اسلام میں عورت کی تین حیثیتیں: بیوی (۳)

محمد عارف عبد الرؤف چاچیا

بیوی کا درجہ چوں کہ معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں سب سے زیادہ اہم اور معاشرتی اعتبار سے معتبر ہے، اس لیے اس کے متعلق احکام بھی زیادہ ہیں۔ قرآن کریم میں کئی سورتوں میں اس قسم کی بہت سی آیتیں ہیں جو شوہر و بیوی کی معاشرتی زندگی میں رہنمائی کرتی ہیں۔ ہم ان میں سے چند کو نقل کرتے ہیں تاکہ بیوی کی منزلت و اہمیت اس کی فطرت و صلاحیت اور اس کے متعلق حقوق و فرائض کی وضاحت ہوسکے بیوی کا وجود باعث تسکین ہے اور یہ سکون آپ کی محبت اور مروت سے حاصل ہوتا ہے۔

’’خدا کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے بنائے ہیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور خدانے تمہارے درمیان مودت و رحمت پیدا کی۔‘‘ (الروم:۱۲)

بیوی کے ساتھ بھلائی کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہیے ان کی بات ناگوارِ خاطر ہوتی ہے تو ہوسکتا ہے کہ اسی میں خیر اور بہتری پوشیدہ ہو۔

’’ان (بیویوں) کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو، اگر تم ان کو ناپسند کرتے ہو تو ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو تم برا سمجھتے ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس میں خیر کثیر رکھا ہو۔‘‘ (النساء:۹۱)

امام جصاص نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ شوہر پر مہر اور نفقہ کے جو حقوق ہیں ان کو پورا کرے، درشت کلامی اور اعراض اور غیر عورت کی طرف التفات کی وجہ سے اس کو اذیت نہ دے، حتی کہ بیوی کے سامنے چہرہ بشرہ سے بھی نفرت و بیزاری کا اظہار نہ کرے۔ بیوی کے لیے اسی طرح کے حقوق شوہر پر ہیں جس طرح کے حقوق شوہر کے بیوی پر ہیں۔ یعنی ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔

’’ان عورتوں کے حقوق ایسے ہی ہیں جیسے ان پر (مردوں) کے حقوق ہیں اچھے طور پر۔‘‘ (البقرۃ)

امام قرطبی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ مردوں کے حقوق زوجیت اسی طرح ہیں جس طرح عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں۔ اسی لیے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے ایک بار فرمایا۔ میں اپنی بیوی کے لیے اسی طرح سجتا ہوں، جس طرح وہ میرے لیے سنورتی ہے اور جس طرح میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ میرا حق پوری طرح ادا کرے، اسی طرح وہ اس کا اختیار رکھتی ہے کہ وہ اپنا حق پوری طرح وصول کرے۔‘‘

حضرت ابن عباسؓ سے ایک روایت منقول ہے کہ مردوں پر عورتوں کا حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ حسن صحبت اور خوش معاملگی کا سلوک کرے۔

ابن زید نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور اسی طرح وہ تمہارے بارے میں اللہ سے ڈریں۔

قرآن مجید کی ایک آیت ہے:

’’مردوں کے لیے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کے اعمال کا حصہ ہے۔‘‘

شوہر اور بیوی دونوں یکساں طور پر اپنی اپنی ہستی، اپنے فرائض و اعمال اور ان کے نتائج و ثمرات رکھتے ہیں۔

دنیا میں اللہ تعالیٰ ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر کسی نہ کسی خاص بات کی بناء پر فوقیت دیتا ہے۔ فطری طور پر عورت کی معیشت کی ضرورتیں مردوں کے ذریعے پورے ہوتی ہیں۔ اس لیے ذمہ داری اور کارگزاری میں سربراہی کا حق قدرتی طور پر مردوں کو حاصل ہے۔

’’مرد عورتوں کے حاکم (زندگی کا بندوبست کرنے والے) ہیں اس لیے کہ اللہ نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔‘‘ (النساء:۶)

’’مردوں کا عورتوں پر ایک (خاص) درجہ ہے۔‘‘ (البقرۃ:۲۲۸)

حضرت ابن عباسؓ کی رائے یہ ہے کہ درجہ کی اس برتری سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت پر ابھارا جائے اور عورتوں کے ساتھ اخلاقی اور اقتصادی دونوں طرح سے کشادگی کا سلوک کیا جائے۔ یعنی جو افضل ہے اسے ان اخلاق عالیہ کا زیادہ بڑا نمونہ ہونا چاہیے۔

اور اصل بنیادی بات یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں۔ دونوں کی زندگی ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ اس لیے ضرورت اور مقصد میں دونوں یکساں اور مساوی ہیں۔

’’وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔‘‘ (البقرۃ:۳۲)

اس بلیغ آیت کی تفسیر میں مفسرین نے مختلف آرا بیان کی ہیں، ہم یہاں مولانا سید سلیمان ندویؒ کی ایک تحریر نقل کرتے ہیں۔ وہ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:

’’مرد وعورت کو ایک دوسرے سے ملا کر اللہ تعالیٰ نے دونوں کے جنسی میلان کو ان کی معاشی اور معاشرتی کمی کی تکمیل کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس لیے یہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم، ایک دوسرے کی پردہ پوش، ایک دوسرے کی زینت اور ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔۔۔۔ اس آیت میں بیسیوں معنی پوشیدہ ہیں۔ تم ان کے ستر پوش ہو، وہ تمہارے لیے، تم ان کی زینت ہو، وہ تمہاری، تم ان کی خوبصورتی ہو، وہ تمہاری، تم ان کی تکمیل کا ذریعہ ہو، وہ تمہاری، یہی نکاح کے اغراض ہیں اور انہی اغراض کو پورا کرنا حقوق زوجین کو ادا کرنا ہے۔

قرآن مجید کی چند آیتیں گو ہم نے مختصر پیش کی ہیں، لیکن ان سے یہ الزام باطل ہو جاتا ہے کہ اسلامی معاشرہ میں عورتوں کے ساتھ ذلت و پستی کا سلوک کیا جاتا ہے۔

حدیث نبویؐ اور عورتوں کے حقوق

قرآن مجید کے بعد شریعت کا دوسرا سب سے بڑا ماخذ حدیث نبویؐ ہے۔ حدیث کی تمام کتابوں اور مجموعوں میں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے باب موجود ہیں۔ ان ساری حدیثوں کو یہاں پیش نہیں کیا جاسکتا، لیکن زن و شو سے متعلق چند حدیثیں بطور استعارہ ہم پیش کرتے ہیں۔ یہ حدیثیں مشہور و معروف ہیں۔ اسلامیات کا ہر طالب علم ان سے واقف ہے۔ مگر جب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسلام میں عورت کے ساتھ حقارت و نفرت کرنا ایک اہم نقطہ ہے تو پھر یاد داشت میں تازگی لانے کے لیے ان حدیثوں پر دوبارہ نظر ڈالنا ضروری ہوجاتی ہے۔

’’کوئی مومن مرد کسی مومن بیوی سے نفرت نہ کرے اگر وہ اس کی کسی عادت کو ناپسند کرے گا تو کسی دوسری عادت سے خوش بھی ہوگا۔‘‘

ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ذمہ داریوں کے تعلق سے مرد عورت دونوں اپنے فرائض کے بارے میں جواب دہ ہیں:

’’سنو تم سب ذمے دار ہو اور اپنی ذمے داری کی چیزوں کے بارے میں جواب دہ ہو، مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں کی اور اس کی اولاد کی ذمہ دار ہے اور اس سے متعلق جوابدہ ہے۔‘‘

شوہر پر بیوی کاحق ہے اور بہترین انسان وہی ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہتر ہو اور دنیا کی سب سے بہتر چیز نیک بیوی ہے۔ اس مضمون پر مختلف حدیثیں ہیں۔ مثلاً:

’’تمہاری بیویوں کا تم پر حق ہے، مکمل مومن وہ ہے جو بہترین اخلاق والا ہو اور تمہارے لیے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہیں۔ تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے اہل کے لیے تم سب سے بہتر ہوں، دنیا ایک پونجی ہے اور اس کی سب سے بہترین پونجی نیک عورت ہے۔‘‘

ان قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں اسلامی معاشرہ میں عورت کی حیثیت کا صحیح تعین ہو جاتا ہے۔ وہ ایک ماں بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے اپنے حقوق و فرائض کی متحمل ہے۔ لہٰذا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام نے معاشرہ میں عورت کو جو مقام دیا ہے وہ مقام دنیا کا کوئی مذہب عورت کو نہیں دے سکتا۔

دین اور دنیا کا راہ نما

مسلمان جب قرآن و حدیث میں غور و فکر کریں گے تو اپنی دینی اور دنیوی ضروریات کا علاج اس میں تلاش ہی کرلیں گے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں