امید کی دنیا

ظفر الحسن الماس

’’کامی! کیا سوچ رہے ہو؟‘‘

’’میں نے سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ ایسے بھی سوچنے کے لیے رہ بھی کیا گیا ہے۔‘‘

’’کافی! یہ تمہیں کیا ہو گیا۔ تم نے زندگی سے فرار کی راہ تلاش کرلی ہے۔ یہ چند روز کی بے روز گاری نے تمہارا کیا حال کر دیا ہے۔ زندگی کے سنگ چلو، زندگی کے رنگ سے کھیلو، زندگی میںکتنے ہی رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔‘‘

’’نوشی! زندگی کہاں ہے۔ اس سانسوں کی آمد و رفت کو اگر تم زندگی کا نام دیتی ہو تو ہاں میں زندگی سے فرار چاہتا ہوں۔ میرا ہر سانس مجھے روزانہ جانے کتنی بار مارتا ہے۔ زندگی کے رنگوں سے بہت عرصے خود کو بہلایا ہے۔ اب یہ رنگ مجھے کھلونا بم لگتے ہیں۔ تم انہیں قریب سے دیکھو یہ کتنے بھیانک ہیں، ڈراؤنے ہیں۔‘‘

’’کامی! میں تمہیں خوش خبری سنانا چاہ رہی تھی۔‘‘

’’خوش خبری… شاید یہ لفظ اب مجھے دھوکا نہیں دے سکتا۔ اس کائنات میں کیا کوئی خوش خبری جیسی چیز بھی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بھی روز ترقی پذیر ممالک کو خوش خبری سناتے ہیں، خیرات کی، مگر جب یہ خیرات اپنے معانی بتاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک اور شکنجہ ان کے گلے میں کسا گیا۔ تیسری دنیا کے حکمراں عوام کو خوش خبری سناتے ہیں کہ ان کی بہبود کے لیے حکومت پتہ نہیں کیا کچھ کر رہی ہے مگر خوش خبری جب ان تک پہنچتی ہے تو پتہ لگتا ہے کہ مراعات یافتہ طبقے نے عوام کے گرد کے گرد اپنی پالیسیوں کا شکنجہ اور بھی تنگ کر دیا ہے… کیا ایسی ہی کوئی خوش خبری ہے؟‘‘

’’کامی! تم ہوش میں تو ہو۔ تم لوگوں کی ہمت بندھاتے رہے ہو۔ آج حوصلہ ہار بیٹھے ہو۔‘‘

’’میں کیا ہم سب ہارے ہوئے جواری ہیں۔ مجھ ایسے دانشور لفظوں سے کھیلتے ہوئے ان شکست خوردہ لوگوں کو بہلا رہے تھے۔ اب ہم خود پناہ گاہوں کی تلاش میں ہیں اور پناہ گاہ نہیں مل رہی تو مدہوشی میں پناہ چاہ رہے ہیں۔ نوشی! یہ شور سن رہی ہوَ یہ دھواں دھار فضا جس نے ہم سے نیلے آسمان کا تصور بھی چھین لیا ہے۔ یہ پانی جو ہم پی رہے ہیں، اس میں زہر کا اندازہ ہے تمہیں؟ آج کے دور کا انسان دھیمے زہر کے ذریعے روز جیتا ہے اور مرتا ہے۔ ہر انسان فرار چاہتا ہے۔جھوٹی پناہ گاہوں میں پناہ لیتا ہے، مگر ہم سب بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں۔ فنا کی معمولی سی چنگاری سب کچھ جلا کر بھسم کردے گی اور ہم ایک خوفناک انجام سے دو چار ہوں گے۔‘‘

’’تم دو روز بے روزگار ہوئے تو دیوانگی کا شکار ہو رہے ہو۔ تمہیں کچھ ادراک ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنے لوگ بے روزگار ہیں اور کتنے لوگوں کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی؟ اور تمہارے پاس تو مستقبل کے لیے بہت کچھ ہے۔‘‘

’’کوئی بھی ذی شعور آدمی اس آلودہ ماحول، طبقاتی تفاوت، بے پناہ شور، لوٹ مار اور کشمکش میں زندہ نہیں رہ سکتا، خود کشی کرلیتا ہے یا پاگل ہو جاتا ہے۔ اور مجھ میں خود کشی کی ہمت نہیں، اس لیے سسک سسک کر مر رہا ہوں۔‘‘

’’ہاںکامی! ایسا کرتے ہیں ہم ایک ہفتے کے لیے پہاڑوں پر چلے چلتے ہیں۔ وہاں تمہیں بے ہنگم شور اور آلودگی سے بھی نجات مل جائے گی اور…‘‘

’’نہیں نوشی! ہم انسان بہت گندے ہیں، ہر جگہ گند پھیلاتے ہیں۔ پہاڑوں کو بھی ہم تباہ کر رہے ہیں۔ تم نے دیکھا ہم انسانوں کی بھوک نے ایمیزان کے بارانی جنگل کی دولت تباہ کردی۔ ہم اپنی پناہ گاہوں کو بھی تباہ کر رہے ہیں۔‘‘

’’کامی! ہوش کرو، یہ گھر ہے کوئی ارضی سربراہ کانفرنس نہیں ہو رہی۔ ماحولیاتی آلودگی کے علاوہ دوسرے مسائل بھی ہیں اور بہت سی خوشیاں بھی۔ میں تمہیں بتانا چاہ رہی تھی کہ … وہ … میں… بلکہ … ہم… تین ہونے… والے ہیں۔‘‘

’’نہیں… نہیں… ہرگز نہیں۔‘‘ وہ ہیجانی کیفیت میں کہتا ہے۔

’’کیوں تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟‘‘ کیا تم نے مجھ سے شادی نہیں کی؟ اور تم نے بچے کو عورت کی تکمیل اور قدرت کی حسین تخلیق نہیں کہا تھا؟ یاد کرو کامی!‘‘

’’بس … بس… میں نے جھوٹ کہا تھا سب کچھ۔ ہم انسانوں نے ان بچوں کے لیے کیا رکھا ہے۔ سالانہ نو سو ارب ڈالر کا اسلحہ جس میں ایٹم بم، نیوٹران بم اور ہائیڈوجن سمیت تباہ کن اسلحہ شامل ہے۔ ایک تباہ شدہ اوزون کی تہہ آلودہ فضا اور پھر تیسری دنیا کے ملکوں نے تو ساری عمر کی غلامی ان کے لیے خرید رکھی ہے۔

’’کیا تم بتا سکتی ہو تیسری دنیا میں ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے کتنے ہزار روپے کے قرضے پیشگی لے رکھے ہیں؟ تمہیں یہ علم ہوگا کہ تیسری دنیا میں لاکھوں بچے ناقص غذا کے باعث مر رہے ہیں۔ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں کتنے بچے غذا کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں اور دوسری طرف امریکہ میں کاشت کاروں کو کم غلہ پیدا ہونے پر سب سڈی دی جاتی ہے۔ دنیا کے امیر ترین ۲۰ فیصد دنیا کی کل آمدنی کا ۸۸فیصد اور غریب ترین ۲۰ فیصد محض اعشاریہ چار فیصد پا رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی کثیر الاقوامی کمپنیاں ایک نئی تجارتی سامراجیت ہم پر مسلط کیے ہوئے ہیں۔ ہم پر جدید اسلحہ بنانے پر پابندی ہے۔ نیو کلیئر یا دوسری توانائی کا پر امن استعمال بھی ممنوع ہے جب کہ وہ خود بہ بانگ دہل ہر طرح کا ہلاکت خیز اسلحہ بنا سکتے ہیں، استعمال کرسکتے ہیں۔ اس صسورتِ حال میں ہم اپنے بچوں کو ایک خوف ناک درندوں کے سنسار میں سسک سسک کر مرتے نہیں دیکھ سکتے۔ اس لیے تیسری دنیا کے لوگوں کو بچے پیدا کرنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘ وہ اضطرابی کیفیت میں تقریر کرتے ہوئے کھڑکی کے قریب آکر باہر دیکھنے لگتا ہے۔

’’کامی! سوال تیسری یا دوسری دنیا کا نہیں بلکہ سوال شکار کرنے والے اور شکار ہونے والے، ظلم کرنے والے اور ظلم سہنے والے کا ہے اور یہ جنگ ازل سے جاری ہے۔ صرف ہتھیار اور میدانِ جنگ تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ سپاہی تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ تاریخ کے سوتے بھی ظالم و مظلوم اور حق و باطل کی جنگ سے پھوٹتے رہے ہیں۔ ہر دور میں حق نے باطل کو شکست دی ہے مگر مختصر وقفے کے لیے۔ پھر باطل بظاہر غالب آتا رہا ہے اگر تمہارے جیسے بیمار ذہن فروغ پاتے تو آج دنیا ختم ہوچکی ہوتی یا باطل کا راج ہوتا۔ تاریخ کا عمل جدوجہد سے آگے بڑھتا ہے، ہمت ہار دینے سے نہیں۔ تم جیسے نام نہاد دانشور ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر مزدوروں کے لیے سسکتے اور تڑپتے ہوئے غریب غربا اور تیسری دنیا کے مظلوموں کے لیے نوحے تو لکھ سکتے ہیں، مگرمچھ کے آنسو بہا سکتے ہیں، کمیونزم کے نام پر ایک پارٹی کی آمریت تو مسلط کرواسکتے ہیں، مگر تمہارے نعرے کھوکھلے ہیں۔ ان میں عملیت پسندی نہیں جس کا ثبوت آج مزدوروں اور پسے ہوئے عوام کے لیے جدوجہد سے تمہاری فراریت ہے۔ تم نے تو زندگی کے حقائق کو جھٹلا کر اپنے نظریے کی بنیاد رکھی اور دوسرے لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔ آج اپنے نظریے کی لاش کی سڑانڈ سے خود ہی گھبرا گئے ہو۔ انسان کی سب سے بڑی پناہ گاہ تو اس کے من کی سندرتا ہوتی ہے مگر تم کیا جانو دل کا سکون۔ تم نے تو انسان پر مرضی کا نظام مسلط کر کے اس کی سندرتا کو برباد کرنا سیکھا ہے۔ آج اس دنیا کے انسان آزادی سے جینے کے لیے تمہارے نظریے کی زنجیریں کاٹ چکے ہیں تو تم پرانی کٹیا میں لوٹ گئے ہو۔ وہاں تمہیں کیا سکون ملے گا۔ من کے اندر جھانکو وہاں سکون ہی سکون ہے۔‘‘

’’نوشی! عورت کا من تو شیشے کی طرح نازک ہوتا ہے۔ تمہاری ممتا کا جذبہ جو کہ عورت کی کمزوری ہوتا ہے تمہیں اس کو جنم دینے پر اکساتا رہا ہے مگر کل جب یہ بچہ تعلیم، روزگار، ماحول کے بے پناہ مسائل کی آگ میں جھلسے گا پھر جب آج کے سامراجی درندے منڈیوں کے لیے تیسری عالمی جنگ لڑیں گے، خوف ناک ہتھیاروں کی فضا میں یہ بچہ سسک سسک کر مرے گا تو تمہار دل کرچی کرچی ہوجائے گا، پھر ان کرچیوں کو سمیٹ سکوگی؟‘‘

’’عورت میں قدرت نے برداشت کوٹ کوٹ کر بھری ہے، پھر تمہارا نظریہ اندیشہ ہے، میرے نظریے کی بنیاد یقین پر ہے۔ دنیا کی تاریخ میں درندگی اور درندے نئے نہیں مگر قدرت کا اپنا مکافات عمل کا طریق ہے۔ فرعون، نمرود، چنگیز، ہلاکو بڑے بڑے درندے مکافات عمل کا شکار ہوئے ہیں۔ آج کے فرعون و نمرود کل کے فرعونوں اور نمرودوں کی طرح پناہ گاہوں کی تلاش میں بھٹکتے پھریں گے اور پناہ گاہ کوئی نہیں ہوگی۔ اب تیسری عالمی جنگ آج کے سامراجی درندے نہیں بلکہ دنیا کے تمام محروم انسان ان کے خلاف لڑیں گے۔ پھر کوئی اقوام متحدہ ان کی مدد کو نہیں آئے گی۔ پھر تمام محروم انسان اپنے وسائل کے استحصال کا حساب لیں گے۔‘‘

’’تم عورت بن کر نہیں اس دنیا کی انسان بن کر سوچو۔ بھوک، افلاس، بے روزگاری، قرضے، اقتصادی غلامی، تکنیکی انحصار سب آج کے دور کی سچائیاں ہیں۔ ان سے انکار ممکن نہیں پھر یہ سب چنگاریاں ہیں جو کسی وقت بھی بارود کے ڈھیر کو جلا سکتی ہیں۔‘‘

’’میں نے اس بچے کو جنم نہ دیا تو میں خود کو انسانیت کا مجرم سمجھوں گی۔ شاید میرا بچہ انسانیت کے کسی کام آسکے اور میں نے اس کو جنم نہ دیا تو شاید میری کوکھ ہی سے کائنات کی تباہی پھوٹے۔‘‘

’’نوشی! ہم دونوں تو کسی نہ کسی طرح سسک سسک کر جی ہی لیں گے مگر اس ننھی جان کو دنیا جیسی غلیظ جگہ پر نہیں آنا چاہیے۔ اسے روز جیتے اور مرتے دیکھنے کی تاب تم میں ہوگی نہ مجھ میں۔ اس لیے … تم… اسقاط کرالو۔‘‘

کیا… یہ… تم… نے… کہا… میں … میں … اسقاط کرالوں۔ تباہ کردوں۔ جلا دوں… امیدوں کو… نہیں… میں قتل… نہیں کرسکتی۔ یہ ننھی جان تو میری روح ہے۔ اپنی روحوں کو بھلا کوئی ختم کرتا ہے او رمسٹر! یہ یورپ نہیں، مشرق ہے جہاں اخلاقی اقدار میں یہ لفظ باپ کے منہ پر نہیں آتا۔ تم نے درجن سے زائد بچے بھی دیکھے ہوں گے مگر یہ لفظ… اب میں ایک منٹ یہاں نہیں رہ سکتی۔ میں اپنے بچے کو تمہارے جیسے بیمار ذہن کے باپ کے شر سے دور رکھوں گی۔ میں اسے یقین کا نظریہ دوں گی۔ میں تمہیں روشنی سمجھی تھی مگر تم تو گھٹا ٹوپ اندھیرا نکلے۔ ہاں میں جا رہی ہوں، اس منزل کی طرف جہاں امیدیں ہوں ، مایوسیاں نہ ہوں، جہاں یقین ہو اندیشے نہ ہوں، جہاں حوصلہ ہو فراریت نہ ہو۔‘‘ وہ باہر نکل کر دروازے کی طرف بڑھتی ہے۔

’’رکو نوشی! پلیز رکو۔‘‘

’’اب رکنے کے لیے رہ کیا گیا ہے، سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ میں اپنے بچے کے ساتھ جینا چاہتی ہوں، میں حوصلے اور عزم کے ساتھ جینا چاہتی ہوں یہ دونوں چیزیں تمہیں قبول نہیں۔‘‘

’’نوشی! تم کہاں جاؤگی؟ میں بھی اکیلا رہ جاؤں گا۔‘‘

’’کائنات کی وسعت میں پناہ گاہیں انہیں نہیں ملتیں جو شکست خوردہ اور مایوس ہوں۔ تنہائی مایوسی اور ناامیدی سے بڑی سزا تو نہیں۔ ہاں میری تلاش میں مت نکلنا، جب تم میں زندگی کی حقیقتوں سے لڑنے کی جرات پیدا ہوجائے، جب سرمایہ دارانہ نظام کی پرانی کٹیا میں تمہارا دم گھٹنے لگے تو میں اور میرا بچہ تمہیں زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر مل جائیں گے۔‘ وہ باہر نکل جاتی ہے، پیچھے دو تین آوازیں لگانے کے بعد دروازے تک آکر اس کے قدم رک جاتے ہیں اور وہ صوفے پر بے سدھ پڑ جاتا ہے۔

٭٭

ایک بہت بڑا پنڈال لاکھوں انسانوں کے سروں سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔ تل دھرنے کو جگہ نہیں، غیر ملکی اور ملکی صحافی حضرات مکانوں کی چھتوں سے نظارہ کر رہے ہیں۔ لاؤڈ اسپیکر سے مختلف اعلانات کے بعد اعلان ابھرتا ہے: ’’خواتین و حضرات! انتظار کی گھڑیاں ختم۔ اس ملک کے ممتاز سائنس داں زبیر صاحب آپ سے مخاطب ہوا چاہتے ہیں۔‘‘ دوسری آواز آتی ہے: ’’حضرات! میں آج جو کچھ ہوں، اپنی ماں کی محنت اور دعاؤں کی وجہ سے ہوں، وہ ہی کچھ کہیں گی۔‘‘

ایک باوقار خاتون اسٹیج پر سفید لباس سے سرتا پا ڈھکی مائیک پر آتی ہے۔ ’’خواتین و حضرات! میں دنیا کے تمام انسانوں سے مخاطب ہوں۔ دنیا کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی باقیات کے ہاتھوں زندہ انسانوں کا قید خانہ بنی ہوئی ہے۔ سائنس اور ٹیکنا لوجی جو انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے، اس پر بھی چند ممالک یا کمپنیاں سانپ بن کر بیٹھی ہوئی ہیں اور اس اجارہ داری نے کائنات کو گندگی کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ جانداروں کایہاں رہنا ناممکن ہوتا جا رہا تھا۔ میں نے اپنے بچے کی پیدائش ہی سے اسے سائنس داں بنانے کا سوچا تھا، میں نے جدوجہد، عزم کامل اور یقین کے ساتھ یہ سفر طے کیا۔ میرے بچے نے انسانیت کے لیے آلودگی صاف کرنے کی ٹیکنا لوجی ایجاد کی ہے۔ ایٹم بم کی تباہی سے بچنے کی گیس تیار کی ہے۔ یہ ایجادات انسانیت کی امان ہیں۔ کسی قسم کا کوئی پیٹینٹ نہیں۔ ہر کمپنی ہر ملک اسے بلا معاوضہ استعمال کرسکتا ہے۔ ہر شخص انہیں سیکھ سکتا ہے۔ میرا بیٹا بیسویں صدی کی ایک عورت کی طرف سے اکیسویں صدی کے انسانوں کے لیے تحفہ ہے۔ میری دعا ہے کہ کل جب اکیسویں صدی کا سورج طلوع ہو تو کمیونزم کی طرح سرمایہ دارانہ نظام بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے اور انسانیت کائنات کی سب سے بڑی سچائی کو پالے۔ اس میں ا

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں