اسلامی تحریک اور خواتین

مائل خیر آبادیؒ

محدثین اور مورخین سب اس بات میں ایک رائے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی بار ’وحی‘ کے ذریعہ پیام خداوندی نازل ہوا اور آپ پر نبوت کی ذمہ داریاں ڈالی گئیں تو بہ تقاضائے بشریت آپؐ اس عظیم ذمہ داری کو محسوس کرکے گھبراگئے۔ اسی حالت میں گھر تشریف لائے اور بیوی (حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ) سے حال کہا تو انھوں نے فوراً آپؐ کی نبوت کی تصدیق کی۔ ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصافِ حمیدہ کا بھی تذکرہ کرتی رہیں۔ حضرت خدیجہؓ کے رشتہ دار ایک بزرگ تھے ورقہ بن نوفل۔ وہ دین ابراہیمؑ (دین حنیف) کی تلاش میں عیسائی ہوگئے تھے۔ توریت اور انجیل پر عبور رکھتے تھے۔ حضرت خدیجہؓ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے پاس لے گئیں اور کہا کہ ملاحظہ فرمائیں آپ کے بھتیجے پر کیا گزری؟

ورقہ بن نوفل نے وحی کا حال سنا۔ نازل شدہ پانچ آیات سنیں تو فرمایا:

’’خدا کی قسم یہ وہی ناموس (جبریل علیہ السلام فرشتہ) ہے جو حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پاس آیا کرتا تھا۔‘‘

یہ کہہ کر ورقہ ذرا رکے پھر بولے: ’’اے بھتیجے! (محمد ﷺ) سنو،یہ ناموس تم سے پہلے جس پر نازل ہوا (یعنی نبوت کا کام جسے سونپا گیا) قوم نے اس کی سخت مخالفت کی۔ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس منصب کا حق ادا کرنے میں جان پر بھی بن سکتی ہے۔ اے کاش! میں اس وقت تک زندہ رہتا، جب قوم تمہاری دشمن ہوتی تو میں تمہاری حمایت کرتا۔‘‘

یہ تحریکِ اسلامی کی پہلی منزل تھی۔ آئیے، ذرا اس پہلی منزل پر سوچیں۔ سوال یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی قدم پر ایک صنفِ نازک وہ بھی بیوی ہی کو حضورؐ کا حمایتی (ساتھی) کیوں بنادیا؟

جواب اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ اب تک جو تجربہ دنیا کو ہوا ہے، اسے بالاتفاق تمام دانشوروں نے ان لفظوں میں کہا ہے: ’’میاں بیوی زندگی کی گاڑی کے دو پہئے ہیں۔‘‘ ، ’’بیوی شوہر کی ہمدم و دمساز ہے۔‘‘ اسی بات کو قرآن کریم نے بڑے ہی پیارے الفاظ میں کہا: لتسکنوا الیہا یعنی بیوی تمہارے لیے سکون کا ذریعہ ہے۔ لفظی ترجمہ یہ ہے (اے مردو!) تاکہ تم اس سے سکون حاصل کرو۔

بیوی شوہر کی ہمدم و دمساز یعنی وہ رازداں ہوتی ہے جس سے شوہر کی کھلی چھپی کوئی حرکت چھپ نہیں سکتی۔ شوہر کی روزانہ حرکات و سکنات کی ترقی و تنزلی کو محسوس کرتی رہتی ہے۔ نیک بیوی ترقی دیکھ کر خوش ہوتی ہے اور جہاں ذرا ڈھیل محسوس کرتی ہے، اس کا ازالہ اپنی زبان سے، اپنے عمل سے اپنی تدبیروں سے کرتی رہتی ہے۔

ایسی راز دار کا فوراً ایمان لانا، بلا جھجک نبی تسلیم کرلینا یہ معنی رکھتا ہے کہ نبی ہونے سے پہلے ہی حضورؐ وہ کامل انسان بن چکے تھے کہ آپؐ کو نبی کے علاوہ اور کوئی نام دیا ہی نہیں جاسکتا۔

ایک یورپین مورخ (مستشرق) مسلمان ہوا۔ لوگوں نے پوچھا کہ تمہارے پاس محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نبی ہونے کی دلیل کیا ہے؟ اس عالم (مستشرق) نے جواب دیا کہ ’’خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا‘‘ رسول اللہؐ کی بیوی کا بلا جھجھک اسلام قبول کرلینا اس بات کی دلیل ہے کہ محمدؐ نبی ہی تھے۔

اس کردار کے برخلاف کوئی شخص بظاہر کیسا ہی ولی اپنے کو ثابت کرنے کی کوشش کرے، خود اس کی بیوی اسے ولی تسلیم نہیں کرتی۔

مشہور لطیفہ ہے۔ ایک ولی صاحب نے کرامت دکھائی۔ انھوں نے اڑنا شروع کیا۔ خاص اپنے مکان پر کئی چکر لگائے پھر گھر تشریف لائے۔ بیوی نے کہا: ’’تم کیا ولایت کا دعویٰ کرتے ہو، آج میں نے دیکھا ایک ولی اڑ رہا تھا۔‘‘ ولی صاحب نے فرمایا: ’’وہ میں ہی تو تھا۔‘‘ ’’اچھا اسی لیے ٹیڑھے ٹیڑھے اڑ رہے تھے۔‘‘ بیوی نے ہنسی اُڑائی، بیوی اس کے رازوں سے واقف تھی کہ یہ ڈھونگ رچائے دنیا کما رہا ہے۔

آج بھی تحریکِ اسلامی میں اگر بیوی کو ساتھ نہیں لایا گیا تو تحریکِ اسلامی کا مرد لاکھ سر مارے، ہرگز کامیاب نہ ہوگا۔ آج ہم ایسی اصلاحی، تبلیغی اور دعوتی سرگرمیوں کو محض اس لیے ناکام ہوتا دیکھ رہے ہیں کہ ہم نے اپنی بیویوں کو ساتھ نہیں لیا۔ انھیں بتایا ہی نہیں ہم کیا ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔

آئیے، اب ذرا اس کا منفی پہلو دیکھیں۔ فرض کرلیجیے، اگر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (نعوذ باللہ) نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کی نقل کرتیں تو پھر بیوی کے مخالف ہونے کے انجام سے ہمیں لرزجانا چاہیے۔

لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی بنایا تھا۔ اس لیے تحریکِ اسلامی کا مکمل ضابطہ دینا ضروری تھا۔ نبیؐ کے بعد تحریک کا کام کرنے والوں کو بتایا گیا کہ تحریک کس طرح آگے بڑھتی ہے؟ اور ہر مرحلے میں بیوی کا ساتھ مرد کو کتنا حوصلہ دیتا ہے۔ اس لیے تحریک کا کام کرنے والے کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنی بیوی کو ہمنوا بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد پر واجب بھی یہی کیا ہے۔ فرمایا: اے مسلمانو! قوا انفسکم واہلیکم ناراً۔ (اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔) یعنی ترتیب یہ ہے کہ اول خود تحریک کے سانچے میں ڈھلو۔ دوئم یہ کہ اپنی اہلیہ کو اسی سانچے میں ڈھالو۔ اس کے بعد پڑوس، اپنی بستی پھر اسی ترتیب کے ساتھ نزدیک و دور۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں یہی نمونہ دیا ہے۔ پھر حضرت خدیجہؓ نے اپنا مال، اپنے غلام، اپنی اولاد اور اپنا سب کچھ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو سونپ دیا کہ اس تحریک پر قربان کردیں۔ اس پھولوں کی سیج پر سونے والی خاتون نے خارزار راہوں پر تحریک اسلامی کے داعیٔ اعظمؐ کے ساتھ چلنا پسند کیا۔ تن من دھن سے ہر قدم پر اللہ کے نبیؐ کا ساتھ دیا۔

انھوں نے اسی یقین کے ساتھ اولاد کو تربیت دی۔ اولاد ہی نہیں، حضورؐ کے چچازاد بھائی، حضرت علیؓ (عمر پانچ سال) کو ابو طالب کی اجازت سے اپنے گھر رکھ لیا تھا۔ اولاد کے ساتھ علیؓ کو بھی سنوارنا شروع کردیا۔ علی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ بنانے میں حضرت خدیجہؓ کا بھی ہاتھ رہا ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ حضرت خدیجہؓ سے جب حضورؐ نے نکاح کیا تو حضرت خدیجہؓ اپنے پہلے شوہر کی اولاد کمسن بچے ابن ابی ہالہ کو ساتھ لائی تھیں۔ یعنی حضرت ابن ابیؓ ہالہ حضورؐ کے ربیب تھے یہ حضرت ابن ابیؓ ہالہ وہی ہیں کہ جب کہ ایک بار قریشِ مکہ نے حضورؐ پر یورش کی تو جیسے ہی حضرت ابن ابی ہالہؓ کو خبر ہوئی تو وہ دوڑے آئے اور مجمع میں گھس گئے اور تلواروں اور نیزوں کے سارے وار اپنے بدن پر لیے۔ حضورؐ پر قربان ہوگئے لیکن ان کی اس مداخلت سے رسولِ خداؐ بچ گئے۔

سوال یہ ہوتا ہے کہ غیر کی اولاد میں حمایتِ رسولؐ کا یہ جذبہ کس نے کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا۔ جواب صرف یہ ہے کہ ’’ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے۔‘‘ تحریک اسلامی کی تاریخ میں یہ پہلی قربانی ہے جو ایک ربیب نے اپنے سرپرست کے لیے پیش کی اور وہ بیٹا تھا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا۔

واقعات یہ بتاتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ زیادہ تر جہاد پر رہتے تھے پھر بھی ان کے گھروں سے جو پیدا ہوا شیرِ خدا معلوم ہوتا تھا۔ اسلام کو وہ بے شمار سپاہی کہاں سے ملے جنھوں نے آگے چل کر مغرب میں بحرالکاہل تک اور مشرق میں چین تک اسلام کا جھنڈا لہرادیا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ہر صحابیہؓ نے شوہر کی عدم موجودگی میں بچوں کی تربیت اسلامی اصولوں کے تحت کی۔ اس میں شک نہیں کہ صحابہؓ میدانِ جنگ میں بے دریغ تلوار چلاتے تھے اور انہیں ارمان تھا کہ شہادت کا درجہ حاصل کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کو اپنے بچوں کے مستقبل کا خیال نہیں تھا؟ تھا، بیشک تھا۔ لیکن وہ گھر سے دور ہوتے ہوئے بھی گھر سے مطمئن تھے۔ انھیں پورا یقین تھا کہ ان کا بدل گھر میں ماں کی شکل میں موجود ہے۔ چنانچہ تاریخ اسلام پڑھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ گھر گھر سے ایک ایک نہیں ایک سے زیادہ اللہ کے سپاہی مجاہد بن کر نکلے۔ یہ سب عظیم مجاہد تھے۔ ان میں عظیم فقیہ بھی ہوئے۔ ان میں اعلیٰ درجے کے قاضی ہوئے۔ بہترین عالم فاضل ہوئے اور وہ سب کچھ ہوئے جو اسلام کو مطلوب تھا۔ ہم تو ان کے بعد دوسرے درجے میں (تابعین کو) دیکھتے ہیں کہ خواتین نے بہترین مجاہد، محدث، فقیہ، امام دئے۔ موقع نہیں کہ ان کے حالات بیان کیے جائیں۔ ان میں سب سے زیادہ دلچسپ واقعہ امام ربیعہ علیہ الرحمہ کا ہے۔ ان کے والد فرخ جہاد کے لیے گئے تو پچیس چھبیس برس تک واپس نہ آسکے۔ واپس آئے تو بیوی سے کہا کہ وہ چھتیس ہزار درہم جو دے گیا تھا کیا کیے؟ بیوی نے کہا کہ جاکر نماز تو پڑھ آؤ پھر حساب لے لینا۔ وہ نماز پڑھنے مسجد نبویؐ میں گئے۔ وہاں دیکھا کہ ایک نوجوان نمایاں جگہ پر بیٹھا ہے اور درس دے رہا ہے اور اس درس میں انسؓ بن مالک جیسا عظیم صحابی بھی موجود ہے۔ درس سن کر گھر آئے۔ بیوی سے پوچھا:

’’کیا دیکھا! انھوں نے نوجوان کے بارے میں کہا اور پھر دل کی بات کہہ دی۔‘‘ کاش! میرا بیٹا ایسا ہی ہوتا۔‘‘ بیوی نے کہا: ’’خوش ہوجاؤ، وہ تمہارا ہی بیٹا ہے۔ میں نے چھتیس ہزار درہم اس کی تعلیم پر خرچ کردئے۔‘‘

مجاہد محترم حضرت فرخؓ نے کہا:

’’تم بہت اچھی بیوی اور بہترین ماں ہو۔‘‘

مسلم خواتین نے ہمیشہ، ہر دور میں یہی خدمات انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی مسلم معاشرے کو خوب نوازا۔ ہر دور میں عظیم لوگ اسلامی معاشرے میں پیدا ہوئے۔ ان سب نے اسلامی معاشرے کو پاک صاف رکھا۔ ان کے وجود سے اسلام خوب پھیلا۔ بے شمار غیر مسلم، مسلمان ہوکر اسی معاشرے میں گھل مل گئے۔

ہمارے بزرگ بیان کرتے ہیں کہ انیسویں صدی تک مسلم معاشرہ ایک بہترین معاشرہ مانا جاتا تھا۔ لیکن پھر بیسویں صدی کے آتے ہی یہ برکت باقی نہ رہی۔ بیسویں صدی میں جو مسلم زعما نمایاں ہوئے وہ انیسویں صدی کی پیداوار ہیں اور انھوں نے خالص مسلم ماںکا دودھ پیا تھا۔ ان ماؤں کی گودوں میں پلے تھے جنھوں نے انھیں اسلام کے سانچے میں ڈھالا تھا۔

ان میں کوئی سید احمد شہیدؒ ہے، کوئی مولانا اسماعیل شہیدؒ، کوئی سرسیدؒ ہے تو کوئی حالیؒ و شبلیؒ، کوئی محمد علی شوکت علی ہے تو کوئی ظفر علی خاں، کوئی رشید احمدگنگوہیؒ ہے تو کوئی حسین احمد مدنیؒ ، کوئی مولوی رحمت اللہ ہے تو کوئی مولانا اشرف علی تھانویؒ کوئی حکیم اجمل خاں ہے تو کوئی مفتی کفایت اللہؒ اور کوئی سید مودودیؒ۔

ظاہر ہے کہ جب ماؤں کے عزائم یہ ہوں تو پھر اولاد کیسی پیدا ہوگی۔ کیسی پیدا ہورہی ہے جس نے یہ کہا سچ کہا کہ آج کی ماں اول تو اولاد سے بیزار ہے اور اگر اولاد پیدا کرتی ہے تو وہ بندر اور ریچھ سے کم نہیں ہوتی۔ کسی دانشور کی کہی ہوئی یہ بات تشریح کی محتاج نہیں ہم ہی اپنے ملک میں اس کا رونا نہیں رو رہے ہیں، نئی تہذیب کا باوا آدم مغرب بھی چیخ رہا ہے کہ ہماری وہ ماں کہاں گئی جس کے سینے کی آنچ سے ہمارے پاپ جل جایا کرتے تھے۔ ہمیں وہ ماں دو جو ہم سے گم ہوگئی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں