ہر مسلمان کو سب سے پہلے جو چیز جاننی چاہیے وہ یہ ہے کہ ’’مسلمان‘‘ کہتے کس کو ہیں اور ’’مسلم‘‘ کے معنی کیا ہیں۔ اگر انسان یہ نہ جانتا ہو کہ ’’انسانیت‘‘ کیا چیز ہے اور انسان و حیوان میں فرق کیا ہے تو وہ حیوانوں کی سی حرکات کرے گا اور اپنے آدمی ہونے کی قدر نہ کرسکے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو یہ نہ معلوم ہوکہ مسلمان ہونے کے معنی کیا ہیں اور مسلم اور غیر مسلم میں امتیاز کس طرح ہوتا ہے تو وہ غیر مسلموں کی سی حرکات کرے گا اور اپنے مسلمان ہونے کی قدر نہ کرسکے گا۔ لہٰذا مسلمان کو اور مسلمان کے ہر بچے کو اس بات سے واقف ہونا چاہیے کہ وہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو اس کے معنی کیا ہیں، مسلمان ہونے کے ساتھ ہی آدمی کی حیثیت میں کیا فرق واقع ہوجاتا ہے، اس پر کیا ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے، اور اسلام کے حدود کیا ہیں جن کے اندر رہنے سے آدمی مسلمان رہتا ہے، اور جن کے باہر قدم رکھتے ہی وہ مسلمانیت سے خارج ہوجاتا ہے، چاہے وہ زبان سے اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتا جائے۔
اسلام کے معنی
اسلام کے معنی ہیں خدا کی اطاعت اور فرماں برداری کے۔ اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردینا اسلام ہے۔ خدا کے مقابلے میں اپنی آزادی و خودمختاری سے دست بردار ہوجانا ’’اسلام‘‘ ہے۔ جو شخص اپنے سارے معاملات کو خدا کے حوالے کردے وہ مسلمان ہے، اور جو اپنے معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھے یا خدا کے سوا کسی اور کے سپرد کردے وہ مسلمان نہیں ہے۔ خدا کے حوالے کرنے یا خدا کے سپرد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اپنی کتاب اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے جو ہدایت بھیجی ہے اس کو قبول کیا جائے، اس میں چون و چرا نہ کی جائے، اور زندگی میں جو معاملہ بھی پیش آئے اس میں صرف قرآن اور سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی جائے۔ جو شخص اپنی عقل اور دنیا کے دستور اور خدا کے سوا ہر ایک کی بات کو پیچھے رکھتا ہے، اور ہر معاملے میں خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتا ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہ کرنا چاہیے، اور جو ہدایت وہاں سے ملے اس کو بے چون و چرا مان لیتا ہے، اس کے خلاف ہر چیز کو رد کردیتا ہے، وہ اور صرف وہی ’’مسلمان‘‘ ہے، اس لیے کہ اس نے اپنے آپ کو بالکل خدا کے سپرد کردیا، اور اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرنا ہی ’’مسلمان‘‘ ہونا ہے۔ اس کے برخلاف جو شخص قرآن اور سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر انحصار نہیں کرتا، بلکہ اپنے دل کا کہا کرتا ہے، یا باپ دادا سے جو کچھ ہوتا چلا آتا ہو، اس کی پیروی کرتا ہے، یا دنیا میں جو کچھ ہورہا ہو اس کے مطابق چلتا ہے، اور اپنے معاملات میں قرآن اور سنت سے یہ دریافت کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتا کہ اسے کیا کرنا چاہیے، یا اگر اسے معلوم ہوجائے کہ قرآن و سنت کی ہدایت یہ ہے اور پھر وہ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ میری عقل اسے قبول نہیں کرتی اس لیے میں اس بات کو نہیں مانتا، یا باپ دادا سے تو اس کے خلاف عمل ہورہا ہے لہٰذا میں اس کی پیروی نہ کروں گا، یا دنیا کا طریقہ اس کے خلاف ہے لہٰذا میں اسی پر چلوں گا، تو ایسا شخص ہرگز مسلمان نہیں ہے۔ وہ جھوٹ کہتا ہے اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔
مسلمان کے فرائض
آپ جس وقت کلمۂ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسْولُ اللّٰہ پڑھتے ہیں اور مسلمان ہونے کا اقرار کرتے ہیں، اسی وقت گویا آپ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ کے لیے قانون صرف خدا کا قانون ہے، آپ کا حاکم صرف خدا ہے، آپ کو اطاعت صرف خدا کی کرنی ہے، اور آپ کے نزدیک حق صرف وہ ہے جو خدا کی کتاب اور اس کے رسول? کے ذریعے سے معلوم ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ مسلمان ہوتے ہی خدا کے حق میں اپنی آزادی سے دست بردار ہوگئے۔ اب آپ کو یہ کہنے کا حق ہی نہ رہا کہ میری رائے یہ ہے، یا دنیا کا دستور یہ ہے، یا خاندان کا رواج یہ ہے، یا فلاں حضرت یا فلاں بزرگ یہ فرماتے ہیں۔ خدا کے کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مقابلے میں اب ان میں سے کوئی چیز بھی آپ نہیں کرسکتے۔ اب آپ کا کام یہ ہے کہ ہر چیز کو قرآن و سنت کے سامنے پیش کریں، جو کچھ اس کے مطابق ہو، قبول کریں اور جو اس کے خلاف ہو اسے اٹھاکر پھینک دیں خواہ وہ کسی کی بات اور کسی کا طریقہ ہو۔ اپنے آپ کو مسلمان بھی کہنا اور پھر قرآن و سنت کے مقابلے میں اپنے خیال یا دنیا کے دستور یا کسی انسان کے قول یا عمل کو ترجیح دینا، یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جس طرح کوئی اندھا اپنے آپ کو آنکھوں والا نہیں کہہ سکتا، اور کوئی نکٹا اپنے آپ کو ناک والا نہیں کہہ سکتا، اسی طرح کوئی ایسا شخص اپنے آپ کو مسلمان بھی نہیں کہہ سکتا جو اپنی زندگی کے سارے معاملات کو قرآن و سنت کا تابع بنانے سے انکار کرے، اور خدا اور رسولؐ کے مقابلے میں اپنی عقل یا دنیا کے دستور یا کسی انسان کے قول و عمل کو پیش کرے۔
جو شخص مسلمان نہ رہنا چاہتا ہو اسے کوئی مسلمان رہنے پر مجبور نہیں کرسکتا، اسے اختیار ہے کہ جو مذہب چاہے اختیار کرے اور اپنا جو نام چاہے رکھ لے، مگر جب وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو اس کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ مسلمان اسی وقت تک رہ سکتا ہے جب تک وہ اسلام کی سرحد میں ہے۔ اس سرحد میں جو شخص رہے وہی مسلمان ہے۔ اس سے باہر قدم رکھتے ہی آدمی اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اور اس کے بعد وہ اگر اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے اور مسلمان کہتا ہے تو خود وہ اپنے نفس کو بھی دھوکا دیتا ہے اور دنیا کو بھی۔
’’اور جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی کافر ہیں۔‘‘ (المائدہ: 44:5)