اعتدال اور میانہ روی

مفتی کریم اختر

اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو امت وسط بنایا ہے۔ وسط کا لفظ افراط و تفریط سے پاک بالکل درمیان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، یعنی میانہ روی اور اعتدال۔ اس کے اعتقادات میں اعتدال، اعمال و عبادات میں اعتدال، معاشرت و تمدن میں اعتدال، اقتصادیات و سیاسیات میں اعتدال، معاملات و تعلیمات میں اعتدال۔ الغرض اس کے تمام امور نقطہ اعتدال پر قائم ہیں۔

عبادات و اعمال میں اعتدال

عبادت اللہ کی مطلوب اور اس کی محبوب چیز ہے لیکن ہمارے دین میں عبادات اور نیک اعمال میں بھی اعتدال کا وصف نمایاں ہے اور یہی وصف اس امت کا طرۂ امتیاز ہے۔ نبی کریمؐ نے غلو یعنی جتنے کام کا شرعی حکم ہے اس سے زیادہ کو رد فرمایا ہے۔ چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر بھی نکیر فرمائی جن میں سے ایک نے کہا تھا کہ میں رات بھر قیام کروں گا، دوسرے نے کہا تھا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، کبھی افطار نہیں کروں گا اور تیسرے نے کہا تھا کہ میں شادی ہی نہیںکروں گا۔چوں کہ یہ کام سنت و شریعت کے مزاج کے مطابق نہ تھے اور غلو فی الدین کے زمرے میں آتے تھے اس لیے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نکیر اور تردید فرمائی۔ عبادات و اعمال میں اعتدال اپنانے کے سلسلے میں ہمیں کتب احادیث میں ’’باب القصد فی العمل‘‘ عمل میں میانہ روی کا مستقل باب اور عنوان ملتا ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دینی امور کے ساتھ دنیوی امور میں بھی میانہ روی اور اعتدال مطلوب ہی نہیں بلکہ ازحد ضروری ہے۔

معاملات و تعلقات میں اعتدال

معاملات میں اعتدال پر یہ آیت واضح دلالت کرتی ہے: ’’کسی قوم کی عداوت و دشمنی تمہیں راہ اعتدال سے نہ ہٹا دے، عدل و انصاف کا دامن تھامے رہو، یہی تقویٰ سے قریب ہے۔‘‘ کیوں کہ عموماً دشمنی یا نفرت کی صورت میں انسان سے دامن اعتدال چھوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح تعلقات یعنی آپس میں میل جول، دوستی و دشمنی، بغض و محبت اور تعلق میں اعتدال کی سب سے جامع ہدایت ہمیں ترمذی شریف کی اس حدیث مبارکہ میں ملتی ہے۔ ’’اپنے دشمن سے بغض و دشمنی بھی دائرے میں رہ کر کرو، ممکن ہے کسی دن وہ تمہارا دوست ہوجائے۔‘‘ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ آدمی دوستی و دشمنی میں اعتدال پر قائم نہیں رہ پاتا۔ جب کسی سے دوستی کرنے پر آتا ہے تو ایسی ٹوٹ کر کرتا ہے کہ وہ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتی، اور دوست کی تمام عیوب و نقائص ہیچ نظر آتے ہیں۔ اور جب ٹوٹتی ہے تو تسبیح کے دانوں کی طرح دونوں بکھر جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے حد درجہ نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح جب عداوت کرنے پر آتے ہیں تو حیوانیت کا لبادہ اوڑھ کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں۔

بول چال میں اعتدال

بول چال میں اعتدال کی روشنی اس حدیث سے ملتی ہے کہ ’’سارے مصیبت بولنے میں ہے۔‘‘ آج کل لوگوں میں اپنی قابلیت و شیخی بگھارنے اور اپنی علمیت کے اظہار کا مرض عام ہوگیا ہے۔ نہ بڑوں کا پاس و لحاظ، نہ آداب گفتگو کا خیال، حالاں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت کے مطابق اچھی بات کہنے اور بلا ضرورت گفتگو سے اجتناب کرنے کی ہدایت دی اور خاموش رہنے والے کی حق میں یہ دعا فرمائی ہے:

’’اللہ رحم کرے اس شخص پر جو اگر بھلی بات کہے تو فائدہ میں رہے اور اگر خاموشی اختیار کرے تو سلامت رہے۔‘‘

اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ سے بھی بول چال میں اعتدال اپنانے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

’’جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔‘‘

اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گفتگو کو اچھی اور ضروری باتوں تک محدود رکھا جائے اور بلا ضرورت گفتگو سے اجتناب کیا جائے۔

انفاق میں اعتدال

انفاق میں اسراف اور بخل سے بچ کر اعتدال پر رہنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ’’خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرنا آدھی معیشت ہے۔‘‘ جب کہ قرآن مجید میں حکم ہوا ہے: ’’نہ اپنا ہاتھ (کنجوسی میں) اپنی گردن سے باندھ کر رکھو اور نہ پورے کشادہ دست ہو جاؤ کہ پہلی صورت میں ملازمت زدہ اور دوسری صورت میں عسرت زدہ ہوکر بیٹھ جاؤ۔‘‘

سورہ فرقان میں اللہ کے نیک بندوں کے من جملہ اوصاف میں ان کی صفت یہ بھی ذکر کی گئی ہے کہ ’’اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل، بلکہ دونوں کے بیچ کی راہ اپناتے ہیں۔‘‘

آپصلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اعتدال کا محور و مرکز ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے:

’’جب دو کاموں میں اختیار دیا گیا ہو تو آپؐ نے ان میں آسان کو اپنایا۔‘‘

اعتدال اور میانہ روی میں ہی فائدہ ہے اور نقصان کا کوئی پہلو نہیں۔ اگر آج ہم اعتدال کو اپنی زندگی کا اصول بنالیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے معاشرے کی بہت سی خرابیاں تھوڑی ہی مدت میں نیست و نابودہوجائیں۔ آئیے سچے دل سے عہد کریں کہ ہم زندگی کے ہر موڑ پر اعتدال اور میانہ روی سے کام لیں گے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146