اصول پرست

صداقت حسین ساجد

میں نے ہاتھ کا اشارہ کیا تو ٹیکسی رک گئی۔

’’مجھے رفیقی چوک تک جانا ہے۔‘‘ میں نے ڈرائیور سے کہا۔

’’آپ کو جہاں بھی جانا ہے… اندر تشریف لائیں۔‘‘ ڈرائیور نے کہا۔ اس کا لہجہ اتنا شائستہ تھا، جو ہمارے ہاں زیادہ تر موجود نہیں ہے۔

میں ٹیکسی میں بیٹھ کر سوچنے لگا کہ ہمارے ہاں اچھے اور ایمان دار لوگ ختم نہیں ہوئے ہیں لیکن تھوڑی تعداد میں۔ کوئی پندرہ منٹ بعد میرا اسٹاپ آگیا۔

میٹر پر ۲۷ روپے نظر آرہے تھے۔ میں نے پچاس روپے کا نوٹ ٹیکسی ڈرائیور کی طرف کیا، تو وہ سر ہلا کر بولا۔

’’میرے پاس کھلے نہیں ہیں۔‘‘

میں نے اپنی جیبیں ایک بار پھر کھنگالیں اور دس دس روپے کے تین نوٹ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگیا۔

’’میرے پاس تین روپے بھی نہیں۔‘‘ ڈرائیور نے معذرت کی۔

’’کوئی بات نہیں۔‘‘ میں کھلے دل سے مسکرایا۔‘‘ یہ تین روپے تم رکھ لو۔‘‘

’’میں ویٹر نہیں ہوں کہ تم سے ٹپ لوں۔‘‘

’’یہ جان کر مجھے خوشی ہوئی کہ ہمارے ملک میں اس طرح کے لوگ بھی ہیں… مگر اب ہم کیا کریں۔‘‘

اسٹور بائیں طرف گلی میں تھا، مگر وہ یک طرفہ راستہ تھا۔ ہم بائیں جانب نہیں مڑ سکتے تھے… لہٰذا ہم سیدھے گئے اور ایک لمبا چکر کاٹ کر مڑے۔ یوٹیلٹی اسٹور کے پاس پہنچے تو دوپہر کا ایک بج چکا تھا اور اسٹور دوپہر کے کھانے کے وقفے کے لیے بند ہوچکا تھا۔ میں نے ٹیکسی کا میٹر دیکھا تو اس پر ۴۲ روپے نظر آرہے تھے۔ میں نے معاملہ ختم کرنے کے لیے کہا۔

’’تقریباً ۵۰ روپے ہوگئے۔‘‘

’’ڈرائیور کو شاید میرے ارادے کا علم ہوگیا، بولا۔

’’دیکھئے…! میرے پاس کھلے آٹھ روپے نہیں ہیں اور یہ یاد رکھیے… ! میں ٹپ نہیں لیا کرتا۔‘‘

’’یہ تو تقلید کے لائق مثال ہے۔‘‘ میں نے اس کی تعریف کی اور دل ہی دل میں پیچ و تاب کھانے لگا۔‘‘ اس طرح کرو کہ مجھے آٹھ روپے کی سیر اور کرادو اور اس ٹیکسی سے مجھے رہائی دلاؤ۔‘‘

’’ہاں … یہ ٹھیک ہے۔‘‘ ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔

میں میٹر دیکھنے لگا جوں ہی پچاس روپے پورے ہوئے … میں نے چلا کر ڈرائیور سے کہا۔ ’’یہیں روک دو… روک دو!‘‘

’’سوری جناب!‘‘ ڈرائیور اسی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے بولا۔ ’’یہاں ٹھہرنا قانوناً ممنوع ہے۔ آپ آگے نصب ہوا ٹریفک بورڈ نہیں دیکھ رہے؟‘‘

’’تو پھر میٹر بند کردو!‘‘

’’یہ بات اصول کے خلاف ہے۔‘‘ ڈرائیور بولا۔ اس کا لہجہ بہت شائستہ تھا۔ ’’جب گاڑی میں سواری موجود ہو تو لازمی میٹر کو چلتے رہنا چاہیے۔‘‘

جب ہم ایسی جگہ پہنچے جہاں ہم قانون کے خلاف ورزی کیے بغیر رک سکتے تھے تو میٹر ۶۷ روپے دکھا رہا تھا۔

میرے منہ سے آہ نکل گئی۔

’’زیادہ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ ڈرائیور نے مجھے دلاسا دیا۔

’’چلئے… ہم اس کا کوئی اور حل سوچتے ہیں۔ کچھ فاصلے پر ایک بنک ہے… وہاں میرا ایک دوست کیشیئر ہے… ہمیں پیسے فوراً کھلے کرا دے گا۔‘‘

وہاں گئے تو یہ دیکھ کر میں مایوس ہوگیا کہ بنک بند تھا۔ باہر کھڑے چوکیدار نے بتایا کہ آج بنک کی آدھی چھٹی تھی۔ میں گھبرانے لگا… مگر ٹیکسی ڈرائیور بڑا حوصلہ مند انسان تھا… اس نے ٹیکسی پھر چلائی تو میں نے پوچھا: ’’اب کدھر جا رہے ہو؟‘‘

’’نیشنل سیونگ اسکیم والے آج کے روز آدھی چھٹی نہیں کرتے… وہاں چلتے ہیں۔‘‘

اس کی بات ٹھیک نکلی۔ وہ واقعی آدھی چھٹی نہیں کرتے۔۔۔ مگر آفس بند تھا کیوں کہ وہ پوری چھٹی کرتے ہیں۔

خوش قسمتی سے اب میٹر پورے ۸۰ روپے دکھا رہا تھا… نہ ایک کم نہ ایک زیادہ۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور کو ٹیکسی روکے رکھنے کو کہا… کیوں کہ ٹیکسی کی ذرا سی حرکت سارا میزان خراب کرسکتی تھی، اور جیب سے ۸۰ روپے نکال کر اسے دیے۔ ڈرائیور نے شکریہ ادا کر کے رقم پکڑلی اور جیب میں رکھتے ہوئے بولا۔

’’خدا کی قسم… ! مجھے دلی طور پر افسوس ہے کہ واقعات اس طرح پیش آئے اور آپ کو بہت زیادہ زحمت برداشت کرنا پڑی… مگر میں اپنے ضمیر کا کیا کروں جو جائز کرائے کے علاوہ ایک پیسا بھی لینا ناجائز سمجھتا ہے۔‘‘

میں نے اس کی ایمان داری اور اس کے نتیجے میں خود کو پہنچنے والے نقصان پر لعنت بھیجی اور سر ہلا کر چپ ہوگیا۔

اچانک مجھے ایک خیال آیا۔ میں نے ڈرائیور سے کہا۔

’’مگر مجھے تو رفیقی چوک جانا تھا۔‘‘

’’تو کیا ہوا!‘‘ ڈرائیور پہلے کی طرح شائستگی سے بولا۔ ’’میں ابھی آپ کو وہاں پہنچا دیتا ہوں۔‘‘

پندرہ منٹ بعد ہم پھر رفیقی چوک پہنچ گئے۔ میٹر دیکھا تو وہ پھر ۲۷ روپے دکھا رہا تھا۔ میں اپنا سر تھام کر رہ گیا!!!lll

(انگریزی ادب سے ماخوذ)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں