انٹرنیٹ: فوائد اور نقصانات

اسامہ شعیب علیگ

ترسیل کا عمل زمانہ قدیم سے ہی چلا آرہا ہے جو ہر دور میںترقی کے زینے طے کر تا ہواآج کی روز مرہ زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط میں کمپیوٹر کی ایجاد نے روایتی ترسیل کو ترقی دے کرا لیکٹرانک ترسیل میں تبدیل کر دیا۔ تیز تر اور آسان پیغام رسانی کے پیش ِ نظر مغربی ممالک میں حکومتی اداروں کی جانب سے تحقیقی عمل ہوتا رہا۔ خاص طور سے امریکہ کیAdvance Research Project Agency (اے آر پی اے) کے سائنسدانوں نے ۱۹۶۰ میں نیٹ ورکنگ کا جال فوجی ہیڈکواٹراور ان کے اداروں میں پھیلایا جس کی غرض یہ تھی کہ ضروری ہدایات و معلومات بسرعت پہنچائی جاسکیں ۔پھر ۱۹۸۲ میں انٹرنیٹ عالمی سطح پر کارگر ہوا ۔ ۱۹۹۰ میں ’یورپین ہائی انرجی فزکس لیبریٹری‘ نے ایک ایسا سافٹ ویر تیار کیا جس کی مدد سے کسی بھی طرح کی معلومات کو انٹرنیٹ پر تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس کا نام ’ورلڈ وائڈویب‘ رکھا گیا ۔اس ویب یعنی جال نے پوری دنیا کو اپنے دائرے میں لے لیا ہے ۔ ۱۹۹۰ سے عوام انٹرنیٹ استعمال کرنے لگے اور اس کے ساتھ ہی دنیا ایک گلوبل ویلج (Global Village) کی شکل اختیار کر گئی۔

انٹرنیٹ دراصل کمپیوٹروںکا عالمی طور پر پھیلا ہوا ایک جال ہے جس میں کروڑوں کمپیوٹر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔آپ جب اپنا کمپیوٹر انٹرنیٹ سے جوڑتے ہیں تو آپ بھی اس جال کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح آپ اس جال سے جڑے ہوئے دوسرے کمپیوٹر سے معلومات حاصل کر سکتے اور اسے بھیج سکتے ہیں ۔کمپیوٹر کو ٹیلی فون لائن،کیبل لائن اور سٹیلائٹ وغیرہ کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑا جاتاہے۔یہ بالکل آزاد نیٹ ورک ہے۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اس کا کوئی مالک نہیں ہے، ہر شخص اس سے جڑ سکتا ہے اور اس میں اپنی مرضی سے ڈاٹا کا اضافہ کر سکتاہے پھر بھی اس پورے نظام کی تکنیکی دیکھ بھال کے لیے’ ICANN‘ نامی ادارہ قائم ہے جس کا ہیڈکواٹر کیلیفورنیا (امریکہ ) میں ہے۔ اس کو تین بڑے ادارے’ انٹرنیٹ سوسائٹی، انٹرنیٹ آرکی ٹیکچر بورڈ اور انٹرنیٹ انجینئرنگ ٹاسک بورڈ‘ مل کر چلا رہے ہیںاور اس میں دنیا کے تمام ممالک کے نمائندے شامل ہیں ۔

انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب اس کے لیے لیپ ٹاپ اور وائی فائی جیسی ٹکنالوجی ہے اور اس سے بھی آسان اور سستی ٹکنالوجی یعنی ٹو جی اور تھری جی ہے جس کے ذریعے دنیا ایک بڑی آبادی موبائل میں انٹرنیٹ کا استعمال کررہی ہے۔ International Telecommunication Union کے سروے کے مطابق ہندوستان کی10.5فیصد آبادی انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے ۔ انٹرنیٹ کا استعمال کرنے میں پہلے نمبر پر چین ، دوسرے نمبر پر امریکہ اور ہندوستان تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ چنانچہ اب بجا طورپر ہندوستان میں بنیادی انسانی ضروریات کا نعرہ ’روٹی کپڑا مکان او ر انٹرنیٹ‘ ہونا چاہیے۔

انٹرنیٹ کے فوائد

انٹرنیٹ کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ہم مسلمان اس میدان میں بہت پیچھے ہیں ۔ہم نے مذہب اور سائنس کو الگ کر دیا ہے جب کہ کسی زمانے میں ہم سائنس کے میدان میںاہل ِیورپ سے آگے تھے ۔ رسول ﷺ کے ایک فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ فاصلے سمٹ جائیں گے ۔اس کی دو شکلیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں ۔اول یہ کہ نقل و حمل کی ترقی سے مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونے لگے لگا ۔چنانچہ آج پوری دنیا کا سفر چوبیس گھنٹوں میں ممکن ہے ۔ دوم یہ کہ ذرائع ابلاغ کی ترقی ٹیلی گرام ، ٹی وی ،ٹیلی فون ،موبائل اور انٹرنیٹ کی ایجادات نے اس میدان میں بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعہ ہم ای میل،ای کامرس،ای بزنس،آن لائن تعلیم،فاصلاتی تعلیم،آن لائن امتحانات، یونیورسٹی، کمپنی کی معلومات ، اشیاء ،اخبار و رسائل و جرائد، فلاحی و زرعی تنظیمیں ،سیاسی پارٹیوں کی جانکاری، بینکنگ اور تمام طرح کے بلوں کی ادائیگی، طبی و سائنسی معلومات ،شریعت کے احکام و مسائل اور قرآن و حدیث کو سمعی و بصری شکل میں حاصل کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کی متنازعہ فلم’ انوسنس آف مسلمس‘ انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی لوگوں تک پہنچ سکی ۔ اسی طرح مشرق وسطی میں تیونس ،مصر اورلیبیا وغیرہ میں مطلق العنان حکومتوں کے خلاف جو انقلاب آیا اس میں انٹرنیٹ کا اہم رول رہا ہے۔ اور بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا ایک انسان کی مٹھی میں آگئی ہے۔اگر اس کا استعمال اچھے مقاصد، تعمیری کاموں اور معلومات میں اضافے اور تعلیم و تعلّم کے لیے ہو تو یہ جائز بلکہ مستحب ہے کیونکہ ایسے کاموں کا قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے: ترجمہ: ’’ نیکی اور پر ہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد (سورۃالمائدہ:۲)کرتے رہو۔‘‘

انٹرنیٹ کے نقصانات

انٹرنیٹ کی خاص برائیوں میں فحش گانے ،بلو فلمیں، بے حیائی کے مناظر ،اشتہارات کے نام پر بے پر دگی، عریانیت ، مشرکانہ رسوم ،معاشی دھاندلیاں ،رقوم کی منتقلی، نجی معلومات کا افشا، جلد دولت مند بننے کے چکر میں فریب دہی کے نئے نئے طریقے، دھمکی آمیز پیغامات، فحش باتوںا ور فحش مواد کی دوسروں کوترسیل ہیں ۔یہ کانوں اور آنکھوں دونوں کی لذت کا سامان مہیا کرتا ہے اس لیے لوگ اس کے دل دادہ ہیں۔مگرایجاد کو شرعی حدود کا پابند ہونا چاہیے کیونکہ قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ کان آنکھ اور دل سب کے بارے میں بازپرس ہوگی ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’کان آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل:۳۶) اوراسی بے حیائی کی وجہ سے نمازیں بے اثر ہوتی جا رہی ہیں۔جب کہ نماز تو بے حیائی سے روکتی ہے جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:’’یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘ (سورۃ العنکبوت:۴۵) فوائد کے حصول کے لیے کچھ نقصان بھی اٹھانا پڑے گا۔یہی اس ایجاد کا منفی پہلو ہے اس کے ذریعے اسلام مخالف قوتیں ہماری تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کے درپے ہیں ۔موجودہ ذرائع ابلاغ (خاص کر ٹی وی،ڈش اور انٹرنیٹ)کوبد قسمتی سے ہم لوگ بنا کسی روک ٹوک کے اپناتے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالی کاارشاد ہے: ’’اور کچھ انسان ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالی سے غافل کرنے والی باتیں خریدتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بے سمجھے بوجھے (دوسروں کو) گمراہ کریں اور اس راہ کی ہنسی اڑائیں، ایسے ہی لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔‘‘(لقمان:۶) اگر یہ جاری رہا تو پھر ہم لوگوں کو تباہی کے لیے تیار رہنا ہوگا ۔کیونکہ ہاری ہوئی جنگ کو تو جیت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے مگر تہذیب و ثقافت کی شکست پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔آج انٹرنیٹ کا استعمال زیادہ تر فحش و بے حیائی و اخلاقی بگاڑ کی طرف دعوت، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور غلط معلومات کو پھیلانے میں ہو رہا ہے۔اگر بے حیائی و فحش فلموں و ویڈیو کی بات کی جائے تو اس کو دیکھنا ،سننا اور پسند کرنا بھی حرام ہے ۔قرآن کریم میں بے حیائی کی باتوں کو پھیلانے والوں کے لیے دردناک عذاب کی خبر سنائی گئی ہے ۔ارشادِ ربانی ہے: ’’جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے ،ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا اور اللہ تعالی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔‘‘ (النور: ۱۹)

آج کل سوشل نیٹ ورکنگ کا چلن عام رہا ہے ۔ جیسے فیس بک، ٹوئٹر ، گوگل پلس ، یوٹیوب اوریاہووغیرہ۔ ان میں سب سے زیادہ فیس بک کا استعمال ہو رہا ہے۔ اسے ایک امریکی نوجوان طالب علم’ مارک زکر برگ‘ اور اس کے ساتھیوں نے ہارڈورڈیونیورسٹی میں اپنے دوستوں کے لیے قائم کیا تھا مگر چند ہی دنوں میں اس کو پورے برطانیہ میں مقبولیت حاصل ہو گئی اور ۲۰۰۵تک یہ پوری دنیا میں پھیل گیا ۔اس وقت ۸۴۵ ملین سے زائد افراد اس کو استعمال کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ہندستان دوسرے نمبر پر آتا ہے جہاں اس کا استعمال کرنے والوں کی تعداد ۴۴ ملین سے زائد ہے ۔ عموما فیس بک کا استعمال نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو نشے کی لت کی طرح لگ جاتا ہے اور اس میں نئی نئی دوستیاں صنفِ مخالف سے ہوتی ہیں اور پھر معاملات پیار،شادی اور زنا تک پہنچ جاتے ہیں ۔اس کی وجہ سے غیر مذہب میں شادی اور طلاق کے رجحان میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔

فیس بک اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے لڑکوں لڑکیوں کی اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی صلاحیتوںپر کاری ضرب لگتی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں والدین کو ہمیشہ بیدار رہنا چاہیے کہ ان کے بیٹے یا بیٹیاں انٹرنیٹ پر کیاکیا دیکھ رہے ہیں ۔ایک عجیب بات ہے کہ کمپیوٹر گھروں میں عموما ایک کونے اور آڑ میں رکھا ہوتا ہے ۔رات رات بھر کمپیوٹرچلتا رہتا ہے اور والدین سمجھتے ہیں کہ پڑھائی ہو رہی ہے جب کہ عموما پڑھائی کے علاوہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے ۔ نہ والدین کو توفیق ہوتی ہے کہ وقتا فوقتا اس کو چیک کرتے رہیں یامخصوص فحش و غیر اخلاقی ویب سائٹوں کو بند کرا دیں ۔جب کہ اس کی سہولت موجود ہے ۔بہتر ہوگاکہ والدین اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو اس’ معلوماتی ہائی وے‘ پر تنہا نہ چھوڑیں۔ انٹرنیٹ کے لیے سائبر کیفے بھی ہوتے ہیں جہاں کیبن بنے ہوتے ہیں اور پردہ لٹکا ہوتا ہے والدین کے علم میں بھی نہیں ہوتا کہ اولاد وہاں کیا کرتی ہے۔جب معاملہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو ہوش آتا ہے۔

اس وقت جب کہ انٹرنیٹ ایک اہم ا ور بنیادی ضرورت بن چکا ہے ہم کسی کو بھی اس کے استعمال سے روک نہیں سکتے اور نہ یہ ممکن ہے ۔کیونکہ ہمارے پاس اس کا کوئی دوسرا بدل نہیں ہے ۔یہودیوں نے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اسلامی تہذیب و اقدار کو تباہ و برباد کرنے کاعزم کر رکھا ہے۔ جب کہ ہمارے علمائے کرام چین کی نیند سو رہے ہیں۔ہمارے علمائے کرام ،مذہبی و ملی تنظیموں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان ذرائع کو زیادہ سے زیادہ خیر اور نیکی کے کاموںمیں استعمال کرنے کے لیے رہنمائی کریں ۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کوئی ایسا ملک ہے، جہاں انٹرنیٹ میں فحش و غیر اخلاقی ویب سائٹ کے استعمال پر نا بالغوں کے لیے پابندی ہو ؟(کیونکہ بچے ہی قوم کامستقبل ہواکرتے ہیں)آپ کے ذہن میں سعودی عرب یا افغانستان کا تصور آئے گا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ملک اسرائیل ہے ۔اور اسرائیل کی پالیسی یہ ہے کہ خود قرآن کریم کے مطابق چلتا ہے اور عمل کرتا ہے کیونکہ اسی میں اس کی بھلائی ہے اور دنیا میں خاص طور سے مسلم ممالک میں فحاشی و غیر اخلاقی مواد کو انٹرنیٹ یا دوسرے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ فروغ دے رہا ہے تا کہ مسلمان ذہنی و اخلاقی طور پر ہمیشہ کے لیے پچھڑ جائیں اور ترقی نہ کر سکیں۔

usama9911@gmail.com

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں