اسلام کے عائلی نظام کے کئی امتیازات ہیں بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے ہماری زندگی کے لیے عائلی اصول وضوابط بھی اسی طرح متعین کیے ہیں جس طرح انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے کیے ۔ دیگر معاشروں اور مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان معاملات خدائی ہدایات کی بنیاد پر نہیں بلکہ روایات اور کلچر کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ دنیا کے مختلف خطوں اور علاقوں میں ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے یہاں یہ معاملات مختلف انداز سے انجام پاتے ہیںجبکہ اسلام کا عائلی نظام پوری دنیا میں یکساں طورپر نافذوجاری ہے اور اگر کہیں جاری نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں کے لیے اسلام کی ہدایات اور تعلیمات تبدیل ہوگئی ہیں بلکہ یہ ہے کہ وہاں کے لوگ اسلام کی تعلیمات سے دور ہیں۔
مثال کے طور پر نکاح کا نظام ہے ۔ پوری دنیا میں جہاں بھی مسلمان ہیں وہاں یکساں طریقے سے نکاح منعقد کرتے ہیں۔ اسی طرح وراثت کے احکامات ہر خطہ میں یکساں طورپر مانے اور نافذ کیے جاتے ہیں۔ یہ تو وہ چند چیزیں ہیں جن کے سلسلہ میں اسلام نے متعین ہدایات بہ طور عائلی قانون دی ہیں لیکن اور بھی چند باتیں ہیں جو اسلام کے عائلی نظام کو پوری دنیا کے کلچر یا عائلی زندگی میں جاری اصولوں کے مقابلے میں امتیاز عطا کرتی ہیں۔
اللہ سے ڈر نے اور تقویٰ اختیار کرنے کا حکم
اسلام جس طرح عام زندگی میں اللہ سے ڈرتے ہوئے معاملات کرنے کا حکم دیتا ہے اسی طرح خاص طور پر عائلی زندگی میں بھی اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ معاملات کرنے میں رشتوں اور قرابتوں کو قابل ترجیح بتاتا ہے۔ رشتوں کی عظمت اور ترجیحات کا تعین کرتا ہے اور اسی ترجیح کے مطابق عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نکاح کے وقت پڑھی جانے والی آیات میں جگہ جگہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس عائلی زندگی میں انسان حقوق کی ادائیگی اور فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کرتا ہے توایک طرف تو یہ انسان کی عائلی زندگی کو متاثر کرے گا دوسری طرف آخرت کی زندگی کو بھی یقینا متأثر کرے گا۔
سورۃ نساء جس میں مسلمانوں کو عائلی معاملات سے متعلق تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں اس آیت سے شروع ہوتی ہے:
ترجمہ: ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کرایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگتے ہو اور رشتہ وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو، یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہاہے ۔‘‘
اس کے بعد یتیموں کا مال ہڑپنے اور عدم انصاف کی صورت میں کئی شادیاں کرنے سے بھی روکا گیا ہے اور پھر وراثت کی حصہ داریاں متعین کی گئی ہیں اور جگہ جگہ اللہ سے ڈرنے اور یوم حساب کو یاد رکھنے کا ذکر ملتا ہے۔
مطلب صاف ہے جو لوگ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والے اور یوم حساب کو ذہن میں رکھنے والے ہوں گے وہ نہ صرف اہل خانہ کے ساتھ حسن معاملہ کے طلب گار ہوں گے بلکہ عام انسانوں تک کے ساتھ کسی طرح کی حق تلفی یا نا انصافی کے روادار نہیں ہوسکتے ۔ اس واضح ہدایت کے بعد ایک دوسرے کو معمولی معمولی غلطیوں اور کوتاہیوں پر معاف کرنے اور عفو و درگذر سے کام لینے کی تاکید کی گئی ہے اور عزیمت اس میں رکھی گئی ہے کہ انسان ایثار کرے ’’اور وہ (اہل ایمان ایسے ہوتے ہیں) خود پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ وہ تنگی ہی میں کیوں نہ ہوں۔‘‘ (الحشر:۹)
ایک انسان جو عائلی زندگی کو جانتا اور سمجھتا ہو وہ خوب اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ ایثار اور عفو و درگذر اس زندگی میں کس قدر اہم ہے۔ یہی وہ بنیادی تعلیم ہے جو اسلام کو اس حیثیت سے ممتاز کرتی ہے کہ یہاں خاندان میں مفادات کی بنیاد پر کشمکش(Clash)کی گنجائش کم سے کم رہ جاتی ہے۔
حقوق و فرائض کا تعین
اسلام کے عائلی نظام کا بڑا اور اہم امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ خاندان میں موجود افراد کے حقوق اور فرائض کا واضح طور پر تعین کرتا ہے اور ان کی بحسن و خوبی ادائیگی کو سیدھے آخرت کی کامیابی سے جوڑتا ہے۔
ایک فرد جب سماج اور معاشرے میں ہوش سنبھالتا ہے تو سب سے قریب اپنے والدین کو پاتا ہے۔ چنانچہ والدین کے سلسلہ میں یہ واضح ہدایت ہے کہ ان کے ساتھ اس قدر اعلیٰ اخلاق اور حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے کہ ان کے ساتھ ’’اف‘‘ تک کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ ماں کے قدموں تلے جنت اور باپ کو جنت کا دروازہ کہہ کر اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ اولاد نہ صرف ان کی جملہ ذمہ داریوں کو بخوشی نبھائے بلکہ بڑھاپے اور جسمانی وذہنی معذوری کی صورت میں ان کی طرف سے آنے والی ہر پریشانی کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیاجائے۔
یہی فرد جب بڑا ہو کر باپ بنتا ہے تو اس کو اس بات کی تاکید کی جاتی ہے بلکہ اس کا فرض بتایا جاتا ہے کہ وہ اولاد کی پرورش و پرداخت میں کوئی کسر نہ اٹھارکھے ، ان کی بہترین تعلیم وتربیت کا انتظام کرے اور میسر سہولیات فراہم کرنے میں بخل نہ کرے ۔ اسی طرح بیوی اور شوہر کے حقوق اور فرائض کو واضح طورپر بیان کیا گیا ہے کہ بیوی کا نان نفقہ اوربہترین زندگی شوہر کا فرض ہے ۔ اچھے کپڑے اور اچھا کھانا اور آرام دہ رہائش شوہر کی ذمہ داری بتائی گئی ہے اور اس کے مقابلے میں شوہر کی اطاعت وخوشنودی اور امور خانہ داری کی اچھی طرح ادائیگی بیوی کا فرض قرار دیاگیاہے۔ اچھی بیوی کی خوبی یہ بتائی گئی ہے کہ اس کا شوہر اس سے خوش رہے۔ جبکہ کلکم راعِ وکلکم مسئول عن رعیتہ کہہ کر شوہر و بیوی دونوں کو اپنے فرائض یاد دلائے گئے ہیں۔ اسی طرح بہنوں کے حقوق کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ اگر طلاق یا بیوگی کی صورت میں بہن یا بیٹی واپس لوٹنے پر مجبور ہوتو اس کی کفالت بھی بھائی یا باپ کے ذمہ ہے اور اس کفالت کا بڑا اجر ہے۔
اسلام کے نظام حیات کی ایک عام خوبی یہ ہے کہ وہ بندوں کے ساتھ معاملات کو بھی عبادت کا حصہ تصور کرتا ہے اورانسان کی فلاح آخرت کو ان حقوق کی بحسن وخوبی ادائیگی سے جوڑتا ہے۔ اور خاص خوبی اور امتیاز یہ ہے کہ وہ حقوق العباد کی بنیاد رشتوں کو قرار دیتا ہے ۔ جو فرد رشتے میں جس قدر قریب ہے وہ اسی قدر حسن سلوک اور فرائض کی ادائیگی کا حق دار ہے۔ چناںچہ رسول پاکؐ کا یہ قول کہ ’’بہترین دینار وہ ہے جو انسان اپنے اہل خانہ پر خرچ کرتا ہے ‘‘ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں ، ماں باپ ، بہن بھائی اور بیوی بچوں پر خرچ کرے اور وہ ان پر جوبھی خرچ کرتا ہے وہ اللہ کے نزدیک بہترین صدقہ کی صورت میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ یہی نہیں وہ صدقہ ، انفاق اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں بھی قریب ترین رشتہ داروں کو زیادہ حق دار ٹھہراتا ہے۔
معروفات ومنہیات کا واضح تصور
اسلام کے عائلی نظام کا ایک بڑا امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ اختیار کرنے اور بچنے والی باتوں کو واضح طورپر بیان کرتاہے۔ مثال کے طورپر اسلام رشتوں کو جوڑ نے کی واضح ہدایات دیتا ہے اور رشتوں کو کسی بھی وجہ سے توڑنے سے منع کرتا ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سلام کو پھیلاؤ ، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ ، رشتوں کو جوڑو اور رات کو اس وقت نماز پڑھو جب عام لوگ سوتے ہیں (اگر ایسا کروگے تو) جنت میں سیدھے داخل ہو جاؤگے۔‘‘
اسی طرح غیبت ، سازش، ایک دوسرے پر عیب لگانے اور الزام تراشی سے روکتا ہے ۔ ہرکوئی جانتا ہے کہ یہ اخلاقی برائیاں عائلی زندگی میں کس قدر تباہ کن ہوتی ہیں اور رشتوں کا ستیاناس کر دیتی ہیں۔ لایسخر قوم من قوم ، ولایغتب بعضکم بعضاً اور عسیٰ ان تحبوا شیئاً وھو شرلکم و عسیٰ تکرھوا شیئاً وھو خیرلکم کہہ کر معروفات ومنہیات دونوں کے سلسلہ میں حقوق وفرائض سے اوپر اٹھ کر ترغیبی انداز میں لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ کھلے دل ودماغ کے ساتھ زندگی گذاریں ۔
یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ رشتے نکاح سے بنتے ہیں اور اسی کے نتیجہ میں نظام وراثت پر عمل ہوتاہے۔ اور طلاق ان رشتوں کو توڑنے کا ذریعہ بنتی ہے چنانچہ نکاح وطلاق اور وراثت کے بھی واضح اور دوٹوک احکامات دیئے گئے ہیں جن میں کسی حیلے و حجت کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔جب کہ عائلی نظام میں وراثت کی تقسیم کو اس قدر وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ ہر وارث کے حصہ تک متعین کر دیئے گئے ہیں ۔ مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم قرآن وحدیث کی تعلیمات کو پڑھتے نہیں اور جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ اگر ہم ایسا کریں تو اسلام کے عائلی نظام کے امتیازات ہم پر واضح ہو جائیں۔اور ہم انہی احکامات وہدایات پر عمل کرنے میں آسانی ، اطمینان اور سکون محسوس کریں اور دیگر اصول وضوابط کو رد کردیں کہ وہ حقیقت میں اس لائق ہی نہیں کہ ان پر غور کیا جائے چہ جائے کہ ہم ان پر عمل کریں ۔ lll