انا کی قربانی

رؤف ظفر

عید قرباں کے روز ایک پوش آبادی میں واقع عالی شان بنگلے میں کئی جانور قربانی کے منتظر تھے۔ صاحب خانہ نے ہمیشہ کی طرح کئی روز پہلے ہی قصاب بک کروالیا تھا، جو ہر سال اپنی ٹیم کے ساتھ آتا اور دوپہر تک یہ لوگ فارغ ہو جاتے۔ قربانی کے موقعے پر صاحب خانہ کے دو بیٹوں کے علاوہ فیملی کے دیگر ارکان اور بچے بھی موجود ہوتے۔ اس روز جب صاحب خانہ قربانی کے فریضے سے فارغ ہوکر سستانے کے لیے بیٹھے، تو ان کے ایک بے تکلف و دیرینہ دوست نے جو انہیں مبارک باد دینے آئے تھے، ان کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ ’’خان صاحب اللہ آپ کی یہ قربانی قبول کرے۔ آپ واقعی بہت اہتمام کرتے ہیں۔ ابھی یہاں گوشت لینے والوں کی قطار لگ جائے گی، لیکن آپ ذرا اپنی انا (میں) کی بھی قربانی دیجئے۔ آپ کی بیگم معمولی سی بات پر ناراض ہوکر گزشتہ کئی ماہ سے تیسرے بیٹے کے پاس مقیم ہیں۔ سنا ہے کہ آپ نے اس معاملے کو اپنی ’’انا‘‘ کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ پہلے اسے فون کرنا چاہیے اور معذرت بھی کرنی چاہیے، لیکن اگر آپ اپنی بیگم کو پہلے فون کرلیں گے، تو کیا آپ کی شان گھٹ جائے گی۔ یہ گھر کی بات ہے۔ جانورں کی قربانی اچھی بات ہے، یہ سنت ابراہیمی ہے، لیکن قربانی کے اس فلسفے کو اپنی عملی زندگی پر بھی تو اپلائی کیجیے۔ اس سے اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوگا اور گھر کی رونق بھی لوٹ آئے گی۔ بس صرف ایک فون کال کی ضرورت ہے۔‘‘

کہنے کو تو یہ دو بے تکلف دوستوں کے درمیان صرف ایک سرگوشی تھی، جسے کسی تیسرے آدمی نے شاید سنا بھی نہ ہو، لیکن اس سرگوشی کی گونج ہمارے معاشرے کے ہر طبقے میں سنائی دیتی ہے۔ یہ گونج خاموشی سے ہمارے معاشرے میں تہہ در تہہ کار فرما ہے اور اس کی تباہ کاریاں بھی کسی آتش فشاں کے زیر زمین لادے سے کم نہیں ، جو کبھی عائلی عدالتوں میں میاںبیوی کے درمیان علیحدگی کی صورت میں نظر آتی ہیں، تو کبھی دو دوستوں کے درمیان شکر رنجی کی بنیاد بن جاتی ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ برادری کے لڑائی جھگڑوں،نسل درنسل جاری رہنے والی انتقامی کارروائیوں، باس اور ماتحت کے درمیان غلط فہمیوں اور دیگرکئی سماجی مسائل کی بنیاد بھی یہی انا ہے، جس کی قربانی کو عزت میں کمی کا باعث سمجھاجاتا ہے۔ خود غرضی، لالچ، حسد، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ اور نمود و نماش کے جذبے نے ہمیں اپنی انا کا قیدی بنا دیا ہے۔

ہمارے معاشرے میں گھریلو زندگی میں جھوٹی انا کے زخم خوردہ افراد زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ عائلی عدالتوں میں دائر کردہ مقدمات کا ایک اہم سبب فریقین کی انا بھی ہوتی ہے، کیوں کہ دونوں میں سے کوئی ایک بھی جھکنے یا ہار ماننے میں پہل کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ مجھے بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ انتہائی معمولی تنازعات لے کر لوگ کورٹ کچہری پہنچ جاتے ہیں، جہاں دنیا ان کا تماشا دیکھتی ہے۔ عدالت، میاں بیوی کو صلح کا موقع دیتی ہے، لیکن دونوں اپنی انا کے ہاتھوں مجبورہو کر اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ پہل دوسر افریق کرے۔ دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک نے ہار مان لی، تو گھر او رمحلے میں اسے بزدلی کے طعنے سننے کو ملیں گے اور وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ ان کے اردگرد موجود نام نہاد خیر خواہ افراد انہیں غلط مشورے دے کر ان کی جھوٹی انا کو مزید تقویت دیتے ہیں۔ میں نے ایک مقدمے میں باپ کو بیٹی سے یہ تک کہتے سنا کہ ’’بیٹی! ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔ ہار نہیں ماننا۔ پیسے کی فکر نہ کرنا۔ یہ برادری میں ہماری ناک کا مسئلہ ہے۔‘‘ دوسری طرف ماں، بیٹی سے کہتی ہے کہ ’’بیٹی! ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں۔ ہم ان کا دیا نہیں کھاتے۔ وہ عزت دار ہیں، تو ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ انھیں تمہاری ضرورت ہوگی، تو وہ خود آئیں گے۔ ہم کیوں چل کر ان کے پاس جائیں۔‘‘

عائلی، دیوانی اور فوج داری مقدمات ہماری سماجی زندگی کا صرف ایک پہلو ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو ہمارے بیشتر مسائل کے پس پردہ صرف ہماری ’’میں‘‘ ہی کار فرما ہوتی ہے۔ مثلاً پرہجوم سڑک پر رواں دواں ٹریفک میں موجود ایک کار سوار عجلت میں تھا۔ اس سے اسپتال پہنچنا تھا، جہاں اس کا ایک دوست ایمرجنسی میں زیر علاج تھا۔ کار کے آگے ایک پجارو تھی۔ اس کے مالک نے اپنے پیچھے آنے والی چھوٹی کار کے ہارن کو اپنی انا کی توہین سمجھا اور گاڑی روک کر کار ڈائیور کو نیچے اترنے کے لیے کہا۔ لوگوں کے جمع ہونے پر معاملہ رفع دفع ہوگیا، لیکن لوگ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے کہ بڑی گاڑی والے کی انا بھی بڑی تھی کہ وہ جاتے جاتے گاڑی کے بونٹ پر مکا مار کر اس میں ڈینٹ ڈال گیا۔ اس قسم کے مظاہر ہمیں آئے روز قطار توڑ کر دوسروں سے آگے نکلنے، ہوائی اڈوں اور دیگر عوامی مقامات پر پروٹوکول لینے اور سرکاری و نجی دفاتر اور تقاریب میں ’’خصوصی سلوک‘‘ حاصل کرنے سمیت دیگر صورتوں میں نظر آتے ہیں، لیکن یہ معاملہ صرف عوام تک محدود نہیں بلکہ ہمیں ہمارے قائدین اور اعلی سرکاری افسران کی ’’میں‘‘ درجنوں گاڑیوں اور محافظوں کی صحبت پروان چڑھتی ہے اور رکشہ میں سوار گرمی اور حبس میں مبتلا بیوی بچوں کے ساتھ کھڑے افراد اپنی بے بسی کا تماشا دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

ایک ماہر سماجیات، پروفیسر محمد افضل کا کہنا ہے کہ ’’کورٹ کچہری اور تو تکار تک بات اس وقت پہنچتی ہے کہ جب انتہا ہو جاتی ہے، لیکن عام حالات میں بھی انا کی وجہ سے ہماری زندگیاں جہنم بنی رہتی ہیں اور ہم چپ چاپ یہ برداشت کرتے رہتے ہیں۔ بہو کی اپنی انا ہوتی ہے اور ساس کی اپنی ’’میں‘‘ ہوتی ہے۔ شوہر اپنی بات پر اڑا رہتاہے اور بیوی بھی تعلیم یافتہ ہونے یا ماں باپ کی امیری کے زعم میں اپنی بات سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ میں نے تو جھوٹی انا کے ہول ناک نتائج بھی دیکھے ہیں۔ غریب والدین کے بیٹے جب ملازمت یا کاروبار میں ترقی کی وجہ سے متمول طبقے کے افراد کے ساتھ اٹھنا، بیٹھنا شروع کرتے ہیں تو گھر میں الٹرا ماڈرن اور پوش سوسائٹی کے افراد کی آمد و رفت کی وجہ سے اپنے ان پڑھ اور سادہ لوح والدین کو انیکسی تک محدود کردیتے ہیں یا اولڈ ہوم بھیج دیتے ہیں۔ ایک واقعے کا تو میںعینی شاہد ہوں۔ ایک اعلی افسر نے جب گھر میں کئی بکروں کی قربانی دی تو اس کا ماتحت عملہ اور دوست یار موجود تھے، لیکن والدین کو سروینٹ کوارٹر سے باہر آنے کی اجازت نہیں تھی اور بعد میں جو محفل برپا ہوئی، تو اس میں انہیں شریک کرنے کی بہ جائے ان کے کوارٹر ہی میں سامان خورد و نوش بھجوا دیا گیا۔ ان صاحب نے جانوروں کی قربانی تو دے دی، لیکن اپنے گریڈ اور سوسائٹی کے حصار میں قید اپنی انا کی قربانی نہ دے سکے۔

ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ انا بذاتِ خود کوئی بری چیز نہیں۔ انسان کی خودی اور انا کا استحکام ہی اس کی شخصیت کے استحکام کا پیمانہ ہوتا ہے۔ شاعر مشرق، علامہ اقبال نے اسے زندگی میں کایابی اور متوازن شخصیت کی کلید قرار دیا ہے۔ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے اسے قوت محرکہ کی حیثیت حاصل ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ زندگی کے اعلی مقاصد اور دینی اقدار سے ہم آہنگی کی بہ جائے ہمارے ہاں اس کا استعمال نمود و نمائش اور ایک دوسرے پر برتری و بالادستی حاصل کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ حالاں کہ انا کا اصل مفہوم یہ ہے کہ کسی کی غلامی قبول نہ کی جائے۔ اپنی خود مختاری، سالمیت اور عزت پر آنچ نہ آنے دی جائے اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا جائیـ۔ اسلامی تعلیمات میں تو زمین پر اکڑ کر چلنے سے بھی منع کیا گیا ہے اور یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جس ٹہنی پر زیادہ پھل لگتے ہیں، وہ جھکی ہوئی ہوتی ہے، لیکن ہمارے معاشرے پر نمود و نمائش کی جو تہہ چڑھ گئی ہے، اس کے نتیجے میں ہماری انا عہد جدید کے مصنوعی اور نمائشی پیمانوں میں ڈھل گئی ہے اور اس کے معیارات بدل گئے ہیں۔ مثال کے طور پر اب اس فرد کی عزت کی جاتی ہے جو عالی شان گھر میں رہتا ہو، بیش قیمت گاڑی کا مالک ہو اچھے کپڑے اور جوتے پہنتا ہو او رکسی کو خاطر میں نہ لاتا ہو۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے نے اب اس قسم کے چال چلن اور طرزِ زندگی کو قبول کرلیا ہے اور اسے کسی عیب یا خامی کے زمرے میں شمار نہیں کیا جاتا۔ جب اس قسم کے منفی رجحانات کو معاشرے میں قبولیت کی سند مل جائے، تو پھر اس دوڑ میں شریک ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ چاہے اسے کسی کو روند کر ہی آگے کیوں نہ نکلنا پڑے۔

آج کل اگرایک شخص دوسرے کو سلام میں پہل نہ کرے، کوئی چھوٹی گاڑی، بڑی گاڑی کو کراس کر جائے، کوئی طالب علم دوسرے زیادہ نمبر حاصل کرنے، میاں بیوی میں کوئی ایک دوسرے کو ناگوار بات کہہ دے، شادی بیاہ پر دعوت دینے میں بھول چوک ہوجائے یا خیر خیریت دریافت کرنے میں تاخیر ہو جائے، تو ایسی معمولی معمولی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے اور جب شکر رنجی بڑھتی ہے، تو پھر کوئی بھی فرد اپنی انا قربان کرکے صلح صفائی میں پہل نہیں کرتا۔

یہ اور اس قسم کے دوسرے واقعات ہماری جھوٹی انا اور شان و سوکت کے مظہر ہیں، جن کی قربانی دینے کے لیے کوئی آمادہ نہیں ہوتا۔ البتہ جب عید قرباں آتی ہے، تو جانوروں کی قربانی کے لیے بڑا اہتمام کیا جاتا ہے۔ عید الاضحی پر جانوروں کی قربانی کا یہ جذبہ قابل تعریف ہے، لیکن اگر اس موقعے پر اپنی انا کی قربانی دے کر کسی روٹھے ہوئے کو منا لیا جائے، صلح صفائی میں پہل کرلی جائے، کسی کی غلطی کو معاف کر دیا جائے اور ہٹ دھرمی اور ضد سے گریز کیا جائے، تو یقینا عید الاضحی کی خوشیاں دو بالا ہوسکتی ہیں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس روز آپ کی صرف ایک فون کال کسی کا دامن خوشیوں سے بھر دے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں