ازدواجی زندگی کے آداب

ا یس- امین الحسن

خدا کی عظیم نشانیوں میں سے ایک انسانی زوجیت کا رشتہ بھی ہے۔ مرد اور عورت دو مختلف صنفیں ہی نہیں ہیں بلکہ ان کے مابین مزاجوں، سوچ اور نفسیات کا بھی بڑا فرق ہے۔ جو اس حقیقت کو تسلیم کرلیتے ہیں ان کی زندگی سکوں آشنا ہوجاتی ہے اور جو اس فرق کو سمجھنے میں غلطی کر جاتے ہیں وہ صرف ناکام ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کی زندگی مایوسی کے عمیق غار میں جا گرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس انجام سے دوچار ہوئے بغیر کیسے کامیاب زندگی بسر کر سکتے ہیں اور ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے آداب کیا ہیں۔ اس ضمن میں ذیل میں چھ باتیں عرض کی جارہی ہیں۔

غیر ضروری بحث سے بچیں!

میاں بیوی کے تعلقات میں نشیب و فراز بھی آتے ہیں اور نرم گرم گفتگو کا موقع بھی آجاتا ہے۔ دونوں اپنے اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں۔ نتیجہ میں کوئی ایک جیت جاتا ہے اور دوسرا ہار کر اپنا سا منہ لے کر گھر کے ماحول میں کچھ دن تک اداسی بکھیرتے پھرتا ہے۔ سوچنا چاہیے کہ اس جیت کا کیا حاصل جس میں دل ہار جائیں؟ اس کے برعکس دھیان اس پر دیں کہ بحث و مباحثہ اور تو تکرار کی نوبت کے رونما ہونے سے پہلے ہی بات کو ایسا رخ دیا جائے کہ شریک حیات یہ محسوس کرے کہ یہ تو میرے دل کی صدا ہے جو آپ کی زبان سے نکلی۔ اس کے لئے ٹھنڈا دل و دماغ اور اختلافی مسائل پر ہوم ورک چاہئے۔ رسول اللہ صلعم کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ سخت لب و لہجہ کبھی اختیار نہیں فرماتے بلکہ سامنے والے کو ناراض ہونے کا حق بھی دیتے تھے۔ روایتوں میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بی بی سے فرماتے کہ عائشہ جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو مجھے پتہ چل جاتا ہے۔ بی بی نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ فرمایا کہ جب تم کہتی ہو کہ ابراہیم کے رب کی قسم تو معلوم ہوجاتا ہے کہ تم مجھ سے کسی بات پر ناراض ہو۔ اور اس کے برعکس جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو کہ محمد کے رب کی قسم۔

تعلقات میں خوش گواری پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جذباتی ہو کر اس طرح کی گفتگو سے پرہیز کیا جائے جس سے دل میں خراش آئے اور بعد میں پچھتانا پڑے۔

باہمی تعاون کا لطیف فن

ایک عام تصور ہے کہ مرد کا صرف ایک کام ہے اور وہ ہے باہر کی دنیا میں معاشی تگ و دو کرنا اور گھر کی مالی ضروریات پوری کرنا اور بس۔ جبکہ دوسری طرف یہ باور کرلیا گیا ہے کہ عورت کچھ کام نہیں کرتی بلکہ گھر خالی بیٹھی ہوئی ہوتی ہے۔ پچھلے زمانے میں انہیں ہاوز وائف کہا جاتا مگر اب اصطلاح بدل گئی جس سے ان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اب انہیں ہوم میکر کہا جاتا ہے۔ وہ دن بھر میں جتنا کام کاج انجام دیتی اگر اتنے کاموں کے لئے الگ الگ اسٹاف تقرر کردیں تو ان کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ روپے ہوجائے۔ کچن میں وہ کیمسٹ ہے، بچوں کے لئے وہ بیبی کیئرٹیکر ہے، ساس سسر کے لے نرس ہے تو گھریلو اخراجات کے نظام کو معمولی آمدنی میں بھرم قائم رکھتے ہوئے وقار سے چلانے میں وہ مینیجر ہے۔ گھر میں خوبصورت پھول پودوں کی دیکھ بھال میں وہ مالی ہے تو کپڑے دھونے اور آئرن کر نے میں وہ ڈرائی کلینر ہے۔ وہ بچوں کی ٹیوشن ٹیچر بھی ہے اور خاندان کے الجھے معاملات کو سلجھانے والی بھی۔ اور ان سب سے بڑھ کر شوہر کے لئے باعث تسکین و راحت رساں بھی ہے۔ مرد اپنی باہر کی ذمہ داریاں پوری کرکے گھرلوٹ کر آنے کے بعد بجائے ٹی وی کے سامنے وقت گزاری کے اگر گھریلو امور کے کچھ کام انجام دے یا راحت جان کا ہاتھ بٹائے تو گھر میں محبت کی مہک بڑھ جاتی اور تعلقات سہانے لگتے ہیں۔

