انسانی زندگی کا تزکیہ

علامہ محمد اسد/ ترجمہ: ذو القرنین حیدر

رسول اکرمؐ کی بعثت اور آپ کے مشن میں فرد کی تربیت اور اس کے تزکیہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت شعور اور بیداری کی حالت میں رہے اور ایک نظم ضبطِ نفس کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرے۔

انسان کی روحانی ترقی کے نقطہ نظر سے الل ٹپ سرزد ہونے والے افعال اور ان افعال سے جنم لینے والی عادات ان رکاوٹوں کی مانند ہیں، جو رکاوٹوں والی دوڑ میں شریک گھوڑوں کی راہ میں کھڑی کی جاتی ہیں۔ ضروری ہے کہ ایسے افعال اور عادات کو کم سے کم اختیار کیا جائے جو طبیعت کے روحانی ارتکاز کو منتشر کرنے کا باعث بنتے ہوں۔ ہونا یہ چاہیے کہ ہم جو کچھ بھی کریں، وہ ہمارے اپنے ارادے اور ضابطہ اخلاق کے تابع ہو۔ لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمہ وقت اپنی ذات کا مشاہدہ و محاسبہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت محاسبۂ نفس کا ذریعہ ہیں، جن سے پوری طرح استفادہ کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو‘‘۔ (بخاری)

ضبطِ نفس کی ضرورت بیان کرتے ہوئے حضرت عمرؓ بن الخطاب نے فرمایا: ’’تم خود اپنا محاسبہ کرو، قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ عبادت کا اسلامی تصور صرف مذہبی فرائض تک محدود نہیں ہے، بلکہ فی الحقیقت وہ ساری انسانی زندگی پر محیط ہے، اور اس کا ہدف ہمارے روحانی وجودکو ہمارے مادی وجود سے جوڑکر ایک وحدت میں سمونا ہے۔ لہٰذا، ہماری کوششوں کا حتی الامکان ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں سے خودفراموشی کی کیفیت اور ایسے عوامل کو جڑ سے اکھاڑ دیں جو انسان کے روحانی و مادی وجود میں یک جہتی پیدا نہیں ہونے دیتے۔ مشاہدۂ نفس اس راہ میں پہلا قدم ہے۔ یہ وہ انتہائی یقینی طریقہ ہے جس کی مدد سے فرد اپنے نفس کے مشاہدے اور احتساب کی تربیت کرسکتا ہے اور اپنی عادات اور اپنی روزمرہ زندگی کے بظاہر غیر اہم افعال کو اپنے شعور کے تابع کرسکتا ہے۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں اور بظاہر غیر اہم افعال اور عادات ذہنی تربیت کے سیاق و سباق میں فی الحقیقت ہماری زندگی کے بڑے کاموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ’’بڑی بڑی باتیں‘‘ اور ’’عظیم کام‘‘ اپنی بڑائی کی وجہ سے ہمیشہ واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں، لہٰذا وہ کم و بیش ہمیشہ ہمارے شعور میں رہتے ہیں۔ لیکن ’’چھوٹی چھوٹی‘‘ باتیں بہ آسانی نظرانداز ہوجاتی ہیں اور ہمارے کنٹرول سے بچ نکلتی ہیں، حالانکہ فی الحقیقت یہ کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں اور ان کی مدد سے ہم ضبط ِنفس کی صلاحیتوں کو کہیں زیادہ نتیجہ خیز اور اثرانگیز بناسکتے ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ یہ بات بجائے خود اہم نہ ہو کہ کس ہاتھ سے کھانا کھایا جانا چاہیے، یا یہ کہ داڑھی کی کیا اہمیت ہے؟ لیکن نفسیاتی اعتبار سے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ زندگی کے معاملات کو محض الل ٹپ عادت کے طور پر نہیں بلکہ باقاعدہ ارادے کے تحت انجام دیا جائے۔ اس لیے کہ اس طرح ہم اپنے آپ کو محاسبۂ نفس اور اخلاقی پابندیوں پر عمل کرنے کے لیے تیار رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ دیکھا جائے تو بظاہر یہ کوئی آسان کام دکھائی نہیں دیتا۔ ذہنی طور پر سست ہونا، جسمانی طور پر سست ہونے سے زیادہ نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک ایسے شخص کو لمبی سیر کے لیے لے جائیں جو اکثر بیٹھے رہنے کا عادی ہو، تو وہ جلدی تھک جائے گا اور پیدل چلنے کے قابل نہیں رہے گا۔ لیکن اس کے برعکس وہ شخص نہیں تھکے گا جو عمر بھر پیدل چلنے کا عادی رہا ہو۔ اس کے لیے یہ سیر تھکن کا باعث نہیں ہوگی اور وہ اسے ایک خوش گوار جسمانی ورزش کے طور پر لے گا۔ اس سے یہ حکمت اور (مومنانہ) طرزِ زندگی کا یہ رمز مزید واضح ہوجاتا ہے کہ سنت کے دائرے میں انسانی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو کس لیے شامل رکھا گیا ہے۔ اگر ہم سے مسلسل اپنے تمام اعمال اور خطائوں کو جانچنے پرکھنے کا تقاضا کیا جاتا رہے تو ہماری محاسبۂ نفس کی استعداد بھی مسلسل بڑھتی رہے گی، اور ایک خاص مدت کے بعد ہماری فطرت ِ ثانیہ بن جائے گی۔ جب تک یہ تربیت جاری رہے گی، ہمارا اخلاقی تساہل بھی کم سے کم تر ہوتا چلا جائے گا۔

لفظ ’’تربیت‘‘ کے استعمال سے قدرتی طور پر یہ مراد ہے کہ اس کا نتیجہ تربیتی عمل کے مقصد پر منحصر ہوگا۔ اگر سنت پر عمل زوال پذیر ہوکر محض حرکات و سکنات کا ایک معمول بن جائے تو اس کی تعلیمی و تربیتی قدر و قیمت بھی ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ گزشتہ صدیوں میں مسلمانوں کا طرزِ عمل بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ جب رسولِ رحمتؐ کے صحابہؓاور ان کے بعد آنے والی نسلوں نے اپنی زندگی کے ہر معاملے کو اپنے آقاؐ کے اسوۂ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی تو انہوں نے مکمل فہم و شعور کے ساتھ ہدایت پر مبنی ہر اْس حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا جو روحِ قرآن کے مطابق ان کی زندگیوں کی تشکیل میں معاون ہوسکتا تھا۔ اسی شعور اور ارادے کی بدولت وہ اتباعِ سنت سے پوری طرح فیض یاب ہوسکے۔ اگرچہ بعد کے زمانوں میں آنے والے مسلمان ان نفسیاتی امکانات سے بھرپور فائدہ نہ اٹھاسکے، جن کا دروازہ کھلتا ہی سنت کی پیروی سے ہے تو یہ نعوذ باللہ ’’سنت‘‘ کی خامی نہیں تھی۔

اس پورے گزشتہ عہد میں مسلمانوں کے انحطاط اور اضمحلال کا ایک سبب کسی نہ کسی حد تک تصوف بھی ثابت ہوا ہے جو انسان کی فعال توانائیوں کو غیر اہم قرار دیتا ہے اور اْن توانائیوں پر زیادہ زور دیتا ہے جو محض تاثرات و تصورات کے ادراک میں معاون ہوسکتی ہیں۔ چونکہ سنت ِنبویﷺ پر عمل اسلام کے ابتدائی ایام ہی سے مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا، اس لیے دور اوّل سے متصل زمانے میں تشکیل پانے والا صوفی ازم دین کی اس بنیاد کو زائل کرنے میں کامیاب تو نہ ہوسکا، لیکن وہ اس کی فعال قوت کا اثر کسی حد تک کم کرنے کا سبب ضرور بنارہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ صوفیوں کے نقطہ نظر سے سنت ایک ایسی مجرد علامت بن کر رہ گئی جس کی اہمیت نظریاتی و تصوراتی تو تھی مگر عملی نہیں تھی۔ وہ اسے محض روحانی اور صوفیانہ تناظر میں دیکھتے تھے۔ دوسری جانب مذہبی علما اور فقہا کے نزدیک اسلام محض ایک فقہی یا قانونی نظام تھا۔

نتیجتاً عامۃ المسلمین کے لیے سنت اپنے حقیقی معانی کھوچکی تھی۔ اس کے باوجود کہ مسلمان قرآنی تعلیمات سے استفادہ کرنے اور سنت ِنبویؐ کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کی تعبیر اور ان کی تفہیم کے عمل سے محروم ہوچکے تھے، لیکن تعلیمات ِ نبویؐ کے سیاق و سباق اور ان کی تعبیر کے پیچھے کارفرما تصور میں قطعاً کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ آج بھی پوری طرح قابلِ اطلاق ہیں۔ چنانچہ کوئی وجہ نہیں کہ ایک بار پھر سنت ِنبویؐ کو عملی زندگی کا حصہ نہ بنایا جاسکے۔

دوسری جانب ناقدین کہتے ہیں کہ سنت کامقصد محض علامتوں پہ اصرار، ظواہر پرستی اور رسوم کے پابند زاہدِ خشک تیار کرنا ہے۔ ان نقادوں ] اور سنت کے منکروں[ کا یہ تبصرہ جھوٹ پر مبنی طعن سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ فی الحقیقت اتباعِ سنت کا مقصد باشعور، صاحبِ عزیمت اور حوصلہ مند مردانِ کار تیار کرنا ہے۔ نبی کریمؐ کے صحابہ و صحابیاتؓ اسی طرح کے انسان تھے۔ وہ قلب ِبیدار کے مالک ہمہ دم متحرک اور احساسِ ذمہ داری سے ہر قدم اٹھانے والے لوگ تھے۔ کردار کی یہی وہ خوبیاں ہیں جن میں ان کی کرشماتی صلاحیت و استعدادکا راز پوشیدہ ہے اور انہی خوبیوں کی بدولت انہوں نے اپنی انسانیت ساز تاریخی کامیابیوں سے دنیا کو حیران کردیا تھا۔ بلاشبہ یہ اتباعِ سنت ہی کا اولین اور منفرد پہلو ہے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں