اسلام میں خواتین کے حقوق اور آزادی

ناز آفرین

اسلام نے معاشرتی،مذہبی ، تعلیمی ،سماجی اورسیاسی سطح پر مرد و زن دونوں کے لیے یکساں حقوق عطا کیے ہیں۔ با الفاظ دیگر جس جنس کو جتتا چاہیے اسے اتنا ہی حق دیا ۔ اگست کے شمارے میںایک مضمون بہ عنوان ’’ خواتین کے حقوق اور ہمارا معاشرہ ‘‘ بھی شاملِ کتاب رہا ۔ مذکورہ مضمون میں جتنی باتیں آئیں ہیں وہ مسلمان عورتوں کے حقوق نہیں بلکہ مختلف خطوں میں ان کے ساتھ برتے جانے والے سلوک کو پیش کرتا ہے ۔ اس لیے یہ بہتر ہے کہ خواتین کو ان کے اصل حقوق سے واقف کرایا جائے ۔اسی نقطۂ نظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے خواتین کو اسلام کے عطا کردہ حقوق اور آزادی پر تفصیلی گفتگو مقصود ہے ۔

اسلام نے خواتین کو جو حقوق دئیے ہیں ان پر بات کے جائے تو کہنا پڑتا ہے کہ اسلام نے انھیں پیدائش سے وفات تک بالکل محفوظ کر دیا ہے ۔ واضح ہو کہ یہاں اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دئیے اس کی بات ہو رہی ہے یہ نہیں کہ مسلمانوں نے کتنا حق دیا ۔ یہ ان کا بنیادی حق ہی تو ہے کہ لڑکی کی پیدائش اور بہتر تعلیم و تربیت پر جنت کی بشارت دی گئی ۔ ماں کے قدموں میں جنت رکھ دی گئی۔ دیگر مذاہب میں لڑکیوں کی پیدائش پر کوئی بشارت نہیں ملتی ۔ ہم اکثر خواتین کو ملنے والے حقوق کی بات کرتے ہوئے مغرب کو لعنت ملامت کرنے لگتے ہیں جب کہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر کسی کا اپنا ایک کلچر اور اپنی تہذیب ہے ۔ہمارے یہاں بھی مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ان سے متاثرہے ۔ یہ طبقات مغرب پرستی اسی لیے کرتے ہیں کہ انھیں اپنے دین کی صحیح سمجھ نہیں۔

یہ صحیح ہے کہ مغرب میں عورتوں نے کچھ حقوق حاصل کیے لیکن ان حقوق کے حصول میں ان کی معاشرتی اور سماجی زندگی بری طرح متاثٔر ہوئی۔اسلام نے مرد و عورت دونوں کو عبادت کا یکساںحق دیا ۔ غیر مذہب میں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ عورت روزہ رکھے ، پوجا پاٹھ کرے تو اس کا ثواب اس کے شوہر یا بھائی وغیرہ کو جاتا ہے ،ان کی عمر لمبی ہوتی ہے لیکن اسلام نے عبادات کا صلہ خواتین کو دے کر ان کے ساتھ انصاف کیا ۔ قرآن پاک میں اس کی وضاحت کی گئی کہ :

’’اور جو نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو تا عورت ،بشرطیکہ ہو وہ مومن،تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوںگے اور ان کی ذرہ برابر حق تلفی نہ کی جائے گی ۔ ‘‘ (النساء: 124)

معاشرتی سطح پر بالغ لڑکی یا عورت اپنی جائیداد کو اپنی مرضی سے فروخت کر سکتی ہے ۔ اس پر کوئی دباو نہیں ڈال سکتا ۔ والد یا بھائی بہ حیثیت ولی ا سے مشورے دے سکتے ہیں ۔چوں کہ انھیں باہر کے ماحول کا زیادہ علم ہوتا ہے جب کہ لڑکیاں باہر کے ماحول اور حالات سے مردوں کی بہ نسبت کم واقف ہوتی ہیں اور انھیں جذباتی طور پر بے وقوف بنایا جا سکتا ہے ۔اب غور کیا جائے ایک طرف اسلام عورتوں کو جائیداد میںحصہ دے کر انھیں مالی اعتبار سے مستحکم کرتا ہے تو دوسری طرف باپ اور بھائی کی شکل میں اس کی نگرانی کر کے ہر بری اور نا گہانی آفت سے بچانے کا بھرپور انتظام کرتا ہے ۔لڑکی جب نکاح کے بعد اپنے شوہر کے گھر جاتی ہے تو اس کی کفالت کی ذمہ داری شوہر پر ہوتی ہے۔ وہ ضرورتاً بیٹی ،بہن ،بیوی اور ماں کی حیثیت سے کما سکتی ہے پھر بھی اس کے نان نفقہ کی ذمہ داری مرد پورا کرے گا ۔جب وہ اپنے گھر میں ہوتی ہے تو باپ یا بھائی اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ یہ سہولیات مغربی ممالک نے عورتوں کو 1870ء؁ میں دیے۔ہندستان نے پچھلی صدی میں اور اسلام نے تقریباً 1500ء؁ صدی قبل عطا کیے ۔ عورت تجارت کر سکتی ہے اور اس کی اولین و بہترین مثال حضرت خدیجہ ؓ ہیں جو Internationalسطح کی bussiness womenتھیں۔دوسرے مذہب میںعورتوں کو یہ سب کرنے کے لیے اپنے گھر سے نکلنا پڑا یا اپنے حدود سے باہر آنا پڑامگر مسلم عورتیںاپنے حدود میں یہ سب کر تی تھیں اور کر سکتی ہیں ۔ نکاح کے موقع پر مرد بہ طور مہر رقم کی ادائیگی کرے اور عورت اس رقم کو اپنی مرضی سے جہاں چاہے خرچ کر سکتی ہے ،جسے چاہے دے سکتی ہے،مرد اس سلسلے میں سوال کرنے کا روادار نہیں ۔ یہ الگ سی بات ہے کہ جہیز کی لعنت مہر پر حاوی ہو گئی ہے ۔

تعلیم و تربیت کا حق دونوں کو ہے لیکن لڑکی کی تعلیم و تربیت کرنے والوں کے لیے رسول اللہ ﷺ نے جنت میں اپنے ساتھ ہونے کی ضمانت دی جب کہ مردوں کی تعلیم کے لیے اللہ کے رسول نے اتنی بڑی خوش خبری نہیں دی ۔

اسلام نے عورت کو ماں ہونے کی حیثیت سے مردوں کے بالمقابل تین گنا زیادہ درجہ بلند کیا ۔ حدیث پاک کے وہ الفاظ یاد کریں جب ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ۔اے اللہ کے رسول ﷺ میرے ماں باپ دونوں میں سے کون میری توجہ کا زیادہ مستحق ہے ؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہاری ماں ۔ آپ ﷺ نے تین بار ماں کہا اور چوتھی بار میں کہا تمہارا باپ۔اسلام کا عروت پر بہت خاص اور بڑا احسان اور بھی ہے جو کہیں نظر نہیں آتا اور وہ یہ ہے کہ اسلام نے عورت کے وقار اور اس کی عزت کی خاص طور پر حفاظت کی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی معصوم اور بھلی عورت پر بیہودہ الزام لگائے تو اسے بھرے بازا رمیں اسّی کوڑے لگانے کی بات آئی ہے اور زنا بالجبر کے لیے تو سنگ سار کر دینے کا حکم ہے۔صرف الزام لگانے کی اتنی کڑی سزا ہے ۔ یہ عورت کے عصمت پر انگلی اٹھانے کی سزائیں ہیں جس کی روایت کہیں اور نہیں ملتی۔اسلام نے مطلقہ اور بیوہ کی دوسری شادی کا انتظام کیا جب کہ غیر مذہب اب ہماری تقلید کر رہے ہیں ۔دین فطرت نے عورتوں کو Votingکا حق دیا ۔ عورتیں آپ ﷺ کے حکم سے حضرت عمر ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرتی تھیں۔امریکہ نے 1976ء؁ میں عورتوں کو جنگ میں شامل کیا اور مسلمان عورتیں غزوات میں شامل ہوتی تھیں نیز جنگ بازوں کی مرہم پٹی بھی کرتی تھیں ،ناک وغیرہ کٹ جاتی تو ام رمیصہ اور ام موتہؓ سونے کی ناک بنا کر لگاتی تھیں ۔ آج کے زمانے میں ایسی عورتوں کوسرجن اور نرس کہا جاتا ہے ۔

اگر اس زمانے کی عورتوں کے مشاغل کی بات کی جائے تو صرف چند مثالیں حاضر ہیں ۔حضرت عائشہ ؓ کااسلامی معلومات ، تاریخ ، ریاضی ، مسائل و فقہ اور ادب و شاعری میں کوئی ثانی نہیں ۔ ان کی معلومات پر 88؍اسکالروں کی گواہی ہے۔ خاتون جنت حضرت فاطمہ ؓ کھیتی کرتیں اور رسول اللہ ﷺ اس اناج کو کھاتے تھے۔ حضرت سودہ ؓ چمڑے کا کاروبار کرتی تھیں۔ حضرت خولہ ؓ اور صفیہؓ عطر تیار کرتی تھیں ۔حضرت سمیہ ؓ اسلام کی راہ میں شہادت پانے والی پہلی خوش نصیب اور قابل رشک خاتون تھیں ۔حضرت فاطمہ بنت خطابؓ داعیہ تھیں جو حضرت عمر ؓ کی مشرف بہ اسلام ہونے کی وجہ بنیں۔حضرت خنساء مشہور مرثیہ گو شاعرہ تھیں ۔

بعض تنگ نظر افراد پردہ کو عورتوں کی ترقی میں مانع قرار دیتے ہیں لیکن حالات کا موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بے پردہ اور عریاں لباس زیب تن کرنے والی عورتوں کے ساتھ کیسے کیسے واقعات ہوئے۔مذکورہ تمام عورتوں نے پردے میں رہ کر تاریخی کارنامے انجام دئیے۔ عورتیں سکون سے تھیں تبھی تو اتنے بڑے بڑے کام کیے ۔سچ تو یہ ہے کہ اسلام نے عورتوںکا مقام اتنا بلند کر دیا کہ اب اس کی کوئی بلندی قطعاً نہیں ہو سکتی ،ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم خواتین زیادہ سے زیادہ اپنے تعلقات اسلام سے وابستہ کریں اور اسے پھیلائیں۔وہ اپنے حقوق کی نگہبان خود بنیں۔ اس کا فیصلہ بھی کر لیا جائے کہ دنیا میں سب سے ماڈرن اور کلچر کون ہیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146