عام طور پر طلبہ سالانہ اور ششماہی امتحان کے بالکل قریب آتے ہی پڑھائی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور باقی وقت فضول کاموں میں برباد کردیتے ہیں۔ اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امتحان میں تو کامیاب ہوجاتے ہیں مگر قابلِ قدر اور اچھا اسکور حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
مڈٹرم اور سیشنل امتحان طلبہ کو اس بات کا موقع دیتے ہیں کہ وہ سال بھر اپنی تعلیم پر متوجہ رہیں۔ ان امتحانات کاایک بڑافائدہ یہ ہے کہ طلبہ کے اسباق یونٹ وائز تیار ہوتے رہتے ہیں اور عین امتحان کے قریب پہنچ کر وہ کسی پریشانی یا دباؤ کا شکار نہیں ہوتے۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ طلبہ کو مختصر سے وقفہ کے بعد اپنی تیاری اور اپنی امتحان کی صلاحیت کا اندازہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ اور امتحان کے سوالوں کے جوابات دینے اور لکھنے کی مشق بھی رہتی ہے، جو اسکور حاصل کرنے میں بڑی مددگار ہوتی ہے۔
ہائی اسکول اور انٹر کے امتحانات اس حیثیت سے بڑے اہم ہوتے ہیں ان پر ہی مستقبل کے کیریر کی بنیاد ہوتی ہے۔ اگر ہائی اسکول میں اچھی میرٹ حاصل کرنے میں کوئی طالب علم ناکام رہتا ہے تو وہ آگے اپنی پسند کے مضامین بھی حاصل نہیں کرسکے گا۔ اور اسی طرح انٹر کا رزلٹ کالج میں داخلے کے لیے کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہا ںاچھی میرٹ ہی شرط نہیں بلکہ اچھی میرٹ میں بھی سخت مقابلہ ہے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے انٹر میں ۸۸فیصد اسکور کے باوجود ایک طالبہ کو سائنس اسٹریم میں داخلہ نہیں مل پایا کیونکہ اس سے آگے طلبہ کی بڑی تعداد اس کی امیدوار تھی۔ اسی طرح دہلی یونیورسٹی اور ملک کے دیگر معروف اعلیٰ تعلیمی اداروں کی’’کٹ آف‘‘ فیصد دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی پسند کے مضامین میں معیاری سرکاری یونیورسٹیز میں داخلہ لینا ماؤنٹ ایوریسٹ کو سرکرنا ہے۔
مقابلہ کی اس شدید دوڑ نے ہر طالب علم کو اس بات کا ذمہ دیا ہے کہ وہ اپنی تعلیم کے سلسلے میں نہ صرف سال بھر سنجیدہ او ربیدار رہے بلکہ سخت مقابلے میں اپنی فتح کو یقینی بنانے کا کوئی بھی ممکن راستہ نہ چھوڑے۔ ذیل میں کچھ باتیں پیش کی جارہی ہیں جن کواپنا کر ہمارے طلبہ و طالبات اپنا گریڈ اور اسکور بہتر بناکر مستقبل کو روشن راہوں پر ڈال سکتے ہیں۔
٭ کلاس میں اچھا طالب علم
ایک اچھے طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی کلاس میں سبھی پیریڈ میں بہت ہوشیاری اور چستی کے ساتھ رہے۔ استاد جو کچھ پڑھائے یا بتائے اسے یکسوئی کے ساتھ سنے اور سمجھے اور جو بات سمجھ میں نہ آئے اسی وقت استاد سے سوال کرکے سمجھ لے۔ اس طرح اس کا بہت بڑا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔
٭ گھر میں اچھا طالب علم
ایک اچھے اور سنجیدہ طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ جہاں کلاس میں دیے گئے ہوم ورک کو اچھی طرح انجام دے وہیں گزشتہ روز کے پڑھائے گئے اسباق کو پابندی سے چند منٹ دے کر دہرالے۔ اسی طرح کلاس میں پڑھی ہوئی چیزیں ذہن میں بالکل پختہ ہوجاتی ہیں۔
اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اگلے روز کلاس میں جو کچھ پڑھایاجانا ہے اس پر آج ہی نظر ڈال لے۔ اس دوران کچھ چیزیں ایسی ہوںگی جو اگرچہ کل کے سبق میں پڑھائی جاتی ہیں، لیکن وہ اسے پہلے ہی حل کرچکا ہے۔ اب کلاس میں اسے صرف چندباتیں ایسی سمجھنی ہیں جو وہ نہیں سمجھ سکا ہے۔
اس عمل کے تین درجے ہوئے پہلا درجہ کل پڑھائے جانے والے سبق کو پہلے گھر پر ہی پڑھ لینا۔
٭ دوسرا درجہ: کلاس میں غور سے سننا اور اچھی طرح سمجھنا۔
٭ تیسرا درجہ: کلاس میں پڑھائے گئے سبق کو گھر آکر ایک بار دہرالینا۔
اگر کوئی طالب علم ان تینوں باتوں کو اپنا روز کا معمول بنالیتا ہے تو اس کا ہر سبق ہر وقت تیار اور ذہن نشین رہے گا۔
امتحان کی تیاری
اب امتحان کے قریب ایک طالب علم کا کام صرف اتنا رہ جاتا ہے کہ وہ ایک مرتبہ تمام اسباق پر نظر ڈال کر پھر تازہ کرلے اور اگر کوئی با ت ذہن سے نکل گئی ہے تو اپنے استاد یا کسی جاننے والے ساتھی سے معلوم کرکے پھر اسے تازہ کرلے۔ یہ بات سیشنل امتحان کے بارے میں بھی قابل عمل ہے اور ششماہی اور سالانہ امتحانات کے لیے بھی۔
گریڈ اچھا کرنے کا نسخہ
اگر کسی مضمون کے کل نمبرات ۱۰۰ ہیں تو عام طور پر ۲۰-۲۵ نمبرات انٹرنل ایگزام کے لیے ہوتے ہیں جن میں اسائنمنٹ، کلاس پر فارمینس، ایکٹویٹی، ڈسپلن اوراٹینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ اگر کوئی طالب علم سال بھر ان چیزوں پرتوجہ نہیں دیتا تو وہ ان ۲۵فیصد نمبرات سے باہر ہوجاتا ہے۔ اب اگر وہ پوری محنت بھی کرلے تو صرف ۷۵%میں سے ہی اسکور حاصل کرسکے گا۔ اس لیے ان ۲۵% نمبرات پر بھی توجہ دی جائے جو انٹرنل اسسمنٹ سے حاصل ہوتے ہیں۔ اور اس سلسلہ میں اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔
ایک اہم بات
امتحان کی تیاری کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ طالب علم کو اس بات کا اندازہ ہوکہ ایگزام پیپر کاپیٹرن کیا ہوگا۔ اور یہ کہ امتحان کے لیے دئیے گئے وقت کے اندر اندر اسے کس طرح اپنا پرچہ مکمل کرلینا ہے۔ کیونکہ دیکھنے میں آتا ہے کہ طالب علم نے ابھی صرف ۶۰-۷۰% سوالات ہی حل کیے تھے کہ وقت ختم ہونے کی گھنٹی بج گئی۔
ان دونوں باتوں کے لیے ضروری ہے کہ آپ گزشتہ سالوں کے تمام ہی مضامین سیمپل پیپرس حاصل کرکے حل کرنے کی مشق کریں۔ اور مشق بھی ایسی کریں کہ گویا آپ امتحان حال میں موجود ہیں۔ اور بالکل صحیح وقت کے اندر اندر پرچہ حل کرلیں۔ اس سے آپ کو تین فائدے ہوں گے۔
(۱) امتحان کے پیٹرن سے آپ واقف رہیں گے۔
(۲) دیے گئے مقررہ وقت کے اندر پرچہ حل کرنے اور لکھنے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔
(۳) پورے کورس کا روِیزن (دہرانا) ہوجائے گا۔
اس سلسلہ میں یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ سالانہ امتحان سے قبل آپ ایک دو نہیں بلکہ کم از کم تین چار سیمپل پیپرس ضرور حل کریں۔ جبکہ دیگر معیاری اسکولوں میں تو سات آٹھ پیپرس تک حل کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اگر ایک طالب علم مضمون میں دی گئی چیزوں پر توجہ دے گا تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اچھے نمبرات سے کامیاب نہ ہو۔ لیکن یاد رہے کہ ہم اللہ کی مدد اور اس کی توفیق کے بنا کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ کیا آپ کو کبھی ایسا تجربہ نہیں ہوا کہ جو سوال آپ نے بہت اچھی طرح تیار کیا تھا وہ جب امتحان میں آیا تو اس کا جواب آپ کے ذہن سے ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اسی لیے ہر وقت اللہ سے دعا بھی کرتے رہنا چاہیے۔ رب اشرح لی صدری ویسرلی امری (اے اللہ! میرے سینے کو میرے لیے کھول دے اور میرے (امتحان کے) معاملے کو میرے لیے آسان کردے)۔