[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

اسکول کی نئی دنیا اور والدین

مدیحہ انور

بچوں کی تعلیم و تربیت والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس لئے والدین کو اپنے بچے میں پیدا ہونے والی جسمانی اور ذہنی تبدیلوں سے آگاہی ہونی چاہیے تاکہ وہ بچہ خود کو تنہا نہ سمجھے اور اپنے مسائل کا حل والدین کے ساتھ مل کر تلاش کرے۔والدین کا دوستانہ رویہ بچے کے شخصی خدوخال میں خوداعتمادی پیدا کرتا ہے۔

جب بچے کا اسکول میں داخلہ ہوتا ہے تو اس کے دن بھر کے معمولات میں کافی تبدیلی آ جاتی ہے۔ جیسے صبح سویرے اٹھ کر اسکول جانا، پڑھائی کے لئے تیار ہونا وغیرہ۔ ایک دم سے پرانی روش سے نئی جانب جانا بعض اوقات بچوں کے لئے پریشانی اور الجھن کا باعث ہوتا ہے جس کے لئے والدین کو انہیں ذہنی طور پر تیار کرنا ضروری ہے۔

شروع میں بچے اسکول جانے سے کتراتے ہیں اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ماں سے دور ہو جانے کا خوف ان کے ننھے ذہن کو الجھا دیتا ہے۔ایسے وقت میں اسے والدین کی مدد اور سپورٹ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔اس کو ڈانٹ ڈپٹ کر اسکول بھیجنے کی بجائے پیار سے سمجھانا چاہیے۔

سکول میں استاد بھی اس سلسلے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں کیونکہ بچوں کی ابتدائی ذہنی کیفیات کو سمجھنے اور ان کو سنبھالنے کے لئے مونٹیسوری استاد کی خاص تربیت کی جاتی ہے لیکن والدین کا فرض ہے کہ بچے کو اسکول بھیجنے سے پہلے اس کی گھریلو تربیت کریں۔

اسے اسکول سے متعلق مثبت باتیں بتائیں جو اس کے پہلے دن کے خوف کو دْور کرنے میں مددکر سکیں۔اسے بتائیں کہ اسکول میں اس کا وقت اچھا گزرے گا۔ نئے نئے دوستوں سے ملاقات ہو گی۔ پلے لینڈ کی طرح جھولے ہوں گے۔ نئی اور رنگین کتابیں ہوں گی۔ اس کے پسندیدہ کارٹون کردار کی تصویر والا اسکول بیگ بھی اس کو دلوایا جائے گا۔ اسکول سے واپسی پر اس کی اچھے برتائوکا انعام اس کی پسندیدہ جگہ پر لے جانا ہو گا۔اس نفسیاتی کونسلنگ کی بدولت بچہ اسکول سے مانوس ہو گا اور کلاس کے ماحول میں خود کو پر اعتماد محسوس کرے گا۔

اسکول میں بچہ پہلی مرتبہ چند گھنٹوں کے لئے ماں سے الگ ہوتا ہے۔اس لئے ماں کی غیر موجودگی کے باعث اکثر بچے بریک میںاپنا لنچ صحیح طور پر نہیں کرتے ہیں۔ ٹیچر کا اصرار بھی رائیگاں جاتاہے۔ والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ اسکول میں وقفہ کے دوران صحت بخش اور توانائی سے بھرپور خوراک لے تاکہ ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ رہ سکے۔

اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ بچے کو لنچ میں ایسی خوراک دی جائے جو وہ رغبت سے کھاتا ہو۔ بصورت دیگر وہ اپنا لنچ ، لنچ بکس میں ہی رہنے دے گا یا تھوڑا کھانے کے بعداستاد کی نظر سے بچا کر ضائع کر دے گا۔

کچھ بچے اپنے دوستوں یا ساتھیوں سے اپنے لنچ بکس کا تبادلہ کر لیتے ہیں کیونکہ انھیں ناپسندیدہ اشیاء کھانے کے لئے دی گئی ہوتی ہیں۔

لہٰذا بچے کا لنچ اپنی نہیں بلکہ اس کی پسند کے مطابق تیا ر کرنا چاہیے۔کوشش کریں کہ لنچ میں دی جانے والی اشیاء کیلوریز سے بھرپور ہونے کی بجائے صحت بخش اور غذائیت سے بھرپور ہوں جیسے تازہ پھل ،سلاد ، گوشت یا آملیٹ وغیرہ سے تیار کئے گئے سینڈوچ یا برگر وغیرہ۔اس کے علاوہ بچوں کو کولڈ ڈرنک کی بجائے تازہ جوس اور دودھ پینے کی عادت ڈالیں تاکہ ان کے دانت اور ہڈیاں مضبوط ہوں۔

ایک اہم مسئلہ جو بچے کو درپیش ہوتا ہے وہ حوائج ضروریہ کا اخراج ہے۔ بچہ جب بولنا سیکھتا ہے تو ماں کو اس کی بیت الخلاء کے استعمال کی تربیت کی ابتداء کر دینی چائیے۔ اکثر اوقات بچے اسکول جانے سے اس لئے بھی گھبراتے ہیں۔ اس سلسلے میں ماں کا یہ فرض ہے کہ بچے کو سمجھائے کہ اسکول میں موجود آیا جی اس کی مدد ماں کی طرح ہی کریں گی۔ ان سے مدد لینا کوئی شرم اور ڈر کی بات نہیں۔

دیکھا گیا ہے کہ کچھ بچے اپنے سے جسمانی طور پر کمزور بچوں پر دھونس جمانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے نسبتاً کمزور بچے نہ صرف احساس کمتری کا شکار ہونے لگتے ہیںبلکہ ہر وقت ڈرے اور سہمے رہنے کی وجہ سے اسکول میں ان کی پڑھائی اور کارکردگی پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اگر آپ کا بچہ شرمیلا ہے اور اسکول جانے سے گریزاں ہے یا اسکول سے واپسی پر اداس اور پریشان دکھائی دیتا ہے تو اس بات کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ اس سلسلے میں والدین کو اس کے اسکول جا کر اس کے ساتھیوں سے اس کے بارے میں معلومات لینی چاہئیں اور کسی غیر معمولی بات پر انتظامیہ یا پرنسپل کے نوٹس میںیہ بات لانی ضروری ہے۔

اس کے علاوہ بچے کو اس طرح کی کسی بھی صورت حال سے نبٹنے کے لئے تیار کرنا بھی والدین کا فرض ہے تاکہ وقت پڑنے پر وہ خوفزدہ یا پریشان ہونے کی بجائے مکمل اعتماد کے ساتھ ایسی صورتحال کا سامنا کر سکے۔ اپنے بچے کو دھونس جمانے والے کسی بھی بچے سے دور رہنے کی ہدایت کریں اور اس قسم کی صورتحال کا سامنا ہونے پر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے اور سختی سے جواب دینے کی تربیت دیں۔

اس طرح اگر صورتحال اس کے برعکس ہو ، یعنی آپ کا بچہ جسمانی طور پر مضبوط ہے اور اسکول کے سادہ ،شرمیلے اور جسمانی طور پر کمزور بچوں پر دھونس جماتا ہے تو اسے ڈانٹ کر یا مارپیٹ کے ذریعے روکنے کی بجائے آرام سے سمجھانے کی کوشش کریں۔اس مسئلے کے نفسیاتی پہلوکو سمجھیں اور ہو سکے تو کلاس ٹیچر کی مدد بھی لیں۔

اسکول سے گھر واپس آنے کے بعد اس کو ایک ٹائم ٹیبل کا عادی بنائیں۔اس طرح وہ ایک نظم و ضبط کے مطابق زندگی گزارے گا مثلاًمکمل آرام کے بعد اسے کچھ کھیلنے کا موقع اور کھیلنے کے کچھ دیر بعد ہوم ورک۔اکثر والدین بچے کا ہوم ورک زبردستی کرواتے ہیں ایسا کرنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔ اگر بچہ کام کرنے کے موڈ میں نہیں تو اس سے زبردستی نہیں کرنی چاہیے۔اسے تھوڑی دیر کے لئے کسی دلچسپ کام میں لگا دیں یا اس کی کسی پسند کی چیزکھلانے کا لالچ دے کر ہوم ورک کروایا جا سکتا ہے۔

بچے کی تعلیم و تربیت ایک مشکل کام ہے۔ مگر آپ کی کوشش بچے کے ذہن میںاسکول کی اہمیت اجاگر کرنے میں کامیاب ہو گئی تو آپ کا بچہ اپنی منزل پر پہنچ کر ہمیشہ آپ کا شکرگزار رہے گا اور آپ بھی اس پر فخر کر سکیں گے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں