ایک عمر رسیدہ مردِ دانا، دریا کے کنارے بیٹھا، کائنات میں اللہ تعالیٰ کی حسین و جمیل کاری گری سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک بچھو پر پڑی، جو پانی میں گر پڑا تھا اور ڈوبنے ہی والا تھا۔ بچھو اپنے آپ کو پانی کے سپرد کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ اس نے اپنے آپ کو بچانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ پانی کی جس لہر میں وہ گرا تھا وہ بہت تیز تھی۔ بچھو نے ہر چند کوشش کی مگر وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور وہ ڈوبنے ہی والا تھا کہ عمر رسیدہ دانا بزرگ نے بچھو کی یہ کرب ناک حالت دیکھی تو اسے بچانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے اپنا ہاتھ بچھوں کی طرف بڑھایا تو بچھو نے اس کو ڈس لیا۔ درد کی شدت سے بے تاب ہوکر مردِ دانا نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا، مگر اس نے جوں ہی بچھو کی طرف دیکھا کہ وہ ڈوبنے سے بچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے تو اسے ترس آگیا۔ اس نے ایک بار پھر اپنا ہاتھ بچھو کی طرف بڑھایا تاکہ اسے مرنے سے بچالے، مگر بچھو نے اسے دوبارہ ڈس لیا۔ اس نے درد سے بے چین ہوکر چیخ ماری اور اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ اس نے اب جو بچھو کو دیکھا تو یقین ہوگیا کہ وہ موت کے کنارے پہنچ چکا ہے۔ چناں چہ اسے اسے بچانے کے لیے تیسری بار اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ مردِ دانا کے قریب بیٹھا ایک نوجوان یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ وہ چلا کر بولا: اے مردِ بزرگ! کیا آپ نے دوبار ڈسے جانے سے بھی سبق نہیں سیکھا کہ اب تیسری بات ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔
مردِ دانا نے اس نوجوان کی ملامت کی بالکل پروا نہ کی اور بچھو کو بچانے کی برابر کوشش کرتا رہا۔ بالآخر اسے ڈوبنے سے بچا ہی لیا۔ اب وہ ملامت کرنے والے نوجوان کی طرف متوجہ ہوا، شفقت و محبت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، اس کا کندھا تھپتھپایا اور کہا: بیٹے! بچھو کی فطرت ہی ڈنک مارنااور ڈسنا ہے، جب کہ میری فطرت میں محبت و شفقت کرنا ہے۔
مبارک تھا وہ سلیم الفطرت مردِ بزرگ، جس کا دل محبت سے بھرپور تھا۔ مبارک ہے وہ انسان جو شیطان کی کوشش کو رد کر دیتا ہے۔ مبارک ہے وہ شخص جو اپنے آپ پر ضبط رکھتا ہے۔ آپ نے یہ مقولہ سنایا پڑھا ہوگا: درختوں کی مانند ہوجاؤ کہ لوگ ان پر پتھر پھینکتے ہیں او روہ بدلے میں ان کی طرف پھل پھینکتے ہیں۔ کیا آپ نے درختوں پر انسانوں کے پتھر مارنے پر کبھی غور کیا ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ پتھر پھینکنے والا ہمیشہ اس سے ادنیٰ پست اور نیچے ہوتا ہے جس پر پتھر پھینکتا ہے۔ کیا آپ نے ملاحظہ کیا کہ بلند و بالا کھجور کے درخت پر پتھر پھینکنے والا انسان اس سے بہت نیچے ہوتا ہے اور وہ اپنے سے اونچے درخت پر سنگ باری کرتا ہے؟ جی ہاں! چھوٹے بڑوں پر پتھر پھینکا ہی کرتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ لوگوں کا رویہ اور برتاؤ آپ کو پریشان کردے مگر آپ ہرگز اپنے حسن سلوک سے دست کش نہ ہوں۔ آپ لوگوں کے رویے کے رد عمل میں اپنی عمدہ صفات ترک نہ کریں اور اپنے اخلاقِ حمیدہ کو نہ چھوڑیں۔ آپ ہرگز ان باتوں پر کان نہ دھریں کہ لوگوں کے رویوں کے مطابق ہی ان سے پیش آنا چاہیے، کیوں کہ یہ لوگ کسی شریفانہ سلوک کے مستحق نہیں ہیں۔
اگر آپ نے یہ اصول تسلیم کرلیا ہے اور اس کے برحق ہونے کے قائل ہوگئے ہیں کہ انسان کو دوسروں کے سلوک سے قطع نظر ہمیشہ حسن سلوک پر کار بند رہنا چاہیے، تو پھر آپ سے درخواست ہے کہ آپ کے حسن سلوک کے سب سے زیادہ حق دار آپ کے گھر والے یعنی اہل و عیال ہیں۔ حضور اکرمﷺ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہے اور میں اپنے اہل خانہ کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔‘‘
بہت سے والدین کو اپنی اولاد کے طرزِ عمل سے سخت اذیت پہنچتی ہے، کیوں کہ بچے ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہیں، اور ان کی تعلیم کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ والدین کے لیے پریشانی کا سبب بنتے ہیں اور ان کا جینا دو بھر کردیتے ہیں۔ اس مرحلے پر والدین کا پیمانۂ صبر لبریز ہو جاتا ہے اور وہ اولاد سے سختی کرتے ہیں۔ شیکسپیئر کا قول ہے: ’’محبت کرو اس سے پہلے کہ تم سے نفرت کی جائے۔‘‘
بہت سے والدین کے نزدیک اولاد کی تربیت میں سختی و شدت ناگزیر ہے۔ وہ سزا اور سختی کے سوا کسی عمل کو مفید نہیں سمجھتے۔ ان کی نظر میں تربیت کے تمام طریقے غیر موثر اور سمجھانے کے تمام ذرائع بے کار اور غیر مفید ہیں۔ اپنے اس طریق کار کے درست ہونے کی ان کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ انھوں نے خود اس نہج پر پرورش پائی ہے۔ چناں چہ اس قسم کے باپوں میں سے ایک باپ نے مجھے بتایا: ’’میں اپنے باپ کے سامنے چپ چاپ کھڑا رہتا تھا، نہ تو میں اس سے بات کرتا تھا اور نہ اس کی قطع کلامی کی ہی جسارت کرتا تھا۔ وہ جب بھی بات کر رہا ہوتا تو مجھے جواب دینے یا کچھ بولنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ کیوں کہ باپ کی بات کا جواب دینا، بیٹے کی طرف سے باپ کی شان میں بے ادبی پر محمول کیا جاتا تھا۔ والد صاحب اپنی آواز بہت اونچی کرلیتے تھے، جب کہ میں چپ سادھے رہتا تھا۔ مجھے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ وہ کسی بھی وقت میری پٹائی کرسکتے ہیں۔ مجھے یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ مجھے کب پیٹیں گے اور کیسے زد و کوب کریں گے؟
وہ اپنے خطاب کے دوران ایک دم میرے چہرے پر دائیں بائیں ہاتھ سے تابڑ توڑ تھپڑ رسید کرتے تھے ۔ میرے لیے حکم یہ ہوتا تھا کہ تھپڑوں کی اس بارش کے دوران خاموش کھڑا رہوں اور بالکل حرکت نہ کروں۔ میرے والدین نے میری تربیت اس طرح کی ہے اور جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں… میں مرد بن چکا ہوں۔‘‘
میں نے اس باپ سے پوچھا: کیا آپ بھی اپنی اولاد کے ساتھ یہی وتیرہ اپنائے ہوئے ہیں؟ تو اس کا جواب تھا: یقینا مجھے امید ہے کہ میری اولاد ضرور سیدھے راستے پر چلے گی۔‘‘ میں نے کہا: ذرا مجھے یہ بتائیے کہ جب آپ بیٹے سے بات کر رہے ہوتے ہیں تو اس کی حالت کیا ہوتی ہے؟ اس نے کہا: وہ میرے سامنے کھڑا کانپتا رہتا ہے، خاموشی سے میری باتیں سنتا ہے اور بالکل جواب نہیں دیتا۔
اس قماش کے باپ کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے بچوں کی درست نہج پر تربیت کرسکے۔ یہ تو ممکن ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو چپ کرادے اور اسے ماتحت و فرماں بردار رہنے پر مجبور کر دے مگر ایسا باپ اپنی اولاد میں بزدلی، بے بسی، بے ہمتی، عاجزی اور ذلت و خواری کے بیج بو دیتا ہے۔ وہ معاشرے کو نفسیاتی لحاظ سے ایک شکست خوردہ، مغلوب و مضطرب شخصیت پیش کرتا ہے۔
محبت سے اولاد کی تربیت کرنا انتہائی ضروری ہے، تاکہ ہم موافقت و ہم آہنگی اور یکسانیت و تامل میل سے بھرپور زندگی گزار سکیں۔ یوں ہم اپنے پروردگار کو بھی راضی کرسکنے کے قابل ہوجائیں گے اور ہم اور ہماری اولاد دنیا و آخرت میں سرخ رو اور کام یاب ہوجائیں گے۔ ہم ایک ایسا معاشرہ وجود میں لاسکیں گے جو توانا و مضبوط ہو، متحد و ہم آہنگ ہو اور جس کا ہر فرد دوسروں سے محبت و الفت کرنے والا ہو۔ سوال یہ ہے کہ محبت کے ذریعے اولاد کی تربیت کے طریقے کیا ہیں؟
یوں تو ماہرین نفسیات و عمرانیات اور ماہرین تربیت نے محبت کے ذریعے اولاد کی تربیت کے متعدد ذرائع اور طریقے بیان کیے ہیں مگر ان میں سے اہم ترین طریقے درج ذیل ہیں:
کلامِ محبت
انسانوں کی تربیت اور ان کی راہ نمائی اور دلوں میں الفت پیدا کرنے کے لیے کلام، یعنی بات چیت اور گفتگو انتہائی موثر کردار ادا کرتی ہے۔ کلام در اصل اس گھنے سایہ دار درخت کی مانند ہے جو پتوں اور پھلوں سے لدا ہو اور بے شمار منافع و فوائد رکھتا ہو۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے کلام کو ایک درخت سے تشبیہ دی ہے۔ چناں چہ فرمایا:
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ (پاکیزہ کلام) کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے پھل دے رہا ہے اور اللہ یہ مثالیں اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں۔‘‘ (ابراہیم:۲۴،۲۵)
ایک تحقیقی مطالعے سے ثابت ہوا ہے کہ ایک فرد ہوش سنبھالنے سے لیکر کامل بلوغ تک سولہ ہزار منفی (برے) الفاظ سنتا ہے، جب کہ وہ اس مدت میں مثبت (اچھے) الفاظ صرف چند سو سنتا ہے۔ ہم لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ سلبی و منفی یعنی برے الفاظ و کلمات ہمارے بچوں کی تربیت پر کتنے برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
ماہرین تربیت اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب ماں باپ یا تربیت کرنے والوں کی طرف سے بچے کی توہین کی جاتی ہے اور اساے برے القاب و صفات سے پکارا جاتا ہے تو بچہ اپنی ذات کے بارے میں، اپنے ذہن میں ایک تصویر یا خاکہ بنا لیتا ہے۔ گویا اپنی ذات کے بارے میں یہ ذہنی تصویر اس کلام کا نتیجہ ہوتی ہے، جو وہ اپنے بارے میں لوگوں کی زبانوں سے سنتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ بچے کے بارے میں دوسروں کی باتیں نقاش (مصور) کا برش ہیں۔ نقاش بچے کے بارے میں باتیں کرنے والا ہے۔ اگر بچے کے بارے میں اور بچے سے بات کرنے والا شخص کالے رنگ کا برش استعمال کرتا ہے تو سیاہ تصویر وجود میں آتی ہے اور اگر وہ خوب صورت رنگ استعمال کرتا ہے تو تصویر بھی حسین ہوگی۔
کچھ باپ جب اپنے بیٹوں سے بات کرتے ہیں تو اپنی گفتگو سے ان کی شخصیتوں کو مسخ کر دیتے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنے بیٹے کی قدر وقیمت کم نہ کیجیے۔ ایک ماں کے لیے بھی یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ بات کرتے وقت اس کی شخصیت کو کچل دے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں سے باتیں کرتے وقت توہین آمیز لفظوں، تحقیر آمیز باتوں، طعن و تشنیع، تمسخر و استہزا اور گالم گلوچ سے مکمل اجتناب کریں۔ وہ کسی بھی صورت میں منفی الفاظ و کلمات استعمال نہ کریں۔ کیوں کہ بچوں کے ساتھ منفی رویہ اختیار کرنے کے انتہائی تلخ نتائج سامنے آیا کرتے ہیں۔ چنانچہ بچوں میں علیحدگی پسندی، کم آمیزی، جارحیت، مختلف طرح کے خوف، عدم خود اعتمادی، تحقیر ذات، نفسیاتی امراض اور طرح طرح کے بگاڑ جنم لیتے ہیں۔
نگاہِ محبت
کتب سیرت و احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمؐ کی صحبت میں بیٹھنے والا ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ وہ دیگر تمام حاضرین کے مقابلے میں حضور کا سب سے زیادہ محبوب ہے۔ کیوں کہ رحمت دو عالم ہر شخص کو محبت بھری نظر سے دیکھتے تھے۔
اپنے بیٹے کی آنکھوں میں جھانکیے، اس کے سامنے مسکرایے، محبت بھری نگاہ کے ساتھ ساتھ محبت آمیز بات چیت کیجیے۔ ہو سکتا ہے کہ میرا مشورہ پڑھ کر قارئین کرام میں سے کوئی سخت گیر باپ یہ کہے: ’’میں یہ کیسے کروں؟ اس لیے کہ میں نے تو اپنے بیٹے کو اس کا عادی نہیں بنایا اور اگر میں اپنے بیٹے کو پیار بھری نظر سے دیکھ بھی لوں تو وہ ضرور حیران ہوگا۔ اب میں اس کی حیرت کا جواب کیا دوں؟ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ اپنے بیٹے کے والد محترم ہیں۔ آپ ایک شفیق باپ ہیں، خدارا! اپنے بیٹے پر دھاوا بولنے اور حملہ کرنے کے انداز کو ترک کر دیجیے اور اس سے مسکرا کر بات کیجیے۔ اگر بیٹا آپ سے اس اچانک تبدیلی کا راز پوچھے تو آپ اسے یوں جواب دیجیے۔ ’’بیٹا! میں آپ سے محبت کرتا ہوں‘‘ یا ’’میرے لخت جگر مجھے تمہارا ہمیشہ خیال رہتا ہے۔‘‘
محبت آمیز لمس
یہ خلافِ حکمت ہے کہ آپ اپنے بیٹے سے برتر و اعلیٰ ہو کر بات کریں۔ برتری خواہ جگہ اور مقام کے اعتبار سے ہو یا گفتگو کے لحاظ سے، آپ اپنے بیٹے سے اس طرح بات نہ کریں کہ آپ تو ایک اونچی کرسی پر براجمان ہوں اور وہ نیچے بیٹھا ہو، اور نہ اس اسلوب و انداز میں ہی بات کریں کہ گویا آپ ایک فوجی کمانڈر ہیں اور بیٹا آپ کا ایک ماتحت سپاہی اور آپ اسے احکام دے رہے ہیں اور وہ جی جناب، جی جناب کہہ رہا ہے۔ یہ بھی حکمت کا تقاضا نہیں ہے کہ آپ دور سے ہی بیٹے سے مخاطب ہوں، بلکہ آپ کو چاہیے کہ آپ ہر لحاظ سے بیٹے کے نزدیک ہوں، دل سے بھی نزدیک، مجلس کے لحاظ سے بھی قریب اور بات چیت کے انداز سے بھی۔
آپ جب بھی اپنے بیٹے یا بیٹی سے بات کریں تو پہلے اس کے کندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھیں۔ آپ کی آواز میں محبت ہونی چاہیے۔ آپ کے لمس میں شدت و سختی نہیں بلکہ نرمی و محبت ہونی چاہیے اور اس لمس میں شفقت پدری ہو۔ اس سے آپ کی اولاد کو پیغام امن و امان ملے۔ پدرانہ محبت کی لہر اولاد کے دلوں تک سرایت کر جائے اور انہیں اس بات کا احساس ہو کہ وہ آپ کے وجود کا حصہ اور جز ہیں۔ آپ جب گھر سے باہر جانے لگیں تو بچوں سے ضرور مصافحہ کیجیے، یا جب آپ کے بچے گھر سے باہر نکلنے لگیں تو بھی آپ ان سے ہاتھ ملائیے اور اپنی دعاؤں کے ساتھ انھیں رخصت کیجیے اور ان کے سر پر اپنا دست شفقت رکھیے۔
اب ذرا سا رک کر اپنا جائزہ لیجیے کہ آپ ان گزارشات پر کس حد تک عمل کر رہے ہیں؟
محبت سے بغل گیر ہونا
بچوں کی نفسیاتی حاجات و ضروریات میں سے ایک محبت ہے۔ لازم ہے کہ والدین کی جانب سے اس ضرورت و تشنگی کو پورا کیا جائے۔ والدین اگر بچوں سے محبت نہیں کریں گے تو اس کے نتیجے میں بچوں میں محرومی پیدا ہوگی اور محرومی سے بچوں کے اندر متعدد نفسیاتی روگ اور بگاڑ جنم لیں گے۔ والدین جب اپنے بچوں سے بغل گیر ہوتے ہیں تو اس سے بچوں کو نفسیاتی سکون اور قلبی قرار ملتا ہے، لہٰذا ماں باپ کو اپنی اولاد سے بغل گیر ہونے میں بخل و تردد سے کام نہیں لینا چاہیے۔ یقین جانئے کہ بچوں کو والدین سے معانقہ کرنے اور ان کے ساتھ محبت سے لپٹنے کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی انھیں کھانے پینے اور سانس لینے کی ضرورت ہے بلکہ محبت و چاہت کی حاجت خوراک سے بھی بڑھ کر ہے۔lll (جاری)