ہاں گھریلو امور میں تعاون ایک لطیف فن ہے اور یہ ان کو آتا ہے جو اسے سیکھنا چاہیں ورنہ کم علم و ناداں لوگ اسے شان مردانگی کے خلاف سمجھتے ہیں تو دوسری طرف بیوی کاموں کے بوجھ تلے کڑھتے کڑھتے اس کا مزاج نہ صرف چڑ چڑا ہوجاتا ہے بلکہ بسا اوقات اختلاج قلب اور ہول دل کی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس معاملے میں بھی رسول اکرم ہمارے لئے اسوہ ہیں۔ آپ پر کار نبوت کا عظیم بوجھ ہوتے ہوئے بھی گھریلو امور کے انجام دہی کی پابندی بھی کر لیتے۔ نماز فجر کے بعد بہت دیر تک مسجد میں رہتے، لوگوں سے ملتے، مسائل حل فرماتے، خوابوں کی تعبیر بیان فرماتے، اشعار سے محظوظ ہوتے یا لوگوں سے زمانہ جاہلیت کے واقعات سنتے پھر جب دھوپ چڑھ جاتی تو چاشت کی نماز ادا کرتے اور گھر لوٹ آتے۔ گھر کے لیے خود سودا سلف لاتے، بکری کا دودھ دوہتے، کپڑے سلتے اور عورتوں کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ عصر کی نماز کے بعد حجرے میں اپنی سب بیبیوں سے ملاقات کے لے تشریف لے جاتے اور مختلف اچھے اچھے موضوعات پر گفتگو کرتے۔جب بات کرنے کے لیے اچھے موضوعات میسر ہوں تو اختلافات اور جھگڑے کی نوبت کہاں آتی ہے۔

اسی طرح بیوی بھی مرد کے بہت سے کاموں میں تعاون کرسکتی ہے۔ مثلا پیسوں کا حساب کتاب رکھنا، گھر، گاڑی، بچوں کے ضروری کاغذات کو ڈھنگ اور سلیقے سے محفوظ رکھنا وغیرہ۔۔اس طرح گھر میں مقابلہ آرائی کے بجائے تعاون باہمی کا مزاج پروان چڑھتا ہے۔

اہم امور پر گفتگو کریں

شوہر اور بیوی آپس میں باتیں کیا کرتے رہتے ہیں اور کبھی خالی وقت کو کاٹنے کا بھی یہ ایک ذریعہ ہوتا۔ باتوں سے ذہن سازی کا عمل جاری رہتا ہے اور جذبات کی پیدائش، عکاسی اور ترجمانی بھی ہوتی رہتی ہے۔ اچھی باتیں دلوں میں خوشی، امنگ اور ولولہ پیدا کرتی ہیں اور ذہن منفعت بخش امور پر متوجہ رہتا ہے۔ جب ایسا ہونے لگتا ہے تو خیالات مثبت اور تعمیری ہوتے ہیں اور انسان کا رویہ اور عمل صالح اور نتائج خوشگوار سامنے آنے لگتے ہیں۔ اگر کسی کو اپنی زندگی میں بار بار تلخیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو سوچنا چاہیے کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے ؟ نتائج —اچھے ہوں کہ خراب — کا دارومدار رویوں پر ہوتا ہے اور رویے سوچ اور باتوں سے بنتے ہیں۔ لہٰذا باتیں جو زوجین آپس میں کیا کرتے ہیں وہ بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔

باتوں کے لئے اچھا مواد میسر نہ ہو تو پھر غیبت، چغلی کھانے، دوسروں کی برائیاں بیان کرنے یا خود آپس میں اختلافات کو ہوا دینے اور گندگی کی ٹوکری ایک دوسرے پر الٹنے، کیچڑ اچھالنے ،اعتماد کو مجروح کرنے اور جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے علاوہ اور کیا کام باقی رہ جاتا ہے ؟

تعلقات کو مزید تقویت دینے کے لیے ضروری ہے کہ زوجین اپنی باتوں کے معیار کو بلند کرنے اور اسے تعمیری سوچ کا حامل بنانے پر توجہ مرکوز کریں۔ اس کے لئے حسب ذیل کام کئے جاسکتے ہیں۔

نماز فجر میں تلاوت کی گئیں آیتوں کا محاضرہ ہو اور اس سے ’’تھاٹ فار دی ڈے‘‘ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ دن بھر باتوں میں اور سوشل میڈیا میں اس کی جھلک نظر آئے گی۔

گھر میں قرآن پاک و حدیث شریف کا مطالعہ دن بھر کی گفتگو کے دوران اپنا اثر دکھائے گا جس سے ذہن و فکر کو جلا ملے گی۔

اخبار بینی ایک بہت اچھی عادت ہے۔ میاں اور بیوی اپنے ذوق کی تسکین حاصل کریں گے اور مواد کا ایک ذخیرہ ہاتھ آئے گا۔ کسی کو عالمی امور سے متعلق معلومات فراہم ہوتی ہیں جس کا تبادلہ علم میں اضافہ کرے گا۔ اس کے برعکس شریک حیات کو ہوسکتا ہے کہ صفحہ نمبر تین سے دلچسپی ہو جس شہر میں ہونے والے واقعات آپ کی گفتگو کا موضوع بن سکتے ہیں ۔

آپ کہیں سفر سے لوٹ آئیں یا کسی دینی اجتماع میں شرکت سے لوٹیں یا آفس سے گھر آئیں تو وہاں کے لوگوں سے ہوئی ملاقاتیں، اجتماع میں پیش کی گئی نئی باتیں یا سبق آموز واقعات کا تبادلہ ذہن و فکر کی وسعتوں کو بڑھانے کا باعث ہو گا۔

رشتہ داروں کے اچھے اور برے احوال گفتگو میں آتے رہیں تو ان کی عیادت، مدد اور ان کی دلجوئی کی راہیں وا ہوں گی۔

زندگی کو بہتر بنانے اور ترقی کی راہ پر گام زن رکھنے والے امور، آداب اور فنون پر باتیں ہوتی رہیں تو گھر کا ہیپینس انڈکس ( خوش گواری کی پیمائش کا نمبر) بڑھے گا۔

رسول اکرم کی زندگی دیکھ لیں تو معلوم ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں ازواج مطہرات کے ساتھ اچھی اچھی کیا باتیں کرتے تھے۔ یہی وہ باتیں ہیں جو ہمارے سامنے امت کی ماوؤں نے حدیث کی شکل میں پیش کی ہیں۔ علم حدیث کا ایک بڑا ذخیرہ ہم تک اس ذریعے سے ہی پہنچا ہے۔

عفو و درگزر

کم ظرف لوگوں کو دوسروں میں عیوب اور اپنے میں خوبیاں ہی نظر آتی ہیں۔ جن گھروں میں جھگڑوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں وہاں یہ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ ذوجین ایک دوسرے پر الزام تراشی میں سبقت لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ رائی کا پہاڑ بنا نا یا باتوں کا پتنگڑ بنانے کا ہنر انہیں خوب آتا۔ اس کاحاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ دل بوجھل رہتے ہیں، طبیعت مکدر رہتی ہے ، موڈ آف رہتا ہے اور باتوں میں شریک حیات کے لئے شیرنی کے بجائے زہر میں بجھے تیر نکلتے رہتے ہیں۔ اس سے نجات کی ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ لائف پارٹنر کو معاف کرنا سیکھیں اور اتنا معاف کریں جتنا آپ دوسروں سے توقع رکھیں کہ وہ آپ کی غلطیوں کو درگزر کردیں۔ اس کے پیچھے جو سوچ کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ زوجین میں کوئی ایک بھی اس بات کا دعویدار نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ دودھ کا دھلا ہوا ہے۔ غلطی کرنا ہماری فطرت کا حصہ ہے البتہ اس کا اعتراف نہ کرنا، اکڑفوں دکھانا، حجت بازی کرنا اور لا حاصل دلیل پیش کرنا شیطان کی عادت ہے۔

عفو و درگزر سے کام لینا کسی پر احسان نہیں ہوگا بلکہ یہ حسین عمل خود درگذر کرنے والے کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔امریکی ریسرچ بتاتا ہے کہ امریکی کینسر کے مریضوں میں 61% لوگوں میں معاف نہ کرنے کے شدید ایشوز پائے جاتے ہیں اور یہ انقباض انہیں صحت یاب ہونے نہیں دیتا بلکہ ان کی اذیت دن بہ دن بڑھتی چلی جاتی ہے اور خاتمہ انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔

نبی رحمت تو مجسم عفو و درگزر تھے۔۔شریعت کے امور کے علاوہ زندگی کے عام معاملات میں معافی ہی کو آپ روا رکھتے۔ یہ حقیقت بھی معلوم ہے کہ آپ نے اپنے جانی دشمنوں تک کو معاف کر دیا جنہوں نے آپ کو ستایا، جلا وطن کیا اور مدینہ طیبہ پر کئی مرتبہ چڑھائی کی۔ آپ نے طائف کے ظالموں کو بھی معاف کردیا۔ اس پہلو سے لایف پارٹنر تو اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ درگذر سے کام لیں۔ معاف کر نے سے آدمی سکون کی زندگی پاتا ہے۔

محبوب اوصاف کو اہمیت دیں

ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا مرکب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو محض عیوب کا پتلہ نہیں بنایا کہ دوش دیں کہ تم میری توقع سے بہت کم ہو۔ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ انسان جہاں دوسروں میں خرابی دیکھتا ہے وہ اپنی ہی ذات کا عکس دیکھتا ہے۔ انسان آخر وہی چیز کیوں دیکھتا ہے جو اسے پسند نہیں؟ جب اندر بھلائی کا جذبہ موجزن ہو تو دوسروں میں بھلائی دکھائی دیتی ہے اور خرابیوں کے متلاشی کو پہلے قدم پر ہی وہ چیز نظر آتی ہے جو اسے ناپسند ہو۔ دراصل یہ کرشمہ ہے کہ آپ کس مزاج کی پراکٹس کرتے ہیں۔ اگر آپ تنقید پر فوکس کریں گے تو اس کے ماہر بنیں گے۔ اگر نفرت کرنے کی صلاحیت پیدا کریں گے تو اس میں ید طولیٰ رکھیں گے اور اس کے برعکس پیار و محبت، امن و چین اور مسرت و شادمانی کو اہمیت دینے کی مشق کریں گے تو اس میں مہارت پیدا ہوگی۔ یہ آپ کی چوائس ہے کہ آپ اپنے شریک حیات میں کیا خوبیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔

اللہ نے جو خوبیاں اور صلاحیتیں آپ کے زوج میں رکھی ہوئی ہیں ان کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔ مثلا آپ اگر بیوی ہوں اور آپ کے شوہر میں مزاج کی خرابی کے باوجود انسانی خدمت کا جذبہ بیدار پاتی ہوں تو اس میدان میں غیر محسوس طریقے سے آگے بڑھائیے یا کشادہ دست ہیں تو صلہ رحمی کی طرف ان کا رخ موڑیئے۔ اسی طرح اگر آپ مرد ہیں اور آپ کی بیوی ہوسکتا ہے کہ کمخواندہ ہو مگر خدا ترس ہو تو اس کو اس میدان میں آگے بڑھانے کا منصوبہ بنائیے یا فرض کریں کہ اس میں ملنے ملانے یا گھر کے امور میں سلیقہ مندی ہو تو ان صفات کا جشن منائیے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کی خوبیوں کا جشن مناتے یعنی انہیں پہچانتے، تسلیم کرتے ،بروئے کار لاتے اور ان صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے ۔

اسی طرح جہاں کوئی خوبی نظر آئے وہاں دل کھول کر اس کی تعریف و تحسین فرماتے اور اپنے ساتھیوں کی زندگیوں کو خوشیوں سے بھر دیتے۔ حضرات بلال، صہیب، عمر، ابوبکر، خالد بن ولید اور زبیر اور سینکڑوں صحابیوں اور صحابیات کے اچھے اوصاف اور اسلام کے لئے ان کی خدمات کا بھر پور اعتراف کرتے اور یہ باور کراتے کہ اسلام کی سربلندی اور مہمات کے سر کرنے میں ان کا رول ناقابل فراموش ہے۔

قرآن نے خوشگوارازدواجی زندگی کے آداب میں یہ نکتہ بھی ذہن نشین کرایا ہے کہ:

’’ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بَھلائی رکھ دی ہو۔‘‘

لہٰذا جو پہلو پسند نہ آئے اس پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ان پہلوؤں کو تلاش کریں جس میں اللہ نے خیر رکھا ہے۔جس نے اس نکتہ کو پالیا وہ اس بات کی ضمانت پاگیا کہ اس کا گھر جنت نما ہوگا۔

الفاظ سے زیادہ دل کی آواز

ہر انسان اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ اپنا ما فی الضمیر کما حقہ ادا کرے اس لئے کہ ہر فرد کے پاس الفاظ کا ذخیرہ موجود نہیں ہوتا جس کے حوالے سے لطیف جذبات و احساسات کو ادا کرسکے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں میں اٹھنے والی بات احسن طریقے سے اس لئے بھی عرض کر نہیں پاتا کہ رشتہ اور تعلقات میں بعض نزاکتیں ہوتی ہیں جس سے کشیدگی کا اندیشہ رہتا ہے۔ الفاظ جو زبان کی سطح پر آتے ہیں بادی النظر میں وہ دل کے غماز نہیں ہوتے مگر ایک زیرک انسان بھانپ لیتا ہے، ان جملوں سے سامنے والے کی مراد کیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر بیوی کسی بات پر لمبی سانس کے سر میں کہے کہ ’’ٹھیک ہے جی‘‘ تو اس کی گہرائی میں پنہاں مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ’’میری کس رائے کو وزن دیا جاتا کہ آج میں کچھ کہوں اور آپ مان جائیں‘‘ یا جب وہ یہ کہے کہ ’’میرا من نہیں کرتا‘‘ تو دل کی تہ میں پوشیدہ بات یہ ہوتی ہے کہ ’’آپ کے گھر والوں نے میری آزادی پر قدغن لگا رکھا ہے، اب زنجیر توڑ کر جانے کی حماقت کیوں کروں۔‘‘ کبھی وہ اپنے کسی رشتہ دار کی تعریف میں رطب اللسان نظر آئے تو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ اپنے شوہر کے لئے ایک رول ماڈل پیش کر رہی ہوتی ہے۔

اسی طرح اگر مرد یہ کہے کہ ’’موڈ نہیں ہے‘‘ تو اس کی مراد یہ ہے کہ ’’تمہاری حجت بازیاں میرے سکون قلب پر ڈاکہ ڈالے ہوئے ہے ایسے گھر میں میرا جی نہیں لگتا‘‘ یا جب وہ عورتوں میں اخلاق اور وسعت قلبی کی بات کرتا ہے تو اصل مدعا یہ ہوتا کہ کہ میری ماں کی خدمت اور میرے دیگر رشتہ داروں کی دلجوئی میں تمہارے اخلاق کا امتحان ہے۔

تعلقات میں خوشگواری بنائے رکھنے کا فن اس میں ہے کہ ظاہری الفاظ میں جانے کے بجائے سامنے والے کے دل میں کوئی درد ہو یا شکایت ہو تو اسے رفع کیا جائے اور اگر غلط فہمی یا بے جا مطالبہ ہو تو بغیر دل آزاری کے احسن انداز سے اس کا رد کیا جائے۔ میاں اور بیوی جب دل سے دل لگا کر بات کرنے کے عادی ہوجائیں تو الفاظ کی ضرورت کم پڑتی ہے، ادائیں اور اشارے کمیونیکیشن کے لے کافی ہوتے ہیں۔

یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں جب حاضر ہوتے اور گویا ہوتے تو الفاظ کچھ ادا کرتے اور پس پردہ پنہان معنی کچھ اور ہوتے تھے اس لئے اللہ تعالٰی نے مومنوں کو اس کی تعلیم دی کہ وہ الفاظ کی پیچھے پوشیدہ ظرف، طنز اور معنوں کو سمجھیں۔ مثلاً

’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو رَاعِنَا نہ کہا کرو ، بلکہ انظرنَا کہو اور توجّہ سے بات کو سنو، یہ کافر تو عذاب الیم کے مستحق ہیں۔‘‘

یا جب سچے پکے مسلمان آتے اور جنگ میں شرکت سے معذوری ظاہری الفاظ سے نہیں کرتے بلکہ ان کی آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسو بتاتے تھے کہ وہ اپنا عذر پیش کرنے سے بھی شرماتے ہیں۔

یا قرآن مجید کی سماعت کا جو اثر قلوب و اذہان پر پڑتا تھا اس کی تصویر قرآن یوں کھینچتا ہے

’’ جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں۔ وہ بول اٹھتے ہیں کہ ‘‘ پروردگار ! ہم ایمان لائے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔‘‘

الفاظ کی جنگ میں الجھنا پرلے درجے کی نادانی ہے اس لئے کہ بات الجھتے چلی جاتی ہے اور کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے اور آخرکار سلجھانا چاہیں تو اس کا سرا نہیں ملتا ہے۔ لازم ہے زوجین کے لیے کہ وہ ایک دوسرے سے گفتگو اس طرح سے نہ کریں کہ لگتا ہو کہ اکھاڑے میں اتر کر دونوں کشتی لڑ رہے ہیں۔

تلخ کلامی جذبات کو ٹھیس پہنچاتی اور دل میں تا دم حیات زخم چھوڑ جاتی ہے اس لئے الفاظ سے زیادہ دل کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں