اللہ کا رنگ اختیار کرو

شیریں رحمانی (جبل پور)

ایک ہی دین وہ تھا جو ابراہیم ؑ اور سارے پیغمبر لے کر آئے اس دین کا نام تھا اسلام، اور اسلام کا معنیٰ تھا اپنادل اپنا دماغ اپنی سوچ اپنے عمل اپنی خواہشات سب کچھ اللہ کی مرضی کے تابع کر دو، اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردواور جزوی طور پر نہیں کُلّی طور پر اد خُلو فی السِلمِ کافۃً اور وَمَن یّبتغَ غیرَ الاسلام دیناً فَمن یقبل منہ وَھُو َ الآخِرت، مِنَا لخاسِرین۔ ترجمہ: ’’جواسلام کے علاوہ کوئی اور دین چاہے گا وہ اس سے قبول نہ کیا جائیگا اور وہ آخرت میں سخت نقصان اٹھائے گا۔‘‘

ایک وہ دین جو پورے کا پورا اپنے اندر داخل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ جس کے لئے آپ کو اپنے لئے کچھ بھی بچا کر نہیں رکھنا ہے، آپ کو اپنا سب کچھ دینا پڑیگا ، خواہ وہ نفس ہو جذبات ہو، مال ہو، یا وقت ہو،جب بھی رب جو کچھ بھی مانگے گا وہ دینا ہوگا ، اس کے فیصلوں کو قبول کرنا ہوگااس کی رضا پر راضی رہنا ہوگا، خوشی اور غم میں ، کچھ ملنے اور کچھ جانے میںاسی کی رضا کے مطابق اپنی رضا کو بنانا ہوگا ۔ رَضِیتُ بِاللّٰہِ ربّاً وَ باِ الاسلامِ دیناً و َ بِمُحَمّدٍ نَبِیّا۔ یہ ہے اسلام! یعنی اپنے آپ کو مکمل طور پر دین کی مرضی اور اللہ کے احکام کے تابع کر دینا۔

ایک اور رویہ ہے کہ ہم اسلام کا ایک لبادہ اوڑہ لیں،خول چڑھا لیں اوراس کے اندر اپنی مرضی کے کام کریں۔ جو دل میں آئے، جو پسند آئے، جو اچھا لگے، بس وہ کر لیں۔ اللہ کی بڑائی کے بجائے بندوں کی بڑائی میں جئیں۔ اللہ کی خاطر تو کچھ بھی قربان نہ کریں۔ لیکن اپنے اپنے رکھے ہوئے ناموں پر سب کچھ قربان کرلیں۔ یہ کچھ بھی ہو مگر دین کا وہ تصور نہیں ہوسکتا جسے اللہ نے اپنا رنگ قرار دیا ہے اور جن کا مطالبہ یہ ہے کہ ’’تمھیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم اللہ کے فرماں بردار ہو۔‘‘

صبغۃ ا للہ، (اللہ کا رنگ) مُسلِمون ، مُخلصون عٰبِدون! اندر سے بھی اور باہر سے بھی۔ صبغۃ اللہ تو صرف باہر ی رنگ نہیں ہوتا؛ صبغۃ اللہ تو اندر تک اثر کر جاتا ہے۔ صبغۃ للہ تو انسان کے اندر ہل چل مچا دیتا ہے۔ صبغۃ اللہ تو انسان کو اللہ کی یاد میں جینے والا بنا دیتا ہے۔ صبغت اللہ تو انسان کو آخرت کی فکر میں، آخرت کے جوابدہی کے احساس میں، اور آخرت میں اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کے خوف میں مبتلا کردیتا ہے ۔ روایتی دین ، رسمی دین گروہ بندیوں وا لا دین، ظاہری دین ہوا کرتا ہے ۔ اوپر اوپر ہوا کرتا ہے اصل دین، حقیقی دین انسان کی شخصیت کا حصہ بنتا ہے ۔ روایتی دین خول چڑھا نے والا دین ہے۔

اصل دین انسان کی روح اور اس کے دل و دماغ میں رچ بس جانے وا لا اور اس کی روٖح میں کند جانے والا دین ہوا کرتا ہے ، جو اس سے کہیں بھی جدا نہیں ہوتا ۔ جہا ں سب لو گ جدا ہو جائیں ، تب بھی ایسے لوگ فکر اور پریشانی کا شکار نہیں ہوتے۔ اسلام کسی خاص دکھاوے یا لبادے کا نام نہیں ہے ، کسی خاص طرح کا ڈریس پہن کر کسی مجلس میں بیٹھ جانے کا نام نہیں ہے ، اسلا م تو زندگی کے ہر موڑ پر ہر موقع پر ، ہر معاملے میں اللہ کے حکم کو اور اس کے طریقہ کو اختیا ر کرنے کا نام ہے ۔ جب تک دین الگ اور آپ الگ ہیں تو صرف باتیں ہیں ۔ اورجب آپ اور دین ایک چیز ہو گئے ، دین آپ کی ذات کا ایک حصّہ بن جائے تو اسے ’’اللہ کا رنگ‘‘ کہا جائے گا۔

اور یا د رکھئے کہ جو یہ دعویٰ کرے گا تو اس کا امتحان بھی ہوگا ، کبھی نفس پر چوٹ لگے گی،کبھی مرضی کے خلاف کوئی بات سننے کو ملیگی ، کبھی کوئی ہمارے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوگا ، کبھی کو ئی کسی طرح ستانے کا طریقہ ڈھونڈے گا، ان سب مواقع پر اپنے دل کو نفرتوں سے پاک رکھنا ہے ، ہر موڑ پر انسانوں کی ہمدردی اپنے دل میں رکھنا ہے کیوں کہ معمولی سی آنچ آنے پر معمولی سی دھوپ لگنے پر کس کا رنگ اترتا ہے جس کا رنگ مصنوعی ہوتا ہے ، پکّا رنگ نہیں اترا کرتا، وہ رنگ جو اندر تک چلا جائے وہ نہیں اترا کرتا ۔

ہم میں سے اکثریت ماحول کی شکایت کرتی ہے ماحول موافق نہیں ، گھر موافق نہیں ، سسرال موافق نہیں ، رشتہ دار موافق نہیں، حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ السلام کے لئے کس کی موافقت تھی ؟ماں باپ کی تھی، بہن بھائیوں کی تھی یا معاشرے کی تھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس کون تھا،کون سا ماحول تھا ان کے پاس ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس کون تھا ۔ اگر ہمیں بھی ہماری مرضی کے موافق ماحول نہ بھی ملے تو کرنا وہی ہے جو ہمارا رب ہم سے چاہتا ہے ۔

اللہ کی نظر میں بیوقوف کون ہے وہ نہیں جو اللہ کی خاطر دنیا کو چھوڑ دے، بے وقوف وہ ہے جو دنیا کی خاطر اپنے رب کو چھوڑ دے ، اپنے رب کے طریقے کو چھوڑ دے، با مقصد انسان کی زندگی میں جتنی بھی attractions آئیں، جتنے بھی دل لبھانے والی چیزیں آئیں اس کی نظر اللہ کی رضا پر رہتی ہے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں