آخر بتاؤ، چاہتی کیا ہو! سارا دن دفتر میں کولھو کی طرح پستا رہتا ہوں، اب کیا کسی کا گلا گھونٹ دوں؟
’’کسی کا کیا گلا گھونٹوگے، ہمارا ہی گلا دبا دو نا! تمہیں بھی سکھ کا سانس مل جائے گا۔‘‘ بیوی تلملا کے بولی:
’’تمہارا گلا تو کیا گھونٹوں گا۔ میں اپنے آپ کو ہی ختم کر لوں گا۔ تمہیں بھی شانتی مل جائے گی۔‘‘ رام ناتھ نے پاؤں میں چپل اُڑستے ہوئے کہا:
’’پاپا!‘‘ دروازے میں کھڑا رجو بولا۔
’’کیا ہے، رام ناتھ چیخا!‘‘
’’کہاں جا رہے ہو پاپا؟‘‘
’’مرنے‘‘
’’مجھے بھی ساتھ لے چلو نا!‘‘
’’چل تو بھی چل!‘‘ یہ کہہ کر رام ناتھ نے رجو کو گود میں اٹھایا، اور واپس چار پائی پر آکر بیٹھ گیا۔
’’بھگوان کا دوسرا نام پریم ہے۔ اس سرشٹی کی ہر جگہ ایشور کا نواس ہے، کسی سے نفرت کرنا پاپ ہے۔‘‘
مندر میں اپدیش ختم ہونے کے بعد اپدیش سننے والے بکھرنے لگے۔ سیڑھیوں میں بیٹھا رامو جانے والوں کی طرف دیکھنے لگا۔ بہت سے لوگ اس کی طرف نگاہ ڈالے بغیر آگے بڑھ گئے۔ کچھ ایک نے مندر سے ملے پرشاد کا کچھ حصہ اسی کی جھولی میں ڈال دیا اور رام نام جپتے چلتے بنے۔
مندر خالی ہوگیا، رامو خلا میں جھانکنے لگا۔ پھر ایک طرف ہٹ کر دیوار سے ٹیک لگا کر پکارا۔ ’’موتی، موتی!‘‘
تھوڑی دور کھڑا ایک کتا اس کی طرف بھاگا آیا اور پاس کھڑا ہو کر دم ہلانے لگا۔ رامو نے کتے کی گردن میں ہاتھ ڈالا اور اس کے منہ سے اپنا منہ سہلانے لگا۔
اس نے جھولی میں سے پرشاد اٹھایا اور موتی کو بھوگ لگا دیا۔
ماںنے کہا:
’’میرا بچہ، میری خوشی، میرا جیون۔‘‘
شاعر نے کہا:
’’میرے اشعار۔ میری کائنات!‘‘
مصور نے کہا:
’’میری تصاویر، میرے شاہکار میری زندگی!‘‘
’’اسے دیکھو کتنا پیارا ہے یہ!‘‘
’’انہیں سنو، کتنے عظیم ہیں یہ!‘‘
’’انہیں پرکھو، کتنے دلکش ہیں ان کے رنگ!‘‘
تینوں نے ایک ساتھ خوشی سے امڈتے ہوئے کہا:
تخلیق انھیں دیکھ کے مسکرائی اور بولی:
’’میرے بچو! ہمیشہ خوش رہو!‘‘
٭٭
’’مجھے اس تمام دنیا سے نفرت ہے۔‘‘
وہ مایوسی کی کھڈ میں جھانکتے ہوئے بولا۔
’’مجھے تم سے نفرت ہے، تمہاری خدائی سے نفرت ہے۔‘‘ اس نے آسمان کی طرف تاکتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تیری بنائی ہوئی ہر چیز سے نفرت ہے۔‘‘
اس نے چاروں طرف نظر گھمائی۔
’’مجھے تم سے بھی نفرت ہے۔‘‘ وہ قریب کھڑے بچہ سے مخاطب ہوا۔
بچہ اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔
’’مجھے دیکھ کے مسکراتے ہو!‘‘
بچہ نے اپنے ننھے ننھے بازو آگے پھیلا دیے۔
’’آخر تم مجھ سے چاہتے کیا ہو؟‘‘
بچہ نے اس کا دامن تھام لیا۔
اس نے بچہ کو گود میں اٹھا لیا۔ بچہ نے اس کے گلے میں بازو ڈال دیے۔
بچہ نے کہا: ’’پاپا!‘‘
اس نے کہا: ’’ہاں میری کائنات!‘‘
’’کون ہو تم؟‘‘
’’فرشتۂ اجل۔‘‘
’’کیسے آئے؟‘‘
’’آپ کو خوش خبری سنانے کے لیے۔‘‘
’’کیسی خوش خبری!‘‘
’’آپ کی ریاضت پوری ہوگئی، معمر بزرگ!‘‘
’’وہ کیسیَ‘‘
’’بارگاہ الٰہی میں آپ کو بلایا ہے۔‘‘
’’اتنی جلدی!‘‘
٭٭
ہندو مسلم فسادات پورے زوروں پر تھے، نفرت کی آگ نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ لیکن میں ریلوے اسٹیشن کے ایک بنچ پر تنہا بیٹھا زندگی اور موت کے بھیانک مسئلہ سے بے نیاز خیالوں کی دنیا میں کھویا ہوا تھا۔
پلیٹ فارم پر چھائی ہوئی تاریکی کو چیرتا ہوا ایک شخص وارد ہوا، اس کی سرخ آنکھیں، گھناؤنا چہرہ اور لمبا چوڑا جسم دیکھ کر کانپ گیا۔ وہ بولا۔
’’کون ہو تم؟‘‘
میں اس کی شکل کی طرف دیکھنے لگا۔
’’میں پوچھتا ہوں، تم ہندو ہو؟
میںنے نفی میں سر ہلا دیا۔ ’’تم مسلمان ہو؟‘‘
میں نے پھر نفی میں سر ہلا دیا۔
’’پھر بتاؤ تم کون ہو؟‘‘
’’میں انسان ہوں۔‘‘ میرے حلق کی گڑگڑاہٹ نے جواب دیا۔
’’انسان کے بچے! یہاں اکیلا کیوں بیٹھا ہے؟ چل میرے ساتھ کوئی مار دے گا تمہیں۔‘‘
اور میں اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔lll