جب آپ اپنے دل میں خدا کی محبت بسا لیتے ہیں تو آپ کی شخصیت تکمیل پا جاتی ہے۔‘
یہ الفاظ اس خاتون کے ہیں جس کو فرانس کی اولین راپ سنگر ہونے کا اعزاز حاصل تھا اور جس کی شہرت و مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ۱۹۹۹ سے ۲۰۰۹، یعنی محض دس برس کے اندر اس کے نغموں کی چار لاکھ سے زیادہ سی ڈی فروخت ہو چکی تھیں۔۲۰۰۶ میں اس کا ایک البم آیا، ایک سال کے اندر ہی جس کے تقریباً ایک لاکھ نسخے فروخت ہو چکے تھے۔
مغرب کا سب سے مقبول عام موسیقی ’راپ‘ (Rap) ہے۔ ’میلانی جورجیا‘ راپ موسیقی کے پیشے میں ’دیامس‘ کے نام سے معروف تھی۔عین اس وقت جب کہ وہ شہرت و مقبولیت کی انتہائی بلندیوں پر تھی، اس نے دنیا بھر میں ایک بے چینی اور ہلچل کی لہر پیدا کر دی۔آخری البم آنے کے بعد چار سال تک اس نے خود کو خاموش رکھا۔ نومبر ۲۰۰۹ میں ’پیرس میچ‘ نام کی میگزین نے ایک مفصل رپورٹ شائع کی جس کے ساتھ دیامس کی ایک تصویر بھی شائع کی تھی، جس میں وہ مکمل طور پر باحجاب تھی۔عام مقامات پر حجاب کے استعمال کے تعلق سے پہلے ہی ایک بحث چھڑی ہوئی تھی کہ دیامس کی اس تصویر نے ایک اور ہنگامہ برپا کر دیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق دیامس نوجوان لڑکیوں کی امنگوں اور آرزوؤں کی ترجمان بن چکی تھی اور لڑکیاں اس کو اپنی آئیڈیل ماننے لگی تھیں۔ لیکن اس تصویر کے منظر عام پر آتے ہی اس کے خلاف منفی ردعمل آنے شروع ہو گئے۔ بعض لوگوں نے یہاں تک کہنا شروع کر دیا کہ دیامس اپنے تمام نوجوان عقیدت مندوں کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ اس پر دیامس کو افسوس ناک حیرت ہوئی اور اس نے پوچھا کہ ’’کیاامن کی بات کرنا، اچھا انسان بن کر رہنا اور اپنا گھر بسانا خطرے کی بات ہے؟‘‘
شدید ردعمل کے پیش نظر دیامس نے اپنے اس فیصلے کے بارے میں کوئی گفتگو نہ کرنے کا فیصلہ لیا اور تین سال تک خاموشی سے اس ردعمل کا مشاہدہ کرتی رہی۔ تین سال کے بعد اس نے اپنی خودنوشت کے ذریعے لوگوں کو قبول اسلام کے اپنے فیصلے کی وجوہات سے واقف کرایا۔
اس نے جس وقت یہ خودنوشت تحریر کی اس کی عمر ۲۳ سال تھی اور ایک بیٹی ’مریم‘ کی ماں بن چکی تھی۔ خودنوشت کے ذریعے دیامس نے بتایا کہ بچپن میں ہی وہ اپنے والد کو کھو چکی تھی۔ لڑکپن کے زمانے میں اس نے بڑی دشواریاں جھیلیں جن کی وجہ سے پندرہ برس کی عمر میں اس نے ایک بار خودکشی کی ناکام کوشش بھی کی تھی۔ اس کے بعد اس نے اپنا تعلق راپ موسیقی سے جوڑ لیا، جس کے ذریعے شاید اس نے اپنے غموں کو چھپانے کی کوشش کی۔وہ کہتی ہے کہ ماچ ۲۰۰۸میں اس نے ایک موسیقی انعامات کی تقریب میں راست نغمے گائے، لیکن حاضرین میں موجود بہت کم لوگ یہ بات جانتے تھے کہ وہ نفسیانی علاج کے فوراً بعد یہاں آئی ہے اور کچھ دنوں بعد اسے پھر سے نفسیاتی علاج کے لیے واپس جانا ہے۔نفسیاتی علاج کے لیے لی جانے والی دوائوں نے اسے لاغر و لاچار کر دیاتھا اور وہ اس لائق بھی نہیں رہی تھی کہ نفسیاتی ڈاکٹروں سے مدد لے سکے۔ وہ ڈپریشن کا شکار ہو گئی اور نیند کے لیے حد سے زیادہ خواب آور گولیاں لینے لگی۔
ایک دن وہ اپنی دوست ’’سو سو‘‘ کے گھر تھی۔ اس نے اس کو نماز پڑھتے دیکھا۔ اس نے پوچھا کہ کیا وہ بھی اس کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے اور اس کے ساتھ نماز پڑھنے کھڑی ہو گئی۔ دیامس کہتی ہے: ’’جب میں نے اس کے ساتھ نماز پڑھی تو مجھے محسوس ہوا کہ میرا تعلق اللہ سے قائم ہو گیا ہے۔‘‘اسی لیے وہ یہ کہتی ہے کہ اسے اس ڈپریشن سے نجات دینے کا اول سبب جو چیز بنی وہ نماز تھی۔ اس کے بعد دسمبر ۸۰۰۲ء میں اس نے موریشس کا سفر کیا تھا۔ سفر کے دوران اس نے قرآن کو پڑھا تو اس سے بھی اس کو ڈپریشن سے نجات پانے میں مدد ملی۔اس کے بعد اس نے کسی کو بتائے بغیر خاموشی سے اسلام قبول کر لیا اور حجاب کو اختیار کرنے کافیصلہ کیا۔حجاب کو اختیار کرنے کا فیصلہ بھی اس نے مرحلہ وار لیا تھا۔ ابتدا میں اس کا ارادہ حجاب پہننے کا نہیں تھا، لیکن جب اس نے اسلام کا مزید مطالعہ کیا تو وہ اس بات کی قائل ہو گئی کہ اسے حجاب پہننا چاہیے۔ اسی دوران اس نے اپنا نیا البم تیار کیا لیکن میڈیا کو اس کی خبر نہیں ہونے دی۔قرآن کی تلاوت کو وہ اپنے لیے ’وحی‘ سے تعبیر کرتی ہے کہ قرآن کی تلاوت اسے وحی کے نزول کی طرح محسوس ہوئی اور اللہ کے وجود کی حقیقت پر اسے شرحِ صدر حاصل ہو گیا: ’’مجھے یہ اطمینان ہو گیا کہ اللہ موجود ہے اور جب بھی میں قرآن پڑھتی ہوں، میرا یہ یقین مزید بڑھ جاتا ہے۔‘‘
اپنی خودنوشت میں دیامس لکھتی ہے: ’’میں نے محسوس کیا کہ میرے لیے ایسے لوگوں سے مذہب کے موضوع پر بات کرنا بہت مشکل ہے جن کی اکثریت اہل ایمان نہیں ہے۔ اس لیے میں نے یہ فیصلہ لیا کہ مجھے جو کچھ کہنا ہے، اپنے البم کے توسط سے کہوں گی۔‘‘ لیکن پیرس میچ میگزین نے دیامس کے منصوبے پر پانی پھیر دیا۔ دیامس میگزین کی اس حرکت کو چوری اور کسی کے ذاتی مسائل میں دخل دینے سے تعبیر کرتی ہے۔دیامس کا یہ بھی خیال ہے کہ لوگوں کو میرے قبول اسلام سے اتنی پریشانی نہیں ہے، جتنی حجاب کو اختیارکرنے سے ہے۔‘‘ حجاب اختیار کرنے کے فیصلے کے سلسلے میں وہ کہتی ہے: ’’حجاب پہننے کافیصلہ میرے ذاتی غور وفکر اور مطالعے اور ذاتی اطمینان کا نتیجہ ہے۔ مجھے کبھی کسی نے اس بات پر مجبور نہیں کیا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔‘‘’’مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں سونے کی جیل سے فرار ہو کر آئی ہوں۔‘‘
حال ہی میں دیامس نے حج کی سعادت حاصل کی ہے۔ اس موقع سے اس نے کہا:’’میںیہ سمجھتی تھی کہ مال و دولت کی فراوانی، طاقت اور کامیابی وہ چیزیں ہیں جو مجھے خوش رکھ سکتی ہیں۔ مجھے خوشی کی تلاش تھی۔ میں تنہا اور بہت غم زدہ تھی۔ مجھے یہ ادارک نہیں ہو سکا تھا کہ اب مجھے اللہ سے ہم کلام ہونا چاہیے۔ جب بھی میری زندگی میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے، خوش کن ہو یا مضرت رساں، میں یہ جان جاتی ہوں کہ اللہ تعالی میری دعا سن رہا ہے۔‘‘
جس روز دیامس کی باحجاب تصویر اخبارات میں شائع ہوئی فرانس کے لوگ کس قدر صدمے سے دوچار ہوئے، اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہے: ’’یہ فرانس کے لوگوں کے لیے ایک بڑے صدمے کی طرح تھا جو باہم یہ پوچھتے پھر رہے تھے کہ دیامس کون سے راستے پر چلی گئی؟ حجاب، جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں، اہل فرانس کے حلق سے اترنے والی چیز نہیں ہے۔ وہ مجھے صرف ایک مغنیہ (گلوکار) دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
قبول اسلام کے ابتدائی دنوں میں اپنی خاموشی کے سلسلے میں کہتی ہے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میڈیا سے کہے تو کیا کہے، کیوں کہ ’’ایمان ایک ایسی چیز ہے جس کی تشریح انتہائی مشکل ہے۔‘‘اسے اللہ پر ایمان تو تھا، لیکن وہ خود عیسائیت کی پیرو تھی، یا یہ کہیے کہ وہ تعین کے ساتھ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا مذہب کیا ہے۔
اپنی گزشتہ زندگی پر نظر ڈالتے ہوئے اس کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اسے زندگی اس لیے نہیں ملی تھی کہ موسیقی کی دنیا کی اسٹار بن کر رہے۔ ایسی زندگی نے تو اسے اذیتوں سے دوچار کر رکھا تھا۔ وہ کہتی ہے: ’’میں نے پارٹیوں سے لطف اندوز ہونے کی بہت کوشش کی، لیکن، میں ان پارٹیوں کے لیے نہیں بنی تھی۔ میں اسٹار بننے کا خواب تو دیکھتی تھی، لیکن یہ محض ایک فریب تھا۔‘‘ جو لوگ اسلام کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کیے بغیر اس کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، ان کے سلسلے میں دیامس کہتی ہے: ’’کچھ لوگ ہیں جو اسلام سے واقف نہیں ہیں، انھیں ایسی باتیں کرنے سے باز رہنا چاہیے۔ جب ہم کسی چیز کے بارے میں بات کریں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کس چیز کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘‘
اسلام پر دہشت گردی کا جو لیبل لگایا جاتا ہے، اس سے اسلام دفاع کرتے ہوئے کہتی ہے: ’’میں نے جس چیز کو دریافت کیا ہے وہ دہشت گردی نہیں ہے۔ میں نے تو عقل کے مذہب، عدم تشدد، امن، باہمی شراکت اور رحم و شفقت کے مذہب کو دریافت کیا ہے۔ یہ (اسلام) عیسی، موسی، ابراہیم، سلیمان اور تمام ابنیاء علیہم السلام کا مذہب ہے۔ لوگ اسے دہشت گرد کے طور پر کیوں دیکھتے ہیں؟‘‘
آخر میں دیامس نے اسلام سے تعلق کے احساس کو اس طرح بیان کیا ہے: ’’میں اس نقطے پر آکر بہت خوش ہوں کہ میرے دل میں ایسی خوشی آباد ہے، جسے کوئی مجھ سے چھین نہیں سکتا ہے۔نہ میری تصویری لے کر کوئی اسے مجھ سے چھین سکتا ہے، نہ مجھ پر حملے کر کے چھین سکتا ہے۔ میرے دل میں ایمان ہے۔‘‘
دیامس آج کل اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ سعودی عرب میں رہتی ہے اور اپنی زندگی سے مطمئن و خوش ہے۔اس کا احساس ہے کہ اب وہ ’’ایک عام عورت‘‘ بن چکی ہے اور ان ذہنی اذیتوں سے محفوظ ہے جن سے اسٹارس دوچار رہتے ہیں۔ الجزیرہ نت