ام سلیم بنت ملحانؓ

عبد المالک مجاہد

ام سلیم بنت ملحانؓ وہ مسلم خاتون ہیں جن کی زندگی میں امت مسلمہ کی خواتین کے لیے بہت سے دروس اور نصائح موجود ہیں۔ ان کے اسم گرامی کے بارے میں مورخین میں اختلاف ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں ان سے منسوب اسماء یہ ہیں: سہلہ، امیہ، رمیثہ، ملیکہ، غمیصاء یا رمیصاء۔

ان کی شادی زمانہ جاہلیت ہی میں مالک بن نضر کے ساتھ ہوئی تھی، جس سے ایک لڑکا پیدا ہوا جو صحابہ کرام میں انس بن مالکؓ کے نام سے معروف ہے۔ انصاریوں میں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کرنے میں پہل کی، ان میں ام سلیمؓ بھی شامل تھیں۔ جب انھوں نے اپنے اسلام کا اعلان کیا تو ان کا شوہر مالک بن نضر آگ بگولا ہوگیا جو ان دنوں کسی سفر پر تھا۔ سفر سے واپس آتے ہی گرجتے ہوئے پوچھا: ’’کیا تو اپنے دین سے مرتد ہوگئی؟‘‘ ام سلیمؓ نے جواب دیا: ’’میں بے دین نہیں ہوئی بلکہ میں نے اسلام قبول کرلیا اور مومنہ بن گئی ہوں۔‘‘

ام سلیمؓ اپنے لاڈلے انس کو خوب خوشی خوشی کھلاتی تھیں اور بچے کو بار بار تلقین کرتی تھیں کہ کہو: لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ اور چھوٹا سا بچہ لڑکھڑاتی زبان سے یہ جملہ ادا کرنے کی کوشش کرتا جیسا کہ اس عمر کے معصوم بچے سکھلائی ہوئی بات کی زبان سے ادائیگی کرتے ہیں۔ ام سلیمؓ کے شوہر نے سوچا کہ اس کا ننھا سا بچہ بھی ماں کے نقش قدم پر چل پڑے گا کیوں کہ بچوں کی پرورش میں ماؤں کا کردار بہت ہی نمایاں ہے۔ ام سلیمؓ بچے کو ایمان واسلام کی تلقین کیے جا رہی تھیں، لہٰذا شوہر نے ڈانٹ کر بیوی سے کہا:

’’میرے بچے کو بگاڑنے کی کوشش نہ کرو۔‘‘

ام سلیمؓ اس کے جواب میں کہتیں: میں اپنے بچے کو بگاڑ نہیں رہی ہوں بلکہ اس کی زندگی سنوار رہی ہوں۔ پھر کچھ دنوں بعد ان کا شوہر مالک بن نضر ملک شام کی طرف کسی کام سے نکلا۔ وہاں اس کے کسی دشمن نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جب شوہر کی موت کی خبر ام سلیمؓ کو پہنچی تو انھوں نے کہا: کوئی بات نہیں، میں اس وقت تک اپنے صاحب زادے کا دودھ نہیں چھڑاؤں گی، جب تک کہ وہ خود ہی نہ چھوڑ دے، اور جب تک وہ بڑا ہوکر لوگوں کی مجلسوں میں اٹھنے بیٹھنے کے قابل نہیں ہو جاتا، میں دوسری شادی بھی نہیں کروں گی، اس لیے حضرت انس بن مالکؓ کہا کرتے تھے:

’’اللہ تعالیٰ میری طرف سے میری والدہ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔انھوں نے میری پرورش و پرداخت کا حق ادا کیا۔‘‘

جب ان کی عدت پوری ہوگئی تو ابو طلحہ جو اس وقت مشرک تھے، انھوں نے ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پیغام نکاح دیا۔ مسند احمد میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ ابو طلحہ نے اسلام قبول کرنے سے قبل ام سلیم کو پیغام نکاح دیا تو انھوں نے کہا:

’’اے ابو طلحہ! کیا تم دیکھتے نہیں کہ تمہارا معبود زمین کی پیداوار ہے؟‘‘

ابو طلحہ نے جواب دیا ہاں!

ام سلیم نے کہا:

’’تمہیں کسی درخت کے آگے سر جھکاتے ہوئے شرم نہیں آتی!! اگرتم اسلام قبول کرلو تو تمہارا اسلام ہی میرا حق مہر ہوگا۔‘‘

ایک روایت کے مطابق انہوں نے پیغام نکاح کے جواب میں کہا:

’’میں تمہاری طرف راغب ہوں۔ تمہارے جیسے آدمی کے پیغام نکاح کو رد نہیں کیا جاتا مگر تم ایک مشرک ہو اور میں مسلمان، اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو مجھے مہر نہیں چاہیے۔‘‘

ایک روایت کے مطابق انہوں نے جواب میں فرمایا: ’’کیا تمہیں لکڑی کے بنے ہوئے ایک بت کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوئے شرم نہیں آتی، جس کا درخت زمین سے پیدا ہوا اور فلاں قبیلے کے ایک حبشی نے اسے گھڑ کر تیار کیا۔‘‘

طبقات ابن سعد کی روایت کے مطابق ام سلیمؓ نے ابو طلحہ کا پیغام نکاح سن کر کہا تھا:

’’میں اس آدمی (محمدﷺ) پر ایمان لائی ہوں، اور میں نے گواہی دی ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ اگر تم میرے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام میں داخل ہوجاؤ تو میں تم سے شادی کرلوں گی۔‘‘

ابو طلحہ نے ام سلیمؓ کا دو ٹوک فیصلہ سن کر کہا: اچھا مجھے اپنے معاملہ میں سوچ بچار کرلینے دو، پھر انھوں نے اپنے اسلام کا اعلان کر دیا اور کہا: ’’میں بھی اسی دین پر ہوں جس پر تم ہو۔‘‘

ان تمام جوابات پر غور کریں، ام سلیمؓ کا عقیدہ کتنا زبردست تھا اور اسلام سے محبت کتنی شدید۔

پھر ابو طلحہؓ کی ام سلیمؓ کے ساتھ شادی ہوگئی اور اسلام مہر قرار پایا۔

ام سلیمؓ کو رسول اکرمﷺ سے بہت زیادہ محبت تھی، ان کی خواہش تھی کہ ان کا بچہ بھی آپﷺ کے دامن تربیت میں پروان چڑھے۔ ان کی رسول اکرمﷺ سے ازحد محبت اور لگاؤ کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ایک مرتبہ ام سلیمؓ نے اپنے بیٹے انسؓ کو رسول اکرمؐ کی خدمت میں پیش کر کے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! یہ انس میر ابیٹا آپ کا خادم ہوگا، میں اسے آپ کی خدمت کے لیے وقف کر رہی ہوں۔ آپ اس کے لیے دعا فرما دیں۔‘‘ چناں چہ آپ نے حضرت انسؓ کے لیے دعا فرمائی، فرمایا:

’’اے اللہ! اس کو کثرت سے مال اور اولاد عطا فرما اور جو کچھ تو اسے عطا فرمائے اس میں برکت نصیب فرما۔‘‘ (ترمذی)

اس دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے حضرت انسؓ کو سو سے زیادہ بچے عطا فرمائے اور ان کے پاس ایک ایسا باغ تھا جو سال میں دو مرتبہ پھل دیتا تھا۔ اس باغ میں ایک خوشبودار پودا تھا جس کی خوشبو کستوری کی طرح تھی۔

جب ام سلیمؓ کی شادی حضرت ابو طلحہؓ کے ساتھ ہوگئی تو میاں بیوی کے شب و روز رسول اکرمﷺ کے فرامین کی اطاعت میں گزرنے لگے اور تقویٰ و پرہیزگاری اس گھر کی رونق بن گئی۔ ام سلیمؓ کی زندگی کا وہ واقعہ امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والی ماؤں کے لیے نہایت نصیحت آمیز ہے جب ان کے لخت جگر کا انتقال ہوگیا اور وہ کمال عقل و دانش سے اپنے شوہر کے درد کا مداوا بن گئیں، جب کہ آج کی عورتیں بچے کی وفات کی خبر سن کر واویلا کرنے لگتی اور حواس کھو بیٹھتی ہیں۔

اس بچے کی وفات کا واقعہ صحیح مسلم میں ہے۔ انس بن مالکؓ کا بیان ہے کہ حضرت ابو طلحہؓ گھر سے باہر تھے، ان کا ایک بیٹا جو ام سلیم کے بطن سے تھا، ان کی عدم موجودگی میں وفات پاگیا۔ ام سلیمؓ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب ابو طلحہ گھر آئیں تو تم لوگ انھیں بچے کی وفات کے بارے میں کچھ خبر مت دینا۔ جب ابو طلحہؓ گھر آئے تو پوچھا: ’’بچے کا کیا حال ہے؟ ام سلیم ؓ نے کہا: اسے پہلے کی نسبت بہت آرام ہے۔ ابو طلحہؓ مطمئن ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد ام سلیمؓ نے ان کے سامنے رات کا کھانا پیش کیا۔ جب وہ کھانا کھا چکے تو ام سلیمؓ نے خاص اہتمام سے بناؤ سنگار کیا، اور پھر وظیفۂ زوجیت ادا کیا۔

جب انھوں نے دیکھا کہ ابو طلحہؓ ہر طرح پرسکون ہیں تو وہ شوہر سے یوں گویا ہوئیں۔

’’آپ بتائیں کہ اگر کچھ لوگ کسی گھر والوں کے مانگنے پر کوئی چیز عاریتاً دیں، پھر وہ اپنی چیز واپس مانگیں تو کیا گھر والوں کو اسے روکنے کا کوئی حق ہے؟‘‘

ابو طلحہؓ نے کہا: ہرگز نہیں۔

ام سلیمؓ نے کہا: تو پھر آپ اپنے بچے کو بھی ویسا ہی تصور کریں۔

یہ سن کر ابو طلحہؓ سخت جھنجلاہٹ کا شکار ہوئے اور کہنے لگے: تم نے مجھے پہلے خبر نہیں دی، یہاں تک کہ میں جنبی ہوگیا، اب جاکر میرے بیٹے کے متعلق بتا رہی ہو! پھر انھوں نے رسول اکرمﷺ کی خدمت میں پہنچ کر حقیقت حال بیان کی۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا آپ لوگوں نے گزشتہ رات ازدواجی تعلق قائم کیا؟ عرض کیا: جی ہاں! آپﷺ نے فرمایا:

’’اے اللہ! ان کی گزشتہ رات میں برکت عطا فرما‘‘

چناںچہ آپ کی دعا کے نتیجے میں عبد اللہ بن ابو طلحہ کی پیدائش ہوئی۔

محدثین کرام نے لکھا ہے کہ ام سلیمؓ کا اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ اس قسم کا رشتہ تھا جس سے وہ آپ سے پردہ نہیں کرتی تھیں، غالباً ننھیال کا رشتہ تھا، وہ خالہتھیں یا رضاعی خالہ۔ رسولِ اکرمﷺ گاہے بگاہے ام سلیمؓ کے گھر تشریف لے جایا کرتے۔ وہ آپﷺ کے لیے کچھ کھانے پینے کی چیزیں تیار رکھتیں اور آپ کو ہدیہ دیا کرتی تھیں۔

ام سلیمؓ رسول اکرمﷺ کے ساتھ جنگوں میں بھی شریک ہوا کرتی تھیں۔ جنگ احد میں یہ بھی شریک تھیں اور پیاسے مجاہدین او رزخمیوں کو پانی پلاتی تھیں۔ فتح مکہ کے بعد جنگ حنین میں بھی یہ شریک تھیں۔ ان دنوں یہ حمل سے تھیں اور ان کے بطن میں عبد اللہ بن ابی طلحہ تھے۔ حنین کے دن انھوں نے اپنی کمر سے ایک خنجر لٹکا رکھا تھا۔ ابو طلحہؓ نے رسول اکرمؐ سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے پوچھا:

’’اس خنجر کا کیا کروگی؟‘‘

ام سلیم نے جواب دیا:

’’میں نے خنجر اس لیے تیار کیا ہے کہ اگر کوئی مشرک میرے قریب آئے گا تو اس سے میں اس کا پیٹ چاک کردوں گی۔‘‘

یہ سن کر رسول اللہﷺنے تبسم فرمایا: (مسلم)

ام سلیمؓ کی دینی غیرت و حمیت ہی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبانی انھیں دنیا ہی میں خوش خبری سنا دی تھی۔ صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا:

’’میں نے جنت کی سیر کی تو مجھے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ فرشتوں نے بتایا: یہ غمیصا بنت ملحان، انس بن مالک کی والدہ ہیں۔‘‘ (بخاری، مسلم)lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں