (شادی سے قبل کونسلنگ) میں میں نے شعور و لاشعور کی بحث کی تھی۔ اکثر تنازعات کا سبب لاشعور اور اس کے نتیجہ میں بننے والا خاکہ ہوتا ہے۔ ازدواجی تنازعات کا ایک بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ شوہر اور بیوی کے خاکے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔اس کی وضاحت ذیل کی مثالوں سے ہوگی۔
۱-فرض کیجئے کہ کوئی بیوی جو زندگی بھر روایتی گھرانوں میں ساس بہو کے جھگڑے دیکھ کر بڑی ہوئی ہے اور ظالم ساسوں کے بے شمار واقعات زندگی بھر سنتی رہی، اس کا ساس کے بارے میں تصور ہی یہ ہے کہ وہ ایک ظالم مخلوق کا نام ہے۔ ’’ہر ساس ظالم ہوتی ہے‘‘ اس یقین کی وجہ سے ساس کی کوئی اچھی بات وہ دیکھ ہی نہیں پاتی۔ اس کے مقابلہ میں شوہر کا یہ یقین ہے کہ بہو ہمیشہ ساس کے سلسلہ میں نفرت ہی کے جذبات رکھتی ہے۔وہ اپنی بیوی کے جائز مسائل کو بھی سمجھ نہیں پاتا۔اب جب بھی ساس کا کوئی معاملہ درپیش ہوتا ہے بیوی اور شوہر میں جھگڑا ہوجاتا ہیے۔ اس جھگڑے کی وجہ دونوں کے اپنے اپنے مفروضے ہیں۔ ان مفروضوں کی وجہ سے دونوں، دو الگ انتہاؤں پر ہیں۔ نہ بیوی شوہر کی ماں سے جائز محبت و تعلق کو سمجھ پارہی ہے اور نہ شوہر بیوی کے مسائل کو۔
۲- بیوی اپنے گھر میں باپ، بھائی وغیرہ کو دیکھ کر بڑی ہوئی۔ ان کی شخصیتوں، کردار اور ان کے مزاجوں کی وجہ سے مرد کا ایک خاص تصور اس کے لاشعور کا حصہ بن گیا۔ اسی تصور سے وہ اپنے شوہر کو دیکھتی ہے۔ جو خوبیاں اس نے اپنے باپ میں دیکھی تھیں وہ شوہر میں تلاش کرتی ہے۔ شوہر میں ہوسکتا ہے دوسری بہت سی ایسی خوبیاں ہوںجو اس کے باپ میں نہیں ہیں۔ لیکن اس کا لاشعور تو اپنے باپ کی شخصیت کے فریم سے ہر مرد کو دیکھنے اور پرکھنے کا عادی ہوگیا ہے۔ اسی طرح شوہر کے ذہن میں بچپن کی یادیں اچھی طرح محفوظ ہیں کہ اس کی ماںعلی الصبح اٹھ کر گھر کا کام شروع کردیتی تھی۔ سارے گھر والوں کی خدمت کرتی تھی۔ وغیرہ۔ اب وہ بیوی کو بھی اسی خاکہ کی مدد سے پرکھنا چاہتا ہے۔
یہاں چند باتیں بطور مثال بیان کی گئی ہیں۔ ایسی سیکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ایک اچھے کونسلر کا کام یہ ہے کہ وہ تنازعات کا سبب لاشعور میں تلاش کرنے کی کوشش کرے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے لاشعور کو بدلنے اور اس کی ری پروگرامنگ کرنے کا بھی امکان رکھا ہے۔ کونسلر کا کام یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کے لاشعور کو اس طرح پروگرام کرے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرسکیں۔
مثلاً اوپر کی مثالوں میں بیوی کو اچھی ساسوںکی بے شمار مثالیں بتائی جائیں اور اس کے لاشعور میں ظالم ساس کی جو تصویر نقش ہے اسے بدلا جائے۔یا شوہر کو بتایا جائے کہ زمانہ اور حالات کے فرق کی وجہ سے اب عورتوں کے کام کرنے کی عادتوں میں بھی فر ق ہوگیا ہے۔
ہمارے دماغ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ بعض اوقات حقیقتوں کو بدل کر، ان کے کچھ اجزا کو مٹا کر یا انہیں عموم دے کر(generalizeکرکے) قبول کرتا ہے۔ واقعات اور حقائق کو ہم دیکھتے اور سنتے ہیں لیکن وہ ہمارے ذہن میں ہمارے مزاج اور تجربات کے مطابق نقش ہوجاتے ہیں۔ وہ حکایت ہم سب نے سنی ہے کہ ایک ہاتھی جب اندھوں کے گاوں میں گیا تو کسی نے اس کی دم پکڑی تو اس کے ذہن میں ہاتھی کا تصور ایک رسی کی مانند نقش ہوگیااور کسی نے پیر پکڑا تو ایک ڈرم کی مانند۔ ہم بھی عام طور پر اشیا اور واقعات کو اسی طرح دیکھتے ہیں۔ بعض باتیں قبول کرتے ہیں اور بعض چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ کو عموم دے دیتے ہیں۔ یہ خصوصیت اللہ نے ہمارے ہی فائدہ کے لئے بنائی ہے لیکن ہم اس کا کبھی غلط استعما ل کرلیتے ہیں۔
حقیقت کے کچھ اجزا کو دماغ اس لئے مٹادیتا ہے (deletion)کہ دماغ ایسا نہ کرے تو ہمارے لئے زندگی مشکل ہوجائے۔ ہم راستہ چلتے ہوئے ہر منظر، ہر گاڑی کا نمبر، ہر دکان کا نام یاد رکھیں تو ہماری یادداشت بوجھل ہوجائے گی اور ضروری باتوں کو یاد رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ حادثات، غم اور پریشانیان ہم نہ بھولیں تو زندگی اجیرن ہوجائے گی۔ لیکن بھول جانے، نظر انداز کرنے اور مٹادینے کی یہ دماغی صلاحیت درج ذیل مثالوں میں تنازعہ اور غلط رویہ کا سبب بنتی ہے۔
۱۔ دماغ پسندیدہ لوگوں کی خامیوں کو اور ناپسندیدہ لوگوں کی خوبیوں کو مٹادیتا ہے۔ عورت کو اپنی ماں کی صرف خوبیاںنظر آتی ہیں۔ خامیاں نظر نہیں آتیں اس کے مقابلہ میں ساس کی خوبیاں نظر نہیں آتیں۔بیوی دیکھتی ہے کہ آفس سے آنے کے بعد شوہر اس کی باتوں میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے۔ لیکن یہ حقیقت اس کا دماغ مٹادیتا ہے کہ وہ ایک گھنٹہ بس میں سفر کرکے اور دن بھر کام کرکے لوٹا ہے اور اس کے دماغ کو کچھ دیر آرام کی ضرورت ہے۔
اسی طرح بعض اوقات دماغ چیزوں کو بدل کر دیکھتا ہے۔ بیوی کے چہرہ پر کسی ٹینشن کی وجہ سے تناؤ میں ہے ، شوہر سمجھتا ہے کہ اس کے آنے سے بیوی خوش نہیں ہوئی۔ بیوی کو کوئی لطیفہ یاد آیا اور وہ ہنس دی، شوہر سمجھتا ہے کہ اس کے لباس پر ہنس رہی ہے۔
بعض اوقات دماغ چیزوں کو عموم دے کر (Generalizeکرکے) قبول کرتا ہے۔ اور وہ ذہن میں نقش ہوجاتی ہیں۔ اور ہمارے رویوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ایک خاتون میرے پاس آئیں جو بچپن میں اپنے باپ کے ظلم کی شکار ہوئی تھیں اور اب ان کے دماغ میں تمام مردوں کے بارے میں ایک جنرل تصور تھا۔انہیں شوہر سے اس لئے لگاؤ نہیں تھا کہ ان کا ذہن دنیا کے کسی مرد کو بھی ایک اچھے انسان کی حیثیت سے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ جب تک ان کے ذہن کا یہ نقش نہیں بدلا جائے گا وہ خوشگوار ازدواجی زندگی نہیں گذارسکتیں۔ بعض اوقات تو بڑی دلچسپ اور بظاہر مضحکہ خیز مثالیں سامنے آتی ہیں۔ ایک نوجوان کو بچپن میں اپنی ٹیچر سے ، اس کے ظلم کی وجہ سے نفرت ہوگئی۔ وہ لمبی اور گوری تھی، اب اس کا ذہن ہر لمبی اور گوری عورت سے نفرت کرتا ہے۔
یہ باتیں آدمی اکثر جانتا بھی نہیں ۔ یہ سب لاشعور میں ہوتا ہے۔ مثلاً اوپر کی مثال میں اس نو جوان کو نہ یہ معلوم تھا کہ اسے لمبی اور گوری عورتوں سے نفرت ہے اور نہ یہ معلوم تھا کہ اس کا کوئی سبب ہے۔ بس اس طرح کی کوئی عورت سامنے آجائے تو نفرت کی لہر دوڑ جاتی تھی۔ اس معاملہ کی تہہ تک پہنچنا کونسلر کا کام ہے۔ اس لئے کونسلر کا کام یہ بھی ہے کہ وہ ازدواجی تنازعہ کا سبب شوہر اور بیوی کے ذہن میں بنے ہوئے خاکوں میں تلاش کرنے کی کوشش کرے۔ان خاکوں کو ہم آسانی سے کونسلنگ کی مدد سے بدل سکتے ہیں۔
تنازعات کا ایک سبب کمیونکیشن بھی ہوتا ہے۔ مسئلہ کچھ نہیں ہوتا لیکن ناقص کمیونکیشن کی وجہ سے وہ الجھ جاتا ہے۔ ہمارا ذہن الفاظ ، لب و لہجہ ، آواز کے اتار چڑھاؤ، چہرہ کے تاثرات ، ان سب کا اثر قبول کرتا ہے۔ اور یہ اثر ذہن میں نقش ہوتا جاتا ہے اور رویوں کو متاثر کرنے لگتا ہے۔ ایک بے خیالی میں کہا ہوا لفظ نشتر بن کر دل کو چھید دیتا ہے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم نے اپنے شوہر یا بیوی کے دل کا خون کردیا ہے۔ لیکن قتل کی یہ واردات ہوچکی ہوتی ہے۔ بعد میں متاثر فرد اس واقعہ کو یا لفظ کو بھول جاتا ہے ، اسے یاد بھی نہیں رہتا لیکن اس وقعہ نے جو دراڑ پیدا کی ہے وہ باقی رہتی ہے اور ایسی دراڑیں دھیرے دھرے تعلقات اور جذبات کو سرد مہری کا شکار بناتی رہتی ہیں۔ کئی دفعہ کمیونکیشن نہ ہونے سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہم دل کی بات کہہ نہیں پاتے، اپنا موقف سمجھا نہیں پاتے اور اپنی مجبوریوں اور مشکلات کا اظہار نہیں کرپاتے۔
کمیونکیشن کا یہ خلا غلط فہمی پیدا کرتا ہے۔ اور غلط فہمیوں کا یہ سلسلہ بھی تعلقات میں دراڑیں پیدا کرنا شروع کرتا ہے۔ ایک اچھا کونسلر تنازعات کے حل کے لئے کمیونکیشن کے ماڈل کو بھی سمجھتا ہے۔ جو دراڑیں پیدا ہوئی ہیں انہیں پاٹتا ہے۔ اس کی تکنیکوں کی تفصیلات کا یہ مضمون متحمل نہیں ہے۔ لیکن ایسے طریقے موجود ہیں جن سے ماضی کے کمیونکیشن خلا اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسائل کو دور کیا جاسکتا ہے۔ پھر آئندہ کے لئے موثر کمیونکیشن کی تربیت بھی دیتا ہے۔
آپ درج ذیل کیسوں پر غور کیجئے:
کیس (۱)
دن بھر کی مشقت کے بعد عرفان شام میں گھر لوٹا۔ بائیک پر دھوپ میں طویل سفر اور ہاتھوں میں وزنی شاپنگ بیگوں کی وجہ سے وہ پسینہ سے شرابور تھا۔اس کی بیوی شاہانہ نے دروازہ کھولا۔
’’آج بھی آپ لیٹ ہوگئے؟ آپ سمجھتے کیوں نہیں کہ میںگھر میں اکیلی رہتی ہوں؟
ـ’’میں آفس سے بازار گیا تھا۔ تم نے کہا تھا کہ یہ ارجنٹ ہے۔ وہاں سے پھر لیبارٹری گیا۔ تہماری رپورٹیں لینے کے لئے۔ تمہیں پتہ ہے وہ کتنی دور ہے؟
’’ ٹھیک ہے۔اچھا اس بیگ میں کیا ہے؟
’’تمہارے لئے ایک چھوٹا سا تحفہ ہے۔ پرفیوم مجھے بہت پسند آیا۔ شیلف میں نظر آیا تو لے لیا۔
’’اچھا اچھا۔۔لیکن میں تو ایک دوسرا فلورل پرفیوم لینا چاہتی تھی۔ اچھا تمہیں معلوم ہے تم نے کیا کیا؟ میرا باڈی لوشن پھر بھول آئے۔
’’اوہ، ساری، کل لیتا آوں گا!‘‘
’’آپ یہ ہمیشہ کرتے ہو ہیں، پتہ نہیں کیوں میری ہی چیزیں بھول آتے ہیں۔‘‘
کیس (۲)
انیس اور فریحہ ایک مثالی جوڑا تھے۔ان کی ایک دوسرے کے لئے محبت و جان نثاری پورے خاندان میں مشہور اور باعث رشک تھی۔ لیکن ادھر کچھ سالوں سے اس مثالی تعلق میں دراڑیں آنی شروع ہوگئیں۔ وجہ تھی ان کا سات سالہ نٹ کھٹ اور شریر بچہ عاطف۔
فریحہ کا خیال تھا کہ عاطف بہت شریر، نظم و ضبط سے عاری ، لاپرواہ بلکہ کبھی کبھی بدتمیز بھی ہورہا ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ اگر ابھی کنٹرول نہ کیا گیا تو اس کی عادتیں پختہ ہوجائیں گی ۔ وہ اس کے لئے اصول و ضوابط بناتی ہے ، سزاؤں اور انعامات کا اعلان کرتی ہے اور ہمیشہ اس کے پیچھے رہتی ہے۔وہ یہ بھی سمجھتی ہے کہ انیس کو اس مسئلہ پر جو توجہ دینی چاہیے وہ نہیں دے پارہا ہے۔وہ کبھی بچہ کی حمایت کرتا ہے اور کبھی خاموش تماشائی بنا رہتا ہے۔ کبھی مسکراتے ہوئے اور مزہ لیتے ہوئے ماں بیٹے کی کشمکش دیکھتا رہتا ہے۔ فریحہ محسوس کرتی ہے کہ اس سے عاطف بے با ک بنتا جارہا ہے۔
انیس سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی غیر ضروری ایک چھوٹے مسئلہ کو بڑا بنارہی ہے۔ عاطف کا رویہ اس عمر کے لحاظ سے ہے۔ عمر کے ساتھ وہ خود ڈسپلن سیکھ جائے گا۔ مستقل پیچھے پڑے رہنے اور رات دن جھک جھک کرنے سے اصلاح نہیں ہوگی بلکہ صورت حال اور خراب ہوگی۔ بار بار مداخلت کی وہ ضرورت محسوس نہیں کرتا بلکہ اسے نقصاند ہ سمجھتا ہے۔ یہ سب باتیں وہ سمجھتا ہے لیکن بیوی کی حساس طبیعت کے خوف سے اسے بول نہیں پاتا۔
ان دونوں کیس پر غور کیجئے اور سو چیئے کہ ان کا حل کیا ہوسکتا ہے؟
آپ غور کریں گے تو محسوس کریں گے کہ پہلے کیس میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بیوی شوہر کی دنیا کو دیکھ ہی نہیں پارہی ہے۔ نہ اس کے مسائل کو دیکھ پارہی ہے، نہ اس کے جذبات کو سمجھ پارہی ہے۔ یہاں کونسلر کا اپروچ یہی ہونا چاہیے کہ اس کی سوچ کو وسعت دے۔ جو باتیں و ہ نظر انداز کررہی ہے، اس کے دماغ کو ان باتوں کو سمجھنے اور انہیں محسوس کرنے کے لائق بنائے۔ شوہر کی جگہ خود کو رکھ کر دیکھنے، سننے اور غور کرنے کی صلاحیت اس کے اندر جگائے۔
دوسرے کیس میں دو مسائل ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایک ہی مسئلہ کو دونوں دو الگ الگ نقطہ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔اور دوسرے یہ کہ اس کا بنیادی سبب کمیونکیشن کا خلاہے۔ ایک دوسرے سے شدید محبت کرنے والے میاں بیوی کے درمیان ان کی محبت ہی کمیونکیشن کا خلا پیدا کررہی ہے۔شوہر اپنی بات بیوی کو کہہ نہیں پارہا ہے۔ ان کے مسئلہ کا حل یہ ہے کہ کونسلر دونوں کے درمیان صحت مند بات چیت کی راہ ہموار کرے اور دونوں کھلے دل سے بات کرکے، اپنے بچہ کی تربیت کے کسی پروگرام پر متفق ہوجائیں۔ یہ ہوگا تو ان کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
اس بحث کی روشنی میں موثر کونسلنگ کے درج ذیل طریقے ہوسکتے ہیں۔
۱۔ پہلے تنازعہ کے اسباب کو سنیے۔ شوہر اور بیوی سے الگ الگ بھی سنیے اور دونوں کو ملاکر ساتھ ساتھ بٹھا کر بھی سنیے۔ سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟
۲۔ ان تصورات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے جو دونوں کے دماغوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی غلط تصور کسی غلط رویہ کا سبب بن رہا ہے تو واقعات اور مثالوں وغیرہ کے ذریعہ انہیں چیلنج کیجئے اور نئے حقیقت پسند تصورات ذہن نشین کرایئے۔مثلاً اگر بیوی کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ ہر ساس ظالم ہوتی ہے تو اسے اچھی ساسوں کی دسیوں مثالیں سنایئے اور کوشش کیجئے کہ اس کا تصور صحیح ہوجائے۔یہ کام ایک ماہر کونسلر متعلقہ فرد ہی کے ذریعہ کراتا ہے۔ یعنی کونسلر کی رہنمائی میں بیوی خود ایسی مثالوں کو یاد کرتی ہے۔ اپنے غلط تصور کو چلینج کرتی ہے اور اس کے ذہن میں مثبت تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔
۳۔ خوشگوار دنوں کی یاد اور تجربہ کو تازہ کرایئے۔ یہ تنازعات کے حل اور شوہر ، بیوی کے درمیان نفسیاتی دور ی ختم کرنے کا آسان طریقہ ہے۔ اگر شوہر اور بیوی کے درمیان کبھی بہت اچھے تعلقات رہے ہوں، تو ان یادوں کو تازہ کرنے کا موقع دیجئے۔ انہیں ان لمحات میں لے کر جایئے۔ این ایل پی وغیرہ میں ایسی یادوں کو تازہ کراکے اینکر کرتے ہیں۔ یہ خوشگوار یادیں بہت بڑی طاقت ہوتی ہے جس سے رشتوں کی دراڑ اور تعلقات کے زخموں کو آسانی سے مندمل کیا جاسکتا ہے۔ ایک اچھا کونسلرشوہر اور بیوی کو ان لمحات میں پہنچادیتا ہے جب وہ ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔
۴۔ ایک دوسرے کی خوبیوں اور احسانات کو یاد کرنا اور انہیں ذہن میں تازہ کرانا بھی ایک موثر نفسیاتی حربہ ہے۔ کونسلر سوالات کی مدد سے شوہر کے ذہن میں بیوی کی تمام خوبیوں کو تازہ کرائے۔ ہر وہ خوبی جسے اس نے کبھی پسند کیا ہو، چاہے اس کا تعلق اس کے مزاج و رویہ سے ہو یا حسن و خوبصورتی سے، شوہر کے تئیں اس کی محبت اور خلوص سے ہو یا کسی صلاحیت و لیاقت سے۔ ہر اچھی چیز کو وہ یاد کرے۔
۵۔ جو رویے اور خامیاں تعلقات میں خرابی کا سبب بن رہے ہیں، ان کی عام طور پر تین قسمیں ہوتی ہیں۔
کچھ تو وہ باتیں ہوتی ہیں جو غلط مفروضوں یا غلط تصورات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ان کا ذکر اوپر آگیا ہے۔ لاشعور کی تربیت کے ذریعہ انہیں بدلا جاسکتا ہے۔
کچھ مزاج کی مستقل کمزوریاں ہوتی ہیں۔ کوئی شوہر سست مزاج ہے، کوئی بیوی بہت باتونی ہے، ایسی کمزوریاں اگر تعلقات کو خراب کرنے کا سبب بن رہی ہیں تو ان کمزوریوں کو دور کرنا تو فوری ممکن نہیں ہوتا۔ ان کے سلسلہ میں قرآن کی ہدایت یہ ہے کہفَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا ۔
’’اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘
یہی رویہ کونسلر کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ اسے متعلقہ شوہر یا بیوی کے ذہن کو اس مقصد کے لئے تیار کرنا چاہیے کہ وہ اس کمزوری کو نظر انداز کرے۔ اسے بھلادے۔ ذہن سے اس کو مٹادینے کے نفسیاتی طریقے موجود ہیں ۔ا ن طریقوں کا استعمال کرکے اسے مٹادینا چاہیے۔ اورکوشش کرنی چاہیے کہ ذہن بیوی یا شوہر کی شخصیت کے دیگر مثبت پہلوؤں پر متوجہ ہوجائے۔
۶۔ کچھ رویئے وہ ہوتے ہیں جو کسی خاص واقعہ یا غلطی کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ماضی کی صفائی مستقبل کے بہتر تعلقات کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ ماضی کی صفائی کے لئے ضروری ہے کہ کونسلر شوہر اور بیوی کو اس پوزیشن پر لے کر آئے کہ وہ اپنی غلطیوں کو اچھی طرح سمجھ جائیں اور سنجیدگی کے ساتھ ایک دوسرے سے معافی چاہ کر اس کی تلافی کے لئے تیار ہوجائیں۔ معافی صرف معافی کے بول کانام نہیں ہے بلکہ یہ ایک طریقہ ہے جس کے ذریعہ آپ مخاطب کے ذہن اور جذبات کو اس غلطی کے اثرات سے پاک کرتے ہیں جو آپ سے سرزد ہوئی ہے۔ سنجیدہ معافی کے درج ذیل ارکان پر کونسلر کی توجہ ہونی چاہیے۔
i۔ جو غلطی آپ نے کی ہے اس کا واضح تذکرہ کرتے ہوئے واضح الفاظ میں معافی مانگیے۔ کہیے کہ فلاں فلاں غلطی کے لئے میں شرمندہ ہوں اور معافی چاہتا ہوں۔
ii۔ واضح کیجئے کہ اس غلطی کا دوسرے پر کیا اثر ہوا ہے یا ہوسکتا ہے؟ اسکو بھی تسلیم کیجئے۔
iii۔ اس غلطی کو دوبارہ نہ کرنے یا رویہ میں اصلاح کی یقین دہانی کرایئے۔
۷۔ ان سارے مراحل کے بعد کونسلر کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ دونوں مطلوب بہتر مستقبل کے کسی خاکہ پر متفق ہوجائیں۔ دونوں ایک دوسرے سے اپنی توقعات لکھیں۔ کونسلر کوشش کرے کہ یہ توقعات کم سے کم ہوں اور قابل عمل اورحقیقت پسند ہوں۔ ان توقعات کی تکمیل کے منصوبہ پر بھی دونوں متفق ہوجائیں۔ کونسلر ان توقعات اور مستقبل کے مطلوب خاکہ کے سلسلہ میں دونوں کے ذہنوں کو تیار کرے۔
یہ چند اصولی باتیں یہاں بتائی گئی ہیں۔ علم نفسیات اور این ایل پی وغیرہ میں سے ان میں سے ہر ایک کے لئے مستقل تکنیکیں موجود ہیں۔ ایک اچھا کوچ پہلے فریقین سے تعلق Rapportاستوار کرتا ہے۔ ان کے مسئلہ کو سمجھتا ہے اور پھر ان کے بہتر مستقبل کی خاطر ان کے ذہنوں کی ری پروگرامنگ کرتا ہے۔ جو لوگ کونسلنگ کی خدمات میں مصروف ہیں، انہیں ضرور یہ طریقے سیکھنے چاہئیں۔