حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے موقع پر رسول اللہﷺ نے اپنی اولاد کی ماں اور غم گسار، ہمدرد ودانا و بینا، عقل مند، بچوں کی انتہائی شفقت و محبت سے پرورش کرنے والی، ہر آڑے وقت میں ساتھ دینے والی اور شانہ بشانہ دینی خدمات میں حصہ لینے والی شریک حیات کی جدائی اور فراق کو بڑی شدت سے محسوس فرمایا۔ گھر کی پوری ذمے داروں میں بھی دیگر دینی و تبلیغی ذمے داریوں کے ساتھ زبردست اضافہ ہوگیا۔ بیٹیوں کی نگہ داشت اور گھریلو کام کی انجام دہی میں وقت نکالنا مشکل ہوگیا اور جب حضرت خولہ بنت حکیم نے ان تمام باتوں پر غور و خوض کیا تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تاکہ اس موضوع پر آپؐ سے گفتگو کرسکیں۔ انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! میرا خیال ہے کہ خدیجہؓ کے انتقال نے آپﷺ کے حزن و ملال میں اضافہ کیا ہے، ارشاد فرمایا: ’’وہ میرے بچوں کی ماں اور گھر کی ملکہ تھیں۔ خولہ نے کہا کہ پھر آپ دوسری شادی کیوں نہیں کرلیتے؟ آپ ﷺ نے فرمایاٍ خدیجہ کے بعد کون ہے، جس سے میں شادی کروں؟ حضرت خولہؓ نے آپ کو دوسرے نکاح کا مشورہ دیا اور آپ کی اجازت سے پیغام نکال لے کر سیدہ سودہ رضی ا للہ عنہا کے والد کے پاس گئیں۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا اس وقت بیوہ تھیں۔ جب آپ سے اس رشتے کے حوالے سے رائے طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا: ’’میں محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لائی ہوں، وہ میرے ہادی بھی ہیں اور میرے رہ نما بھی، میری ذات کے متعلق انہیں کلی اختیار ہے، وہ جو چاہیں فیصلہ فرمائیں۔‘‘
حضرت سودہ بنت زمعہ کا تعلق بنی نجار سے تھا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت خولہؓ کی بات مان لی۔ حضرت سودہ کی سبقت الی الاسلام، اپے شوہر سکران بن عمرو بن عبد شمس کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت (دوسرے قافلے کے ساتھ) اپنے مہاجر مسلم شوہر کی وفات کے بعد ان کی بیوگی کے حالات حضورﷺ کے علم میں تھے۔ حبشہ سے واپس جب مکہ پہنچے تو کچھ عرصہ بعد ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا۔ حضرت سودہ بیوہ سن رسیدہ (عمر لگ بھگ پچاس سال) اور صابرہ خاتون تھیں۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا فطرتا اور طبعیتا ایک صالح، حق پسند اور دور اندیش خاتون تھیں۔ بزرگوں کی اطاعت، بچوں سے محبت اور سب کی خدمت کا جذبہ ان میں بھرا ہوا تھا۔ آپ سنجیدہ مزاج تھیں، اور قبول اسلام سے قبل بھی زمانہ جاہلیت کے رسوم و رواج کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب آں حضورﷺ نے توحید و رسالت کا اعلان فرمایا تو آپ نے اس پیغام کو فورا قبول فرمالیا اور دعوت توحید کے تین سالہ دور میں جن افراد نے اسلام قبول کیا، ان میں آپ کا نام بھی نمایاں طور پر شامل ہے۔ آپ اپنے قبیلے میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئیں اور آپ کی کوششوں سے آپ کے شوہر، میکے اور سرال کے خاندانوں کے بہت سے افراد نے اسلام قبول کیا۔
رسول کریمؐ حضرت خولہؓ کی تجویر پر سیدہ سودہ کے ساتھ نکاح کے لیے آمادہ ہوگئے اور ان کا تنہائی کا ساتھی بننا ان کے حسن اخلاق وحسن سلوک کی بنا پر گوارا فرمایا ور انہیں اپنی زوجیت میں لے کر ام المونین کا شرف بخش دیا۔ یہ شادی حالات کے تقاضوں کے علاوہ صلہ رحمی، دل شکستگی کے ازالے اور غم زدہ خاتون کی غم گساری کے لیے بھی تھی۔ نسبت کی اعلی وابستگی اور شادی خانہ آبادی کے تمام مراحل آسانی اور عمدگی سے انجام پائے۔ سیدہ سودہ اس شادی سے بہت ہی مسرور تھیں۔ انھوں نے اپنی عمر رسیدگی کے دکھ کو بھی بھلا دیا اور وہ مسرور و شادکام اور خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتیں۔ ان کی شادی ایسی بے مثال اور عظیم ترین شخصیت سے ہوئی جو کریم ترین، شفیق ترین، خیر البشرؐ قریش کے سردار اور اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین پیغمبر آخر الزماں ہیں۔
زرقانی کا بیان ہے کہ اپنے پہلے شوہر حضرت سکرانؓ کی زندگی میں ایک دفعہ حضرت سودہ نے خواب میں دیکھا کہ تکیے کے سہارے لیٹی ہیں کہ آسمان پھٹا اور ستاروں کی جھرمٹ سے چاند پر گرپڑا، انھوں نے یہ خواب حضرت سکرانؓ (اپنے شوہر) سے بیان کیا تو وہ بولے۔ ’’اس خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ میں تو عنقریب فوت ہوجاؤں گا ور تم عرب کے چاند حضرت محمدﷺ کے نکاح میں آجاؤگی، واقعی اس خواب کی تعبیر چند ہی مہینوں بعد پوری ہوگئی۔
بعض روایتوں کے مطاق یہ خوش بخت حضرت سودہؓ ہی ہیں جو ام المونین حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد سب سے پہلے آں حضرتؐ کی زوجیت میں آئیں۔ نکاح حضرت عائشہؐ سے بھی ہوچکا تھا، لیکن وہ مدینہ منورہ سے ہجرت کے بعد رخصت ہوکر حضور کے یہاں تشریف لائیں۔
حضور انورؐ جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں سے حضرت ابو رافع اور حضرت زید بن حارثہؓ کو مکہ بھیجا کہ حضرت سودہؓ، حضرت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہ زہرا کو ساتھ لے کر آئیں۔ چناں چہ یہ سب حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت ابو رافعؓ کے ساتھ مدینہ منورہ آگئیں۔
حضرت سودہؓ کی طبیعت میں خوش مزاجی اور ظرافت کا پہلو تھا جس سے حضور گاہے بگاہے محظوظ ہوتے رہتے تھے۔ ایک دن رات کو وہ حضور کے ساتھ نماز میں شامل ہوگئیں۔ حضور اکرمؐ بڑی دیر تک رکوع میں رہے۔ صبح ہوئی تو کہنے لگیں ’’یا رسولا للہؐ! رات کو نماز میں آپؐ نے دیر تک رکوع کیا کہ مجھے اپنی لنسیکر پھوٹنے کا اندیشہ ہوگیا۔ چناں چہ میں بڑی دیر تک اپنی ناک سہلاتی رہی۔‘‘‘ حضورؐ ان کی بات سن کر مسکرا اٹھے۔
حضرت سودہؓ بہت رحم دل اور سخی تھیں جو کچھ ان کے ہاتھ آتا اسے نہایت دریا دلی سے حاجت مندوں میں تقسیم کردیتیں۔ بقول حافظ ابن حجرؒ :حضرت سودہؓ دستکار تھیں۔ اس سے جو آمدنی ہوتی اسے راہ خدا میں خرچ کردیا کرتی تھیں۔ (اصابہ)
امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مرتبہ ان کی خدمت میں درہموں کی ا یک تھیلی ہدیہ بھیجی۔ انھوں نے پوچھا، اس میں کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا، درہم بھرے ہوئے ہیں۔ تھیلی میں کھجوروں کی طرح؟‘‘ یہ کہہ کر تمام درہم ضرورت مندوں میں اس طرح بانٹ دیے جس طرح کھجوریں تقسیم کی جاتی ہیں۔
حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اتنی پاکیزہ خیال اور پاکیزہ اخلاق تھیں کہ ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ’’سوائے سودہ کے کسی عورت کو دیکھ کر میرے دل میں یہ خواہش پیدا نہ ہوئی کہ ان کے جسم میں میری روح ہوتی۔‘‘
حجہ الوداع کے موقع پر حضور اکرمؐ نے ازواج مطہرات سے کہا تھا: ’’اس حج کے بعد اپنے گھروں میں بیٹھنا چناں چہ حضرت سودہ ا ور حضرت زینت بنت جحشؓ نے اس ارشاد کی سختی سے پابندی کی اور گھر سے باہر تو کیا نفلی حج اور عمرہ کے لیے بھی نہ نکلیں۔ حضرت سودہؓ کہتی تھیںٍ میں حج اور عمرہ دونوں کرچکی ہوں، اب اللہ (اور رسولؐ) کے حکم کے مطابق گھر سے باہر نہ نکلوں گی۔‘‘ آپ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں عالم بقا کو کوچ کر گئیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدہ سودہ کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھیں، مگر سابق شوہر حضرت سکران رضی اللہ عنہ سے ان کا ایک بیٹا عبد الرحمن تھا۔ عہد فاروقی میں عراق کی مکمل آزادی کا آخری معرکہ ۱۶ ہجری میں جلولا کے مقام پر حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کی زیر قیادت برپا ہوا جس میں عبد الرحمن نے نہ صرف شرکت کی، بلکہ جام شہادت بھی نوش کیا۔ یوں حضرت سودہؓ کو ایک شہید کی ماں ہونے کا لازوال شرف حاصل ہوا۔ آپ نے زندگی کے آخری ایام میں اپنا حجرہ مبارک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام ہبہ فرما دیا تھا۔ آپ کی وفات کے متعلق مختلف روایات ہیں، حافظ بن حجر کے مطابق آپ کا وصال ۵۵ ہجری میں ہوا۔lll