[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

استقامت کی دعا

امِّ ہبہ غزالی

زندگی مصائب و مشکلات اور خوشیوں اور آسانیوں، دونوں سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ کبھی انسان تنگیوں اور مشکلات میں گھرتا ہے تو کبھی خوش حالی اور آسانیوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ خوشیوں اور آسانیوں میں تو کوئی مسئلہ نہیں کہ انسان ہر قسم کی زحمت سے بچا ہوتا ہے، لیکن انسان کی اصل آزمائش اور اس کی شخصیت اور ایمان کی آزمائش اس وقت ہوتی ہے جب وہ مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہوتا ہے۔ یہ بات بھی تجربہ حیات اور کارزار زندگی سے واضح ہوئی ہے کہ نہ تنگی اور مشکل ہمیشہ رہتی اور نہ خوش حالی اور مسرتیں دائمی ہیں۔ حالات بدلتے رہتے ہیں۔
اللہ کے رسول ؐنے ہمیں دونوں قسم کے حالات کے بارے میں بتایا ہے اور یہ بھی واضح طور پر بتایا ہے کہ اہل ایمان کا ان دونوں مراحل حیات میں کیا طرز فکر و عمل ہونا چاہیے۔ اس سلسلے کی سب سے واضح تعلیم یہ ہے کہ مومن کو جب آسانی، خوشی یا خیر حاصل ہوتا ہے تو وہ اللہ کا شکر کرتا ہے اور اور اگر اس کے برعکس آزمائش سے دوچار ہوتا ہے تو صبر کرتا ہے۔ گویا ان ہر دو مراحل حیات میں شکر اور صبر مومن کا وطیرہ ہوتا ہے۔
ان سخت حالات میں جو مومن کو کارزار حیات میں پیش آتے ہیں، صبر سے آگے بھی ایک چیز بتائی گئی ہے اور وہ ہے استقامت۔ استقامت کا مطلب ہے کہ آزمائش کے طویل نظر آنے والے وقفہ حیات میں بھی آدمی دین اور دینی اقدار پر جما رہے اور اس کی قوت برداشت اور اس کا ایمان کسی تزلزل کا شکار نہ ہو۔
صحابہ کرام کی زندگیوں سے ہمیں صبر اور استقامت دونوں کی مثالیں بھی ملتی ہیں اور تلقین بھی ملتی ہے۔ اگر ہم اللہ کے رسول اور آپ کے صحابہ کی مکی زندگی کو دیکھیں تو صبر اور استقامت دونوں کا حسین مرقع نظر آتی ہے۔ صبر ہر پہنچنے والی مشکل اور آزمائش پر اور استقامت مسلسل آزمائشوں میں بھی ایمان پر جمے رہنا۔ استقامت یہ ہے کہ آزمائش کے طویل ترین مرحلے میں بھی صبر مسلسل، یہاں تک کہ یا تو آزمائشوں کے بادل چھٹ جائیں یا انسان اپنی زندگی مالک حقیقی کے سپرد کردے۔
رسول پاکﷺ کی مکی زندگی کا ایک دن تھا۔ آپ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے کہ ایک صحابی آپ کے پاس آئے اور آپ سے مکہ میں اہل ایمان پر کئے جانے والے ظلم و ستم کی شکایت کرتے ہوئے یہ درخواست کی کہ آپ دعا فرمائیں کہ مظالم و مشکلات ختم ہوجائیں۔ آپ نے جب یہ سنا تو کعبہ کی دیوار کی ٹیک چھوڑ دی اور فرمایا کہ اللہ کی قسم تم لوگ جلد بازی کر رہے ہو۔ تم سے پہلے ایسے نیک لوگ بھی گزرے ہیں جنہیں آروں سے چیر دیا گیا اور ان کے جسم کا گوشت لوہے کی کنگھیوں سے نوچ ڈالا گیا، مگر وہ ایمان پر ثابت قدم رہے۔ایمان پر یہی ثابت قدمی استقامت ہے اور یہ استقامت اہل ایمان کا ہتھیار بھی ہے اور حالات سے جنگ کی اسٹریٹجی بھی۔
ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ شیطان بھی اپنا کام کر رہا ہے۔ وہ ایسے حالات میں اہل ایمان کو کہتا ہے کہ کب تک مظلومیت کی چکی میں پستے رہوگے اپنی راہ الگ کرلو اور آسانی کی زندگی جیو اور اس مرحلے میں بہت سارے لوگوں کے پاؤں ڈگمگا جاتے ہیں اور استقامت کے بجائے مصالحت کی راہ لے لیتے ہیں۔ یہیں پر وہ دعائیں کام کرتی ہیں جو اللہ تعالی اور اس کے رسول نے صبر و استقامت کے حصول کے لئے ہمیں سکھائی ہیں۔
ذرا دل کی آنکھوں سے دیکھیے فلسطین کے ان مظلوموں کو جو دن رات اپنے نوجوانوں، بزرگوں، بچوں اور خواتین کی لاشیں اٹھا رہے ہیں، بھوک پیاس سے بے حال ہیں، زمین ان پر تنگ کردی گئی ہے مگر انکا ایک ہی جملہ دشمنوں کو حیران کر دیتا ہے: حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔ یہ استقامت ہے اور یہ ایمان کی قوت سے حاصل کی جاتی ہے اور ایمان کی قوت حاصل ہوتی ہے دعا سے اور اللہ کے قرب کے حصول کی کوشش سے۔
چاہے حالات فلسطین کے ہوں یا خود ہمارے ملک ہندوستان کے یا دنیا کے دیگر خطوں کے۔ آج امت مسلمہ ہر طرف ایک آزمائش کی صورت حال سے دوچار ہے اور اس کو صبرو استقامت کی شدید ضرورت ہے اور یہ اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب اپنے رب سے استقامت کی دعائے مسلسل کرتے رہیں۔ قرآن کریم نے ہمیں کتنی خوبصورت دعا سکھائی ہے: ربنا افرغ علینا صبرا و ثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکافرین۔ اے ہمارے رب تو ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمارے قدموں کو جمادے اور اہل کفر کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔
ہمارا دل جس طرح شیطان کے حملوں کی زد میں ہے اسی طرح یقیناً اللہ قادروحکیم کےقبضہ وقدرت میں بھی ہےچنانچہ نبی کریم ﷺ کثرت سے یہ دعا مانگا کرتےتھے: یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک۔’’اے دلوں کےپلٹنے والے میرا دل اپنے دین پرجمائے رکھیے۔‘‘
استقامت کےضمن میں ایک بہت قیمتی دعا سورہ آل عمران میں سکھائی گئی ہے: ربنا لاتزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتناوھب لنامن لدنک رحمہ انک انت الوھاب (٨:٣)’’پروردگار جب تو ہمیں سیدھے راستے پر لگا چکا ہے تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کردیجیو۔ ہمیں اپنے خزانہ فیض سےرحمت عطاکرکہ توہی حقیقی فیاض ہے۔‘‘
بس اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ اپنے لئے اور امت کے مظلومین کے لئے صبر و استقامت کی دعا کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے رہیں کہ وہ مشکل حالات کو آسانی میں بدل دے اور یقیناً حالات بدلیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں