اور میری ماں چل بسی

عبد الملک مجاہد

میں انتہائی بد نصیب ہوں۔ میری حالت پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ میں نے زندگی بھر کبھی اپنی ماں کے حکم سے سرتابی نہیں کی۔ میری ماں جو کچھ بھی طلب کرتی، میں بلا چوں چرا اس کے حکم کی تعمیل کر دیتا۔ میں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ مجھ جیسے وفا شعار اور ماں کے اطاعت گزار سے ایسی حرکت بھی سرزد ہوسکتی ہے جو میرے لیے زندگی بھر کے پچھتاوے کا سبب بن جائے گی۔ لیکن آہ! ٓج میری حسرت اور میرا افسوس کس کام کا؟ اب اس دنیا میں نہ میری ماں رہی، نہ اس کا پیار، اللہ اللہ! ماں کتنی بڑی نعمت ہے، کسی نے سچ کہا ہے: ع

’’دنیا میں آکے جس نے دیکھا نہ پیار ماں کا وہ پھول ہے خزاں کا!‘‘

اب اگر میں خدمت کرنا بھی چاہوں تو ماں کہاں سے لاؤں؟ ہاں وہ ماں، جس کے قدموں تلے جنت ہے۔ جس کے حکم پر عمل کرنا عبادت ہے۔ جس کی ہاں میں ہاں ملانا بے شمار نیکیوں کا باعث ہے۔ جس کی طرف مسکرا کر دیکھ لینا بھی عبادت ہے۔

ہاں، اب میں اس کے سوا کیا کرسکتا ہوں کہ اپنا دردِ دل سناؤں اور آپ کو اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں چند نصیحتیں کردوں۔

میں انٹرنیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ میرے سامنے قرآن کریم کی بعض آیات کی تفسیر تھی۔ میں ان کا بغور مطالعہ کر رہا تھا اور ایک مسئلے میں الجھا ہوا تھا۔ میں ایک آیت کی تفسیر پر غور کر کے کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے سامنے کئی اقوال آتے تھے مگر میرے پلے کچھ نہیں پڑ رہا تھا۔ میں نے کئی پہلووں سے ان آیات کا مفہوم سمجھنا چاہا مگر کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ میں اس گتھی کو سلجھانا چاہتا تھا۔ آج میں نے عزم کرلیا تھا کہ انٹرنیٹ سے اس وقت تک نہیں اٹھوں گا جب تک یہ شرح اچھی طرح میری سمجھ میں نہ آجائے۔

مگر آج مجھے اپنے آپ پر اس قدر افسوس ہو رہا ہے کہ میں اسے الفاظ مین بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ میں اپنے مسئلہ کو سلجھانے کے لیے انٹرنیٹ پر مختلف کتب تفسیر کے مطالعہ میں منہمک تھا، اس دوران میری ماں نے آواز دی۔ مجھے ماں کی آواز سنائی نہیں دی۔ اس نے ایک دو بار آواز دی مگر میرا دھیان اس کی آواز کی طرف نہیں گیا، اس لیے میں نے اس کا جواب نہیں دیا۔ لیکن اب اس کی آواز بلند ہوچکی تھی اس کی آواز میرے کانوں تک آرہی تھی۔ لیکن میں نے اس کی پروا نہیں کی لیکن آج جب کہ میری ماں ہمیشہ کے لیے خاموش ہوچکی ہے، اس کی وہ آواز میرے کانوں میں مسلسل گونج رہی ہے۔ میری ماں مجھے آواز دیتے ہوئے کہہ رہی تھی:

’’بیٹا! میری تمنا ہے کہ تم میرے پاس آؤ، بیٹھو، میں تم سے کچھ دل کی باتیں کرنا چاہتی ہوں۔ پتا نہیں کیوں ا ٓج تم سے باتیں کرنے کو بہت جی چاہ رہا ہے۔ کسی کام میں دل نہیں لگ رہا، اس لیے چاہتی ہوں کہ تم میرے پاس بیٹھے رہو، میں تمہیںکچھ یادیں اور کچھ باتیں سناتی رہوں اور رات اسی طرح ڈھل جائے!‘‘

جب میں نے اس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا تو وہ میرے کمرے میں داخل ہوئی جہاں میں کمپیوٹر پر بیٹھا مطالعے میں مگن تھا۔ وہ اب میرے پاس بیٹھ گئی۔ وہ کہہ رہی تھی: ’’بیٹا! یہ کمپیوٹر چھوڑ دو۔ آؤ میرے پاس آ بیٹھو۔ اس بڑھاپے میں نہ جانے کیوں تم سے اتنی باتیں کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ کمپیوٹر سے اٹھو قدم بڑھاؤ اور میرے ساتھ چلو!… بہت ساری باتیں سنانی ہیں تمہیں…‘‘

میں نے اپنی ماں سے کہا: ’’امی جان! میں ایک آیت کی شرح تلاش کرنے میں کئی دنوں سے لگا ہوا ہوں۔ مسئلہ الجھا ہوا ہے۔ اس بارے میں علمائے تفسیر کے اقوال بھی سمجھ میں نہیں آرہے۔ آج اگر میں یہ مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہوں تو یہ علم کی بہت بڑی خدمت ہوگی اور آنے والی نسل مجھے دعائیں دے گی!!… دیکھونا یہ شرح!!… میں یہ عوام کے لیے تیار کر رہا ہوں۔ یہ کتنا اچھا او رکتنا مبارک کام ہے!… یہ کتنی عظیم خدمت ہے؟… دیکھونا میں اس معمے کے حل میں کس طرح ڈوبا ہوا ہوں!…‘‘

مجھے آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے کہ میری ماں کئی منٹ میرے پاس کھڑی رہی۔ وہ مجھے کمپیوٹر چھوڑنے کے لیے کہتی رہی مگر میں نے اس کی باتوں پر کوئی دھیان نہیںدیا۔ ہاں، ایک دو مرتبہ اس کی طرف پیار سے ضرور دیکھا لیکن میں بدستور اپنے کام میں مصروف رہا۔ میری ماں مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ چند لمحوں بعد میرے کمرے کا دروازہ بند ہوگیا تو پتا چلا کہ میری ماں میرے پاس سے چلی گئی ہے۔

میں سوچ رہا تھا کہ چلو آج اگر میں اپنی ماں کے بلانے پر اس کے پاس نہیں جا رہا، او روہ مجھ پر ناراض ہو رہی ہے تو کوئی بات نہیں۔ انشاء اللہ کل میں اسے منا لوں گا۔ میری ماں تو میری ساری لغزشیں معاف کردیتی ہے، پھر یہ کون سا بڑا جرم ہے۔ کل جب میں اس سے معافی مانگوں گا تو وہ مجھے معاف کردے گی۔ میں بھی تو دینی کام میں مشغول ہوں۔ کل میں اپنی ماں کے سامنے اس الجھے ہوئے مسئلے کو حل کر کے بتلاؤں گا تو وہ کس قدر خوش ہوگی اور مجھے معاف کردے گی۔ میرے دل میں یہ باتیں تھوڑی دیر کے لیے آئیں اور دور نکل گئیں۔ میں پھر اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔ میں اس قدر مشغول تھا کہ اس کے بعد مجھے اپنی ماں کے بارے میں کوئی بات ہی یاد نہیں آئی۔ مجھے اتنا بھی یاد نہیں رہا کہ کچھ دیر پہلے میری ماں مجھے بلانے آئی تھی۔

پھر میں دیر تک انٹرنیٹ پر بیٹھا رہا۔ جب میں نے مطلوبہ مسئلہ حل کرلیا پھر مجھے خیال آیا کہ اب ماں کے پاس چلنا چاہیے۔ میں کمپیوٹر بند کر کے اپنی ماں کے پاس حاضر ہوا۔ میں نے امی امی کہہ کر تین مرتبہ آواز دی۔ میری امی کی عادت تھی کہ چاہے وہ کتنی ہی گہری نیند میں ہوتیں، جونہی میں ’’امی‘‘ کہتا وہ فورا بیدار ہوجاتیں۔ آج جب میں نے حسب معمول امی کہہ کر پکارا تو ان کی جوابی آواز نہیں آسکی!!…

مجھے جھٹکا سا لگا کہ امی کی خاموشی اتنی بے لچک کیوںہوگئی؟ میںنے فوراً اپنی ماں کا ہاتھ چھو کر دیکھا کہ کہیں بخار تو نہیں۔ میرا گمان سچ ثابت ہوا۔ والدہ کا پورا جسم بخار کی شدت سے تھرتھر کانپ رہا تھا۔ ان کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں اور نورانی رخساروں پر آنسو ٹپک رہے تھے۔ میں یہ منظر دیکھ کر گھبرا گیا۔ امی جان سے کہا کہ ہمیں ہسپتال چلنا چاہیے۔ مگر انہوں نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کی حالت دیکھ کر معلوم ہو رہا تھا کہ وھ بڑی اذیت میں ہیں۔

میں نے فوری طور پر اپنی ماں کو ہسپتال میں داخل کرایا۔ وہاں آناً فاناً ایمرجنسی وارڈ میں علاج شروع ہوگیا۔ ڈاکٹروں نے پوری دیانت داری سے میری والدہ کا علاج کرنا شروع کیا۔ والدہ کی طبیعت بگڑتی جا رہی تھی۔ ایمر جنسی وارڈ میں جس رفتار سے علاج ہو رہا تھا اس سے کہیں زیادہ رفتار سے میری والدہ کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ ایک ڈاکٹر ایمرجنسی وارڈ سے باہر نکلا اور مجھے اپنے پاس بلا کر بولا:

’’ہماری ٹیم تمہاری ماں کا علاج کرنے میں مصروف ہے۔ ہر ڈاکٹر اپنی ذمے داری نبھا رہا ہے۔ مگر تمہاری ماں کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ اب تک کی رپورٹ کے مطابق اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ اس کے جگر میں شدید درد ہے۔ وہ ابھی بول نہیں سکتی۔ نہ اس سے کلام کرنا مناسب ہے، اس لیے تم باہر ہی رہو۔ انتظار کرو اور دعا کرو۔ ہم حتی الامکان کوشش کر رہے ہیں کہ مریضہ ٹھیک ہوجائے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب! کیا میں اندر اپنی ماں کے پاس جاسکتا ہوں؟ مجھے ماں ہی کے پاس رہنے دیا جائے تو اچھا رہے گا۔ میں قریب رہ کر اچھی طرح ان کی دیکھ بھال کرسکتا ہوں۔

’’نہیں نہیں، تم اندر نہیں جاسکتے۔ کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں، ورنہ مریضہ کا مرض مزید بڑھ جانے کا اندیشہ ہے۔‘‘

ڈاکٹر کی بات مجھ ہر بجلی بن کر گری۔ میں اندر ہی اند رگھٹن محسوس کرنے لگا۔میں اپنے آپ کو کوس رہا تھا۔ اپنے ضمیر کو ملامت کر رہا تھا۔ میں اپنی ماں کی بات مان کر اس کے ساتھ کیوں نہیں گیا۔ مجھ پر پڑھنے لکھنے اور لوگوں کی خدمت کرنے کا ایسا کون سا بھوت سوار ہوگیا تھا کہ میں نے اپنی ماں کی بات نہیں مانی۔

میں ویٹنگ ہال میں انتظار کر رہا تھا کہ میری ماں کے حوالے سے کوئی خوشخبری ملے۔ رات زیادہ ہونے کی وجہ سے میری آنکھ لگ جاتی تھی مگر جلد ہی کھل بھی جاتی۔ ذرا بھی آہٹ ھوتی تو میں اس کی طرف دیکھنے لگ جاتا کہ شاید میری ماں کے بارے میں کوئی رپورٹ آرہی ہے۔ ایک دفعہ جب میری آنکھ کھلی تو میںنے دیکھا کہ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تیزی کے ساتھ اسی وارڈ کی طرف جا رہی ہے جس میں میری ماں تھی۔ میں بھی ان کے پیچھے دوڑ پڑا لیکن مجھے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ابھی چند لمحے گزرے تھے کہ ڈاکٹر باہر نکلنے لگے۔ اسی دوران ایک نرس میرے پاس آئی اور کہنے لگی: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں زیادہ اجر عطا کرے اور تمہاری ماں کی مغفرت فرمائے۔‘‘

انا للہ و انا الیہ راجعون کیا میری ماں کا انتقال ہوگیا؟ یہ کیسے ہوگیا؟ میں تو اس کی ڈھیر ساری خدمت کرنا چاہتا تھا، یہ کیسے ہوگیا کہ وہ مجھے چھوڑ کر دور بہت دور موت کی سرد و سنسان وادی میں چلی گئی۔

میں وارڈ میں داخل ہوا۔ ماں کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ اس کے ہاتھ پاؤں چومنے لگا اور ماں ماں کہہ کر آنسو بہانے لگا۔ آہ…! قدرت کا یہی معمول ہے ایسے موقع پر چاہے کوئی کتنی بھی ہمدردی جتائے، تسلیاں دے۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ موت بہت بڑی حقیقت ہے۔ ع

موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں!

ڈوب جاتے ہیں سفینے موت کی آغوش میں

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں