اولاد کی ترتیب محبت سے!

تحریر: ڈاکٹر سمیر یونس ترجمہ: محمد ظہیر الدین

بوسہ شفقت

رسولِ رحمتﷺ ایک بار اپنے نواسوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو چوم رہے تھے کہ ایک بدو سردار الاقرع بن حابس آیا۔ اس نے یہ منظر دیکھا تو بہت حیران ہوا۔ اس کے لیے یہ ایک عجیب بات تھی۔ چناں چہ تعجب سے پوچھا: ’’کیا آپؐ اپنے بچوں کو چومتے ہیں؟ میرے دس بچے ہیں، اللہ کی قسم! میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چوما۔ حضور اکرمﷺ نے اس سے فرمایا: ’’اللہ نے اگر تمہارے دل سے اپنی رحمت سلب کرلی ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘

والدین جب بچے کو چومتے ہیں تو اس سے بچے کے قلب و نفس پر رحمت و شفقت چھا جاتی ہے۔ اسے امن و امان کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔ ہم بچوں کو بوسہ دے کر ہی انہیں اپنی محبت و شفقت کے احساس سے سرشار کرسکتے ہیں۔ اگر ہم بچوں کو محبت و شفقت کے بوسے سے محروم کریں گے تو وہم سے دو رہٹیں گے۔ نفرت و بے زاری اور سنگ دلی و سختی ان کے دلوں میں جاگزیں ہوجائے گی۔ وہ بچپن سے ہی دوری اور کم آمیزی میں مبتلا ہوجائیں گے۔ والدین کے بوسہ شفقت سے ہی بچوں کے درد و الم دور ہوتے ہیں۔ ان کے نفسیاتی زخم مندمل ہوتے ہیں اور ذہنی روگ ختم ہوتے ہیں۔ ہم محبت آمیز بوسے سے اپنے بچوں اور بچیوں کو خوشی و مسرت سے ہم کنار کرسکتے ہیں اور انہیں محبت و الفت، رضامندی اور شوق ووارفتگی سے معمور کرسکتے ہیں۔

محبت بھری مسکراہٹ

اولاد کے سامنے ہماری مسکراہٹ بے شمار فوائد رکھتی ہے۔ ہمارے اس تبسم سے انہیں مسرت نصیب ہوتی ہے۔ یوں ہمارے اور ان کے مابین ایک خوش گوار رابطہ استوار ہوتا ہے اور باہم محبت بڑھتی ہے۔ اس مسکراہٹ سے خوشیاں ملتی ہیں اور خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ دلوں کے سرچشمے سے مسرتیں پھوٹتی ہیں۔

والدین سے گزارش ہے کہ آپ ذرا آئینے کے سامنے کھڑی ہوجائیے اور ایک بار مسکرائیے اور پھر آئینے میں دیکھیے۔ ایک بار ترش رو ہوکر آئینے میں دیکھیے اور پھر دونوں کا فرق ملاحظہ کیجیے۔ یقینا والدین کی خندہ پیشانی ان کی مسکراہٹ سے اولاد کو فرحت و مسرت ملتی ہے۔ والدین کے قرب کا حصول اولاد کی دیرینہ تمنا ہوا کرتی ہے۔ یوں ان کے دل ماں باپ کے لیے کھل جاتے ہیں وہ سچی محبت و یگانگت سے مالا مال ہوجاتے ہیں۔ وہ والدین سے سچی محبت کرنے لگے جاتے ہیں۔ جب بچے ہم سے محبت کرتے ہیں تو پھر وہ ہمیں ترجیح دیتے ہیں اور ہماری فرماں برداری کرتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے گھر میں اہل خانہ کے ساتھ، جو طرزِ عمل ہوتا تھا، اس کی عکاسی سیدہ عائشہؓ نے یوں کی ہے:

’’آپ سب سے بڑھ کر نرم دل، مسکرانے اور ہنسنے والے تھے۔‘‘

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلمکا ارشاد ہے: ’’تمہارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے۔‘‘ (ترمذی)

والدین کو چاہیے کہ وہ محبت کے ذریعے بچوں کی تربیت کا ضرور تجربہ کریں۔ اس تربیت میں انھیں یہ اقدامات کرنا ہوںگے:

کلامِ محبت، نگاہِ محبت، محبت بھرا لمس، محبت سے بغل گیر ہونا، بوسہ شفقت اور محبت آمیز مسکراہٹ۔

روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کا گزر کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا جنہوں نے ایک ہرنی کا شکار کیا تھا اور اسے خیمے کے ستون سے باندھ رکھا تھا۔ ہرنی نے آپؐ کو دیکھا تو عرض کی، یا رسول اللہﷺ! میرے دو چھوٹے بچے ہیں، مجھے اجازت دیجیے کہ میں انہیں دودھ پلا آؤں۔‘‘ یہ سن کر آپؐ نے لوگوں سے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو تاکہ یہ اپنے دونوں بچوں کو دودھ پلا لے۔‘‘ ان لوگوں نے عرض کیا، ’’ہمیں اس بات کی کون ضمانت دے گا کہ ہرنی واپس آجائے گی؟‘‘ فرمایا: ’’میں۔‘‘ چناں چہ ان لوگوں نے ہرنی کو چھوڑ دیا، وہ گئی، اپنے بچوں کو دودھ پلایا اور پھر واپس آگئی۔ لوگوں نے اس کو پھر باندھ دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے دریافت فرمایا: کیا آپ لوگ اسے بیچتے ہیں؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ ہرنی آپ کی خدمت میں ہدیے کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔‘‘ چناں چہ انھوں نے ہرنی کو کھول کر آزاد کر دیا تو وہ چلی گئی۔‘‘ (الخصائص الکبریٰ للسیوطی)

اگرچہ بعض علما نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، اس کے باوجود اس داستان کی اصل وہ حکایت ہے جو اپنے دامن میں رحمتوں کے بہا رلیے ہوئے ہے۔ ہمارے رسول کریمﷺ کی اس ہرنی پر شفقت اس کے شیر خوار بچوں پر شفقت و رحمت، پھر اس ہرنی کی اپنے دونوں بچوں سے شفقت۔ ادھر شکار کرنے والوں کی ہرنی اور اس کے بچوں پر شفقت و مہربانی۔ اس حکایت سے اور بھی بہت سے سبق ملتے ہیں جو اپنے مقام و محل میں تجزیہ و تحلیل سے نمایاں ہوتے ہیں۔

سوچئے کہ اگر ایک ہرنی کا اپنے بچوں کے ساتھ یہ سلوک ہے تو پھر انسان کا اپنے بچوں کے ساتھ کیا رویہ ہونا چاہیے۔ ایک بیٹے سے پوچھا جاتا ہے، تم کیا چاہتے ہو؟ اپنی اہم ترین تمنا بیان کرو۔ بیٹا جواب دیتا ہے: ’’میری تمنا یہ ہے کہ میرا باپ گھر سے چلا جائے اور پھر کبھی واپس نہ آئے۔‘‘ بیٹے سے پوچھا جاتا ہے: بیٹے! تم اپنے والد کے بارے میں یہ تمنا کیوں کرتے ہو؟ وہ کہتا ہے اس لیے کہ جب یہ گھر میں آتا ہے تو گھر کی پاکیزہ فضا کو مکدر کردیتا ہے۔ اس کی آمد کے ساتھ ہی ہماری مسرت غمی میں بدل جاتی ہے، خوشی کافور ہوجاتی ہے اور گھر پر غم و اندوہ چھا جاتا ہے۔‘‘

ادھر ایک ’ماں‘ ہے جو اپنے کم سن بیٹے کی خوب پٹائی کرتی ہے پھر اسے گھر سے باہر دھکیل دیتی ہے۔ بچہ شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں گھومتا رہتا ہے۔ کوئی بھلا شخص اس بچے کو ٹیلی وژن کے نمایندے کے سپرد کردیتا ہے۔ بچے کی ماں کو بلایا جاتا ہے تاکہ ٹیلی وژن کا کارندہ اس سے بات چیت کرے۔ ماں آجاتی ہے، بچہ جو نہی ماں کو دیکھتا ہے تو نفرت کی لہر اس کے بدن میں دوڑ جاتی ہے۔ ماں سے بچے کی اس ناگواری کا سبب پوچھا جاتا ہے تو وہ بتاتی ہے: ’’کچھ دن پہلے مجھے طلاق دی گئی تو میں نے بیٹے کو دھتکار دیا، کیوں کہ میری نگاہوں میں دنیا تاریک ہوگئی تھی۔ میں نے اسے باہر دھکیلا اور دروازہ بند کر دیا۔ اس نے بار بار دروازہ کھٹکھٹایا مگر میں نے دروازہ نہ کھولا۔ یہ دروازے پر ہی سوگیا۔ میرا دل پھر بھی اس کے لیے نرم نہیں ہوا۔ جب یہ جاگا تو جدھر منہ آیا، چلا گیا اور آوارہ گھومتا رہا۔‘‘

یہ سن کر مظلوم بچے نے کہا: ’’ماں نے مجھ پر زیادتی کی، مجھے گھر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ مجھے زبردستی گھر سے نکال دیا۔ اب مجھے اس سے ڈر آتا ہے۔ میں آپ لوگوں سے امید کرتا ہوں کہ آپ مجھے اس کے سپرد نہیں کریں گے۔ کیوں کہ یہ ظالم عورت ہے یہ مجھ پر اور زیادہ ظلم کرے گی۔‘‘

ہائے انسان کی سختی و سنگ دلی۔ یہ سختی تو ایک حساس انسان کے دل کو پاش پاش کر دینے والی ہے۔ اس سنگ دلی میں خاص طور پر اس وقت اضافہ ہو جاتا ہے جب یہ ماں یا باپ کی طرف سے اپنے ہی بچوں کے بارے میں روا رکھی جائے۔

دیکھئے یہ ایک ماں ہے جو جوتے سے اپنے بچے کی پتائی کر رہی ہے تاکہ اس کا بچہ قرآن کریم حفظ کرے۔ ادھر ایک والد ہے جو اپنے بیٹے کے چہرے پر تابڑ توڑ تھپڑ رسید کر رہا ہے۔ بچے کا چہرہ زخمی ہو جاتا ہے چہرے کے ان زخموں کو ٹھیک ہونے اور مندمل ہونے میں کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔ باپ بچے کی پٹائی اس لیے کر رہا ہے کہ وہ نمازِ عشا کے بعد فلاں عالم دین کا درس سننے کے لیے کیوں نہیں گیا۔

کس قدر سنگ دل ہے وہ عورت جس نے اپنے بیٹے پر سختی کی، اسے گھر سے باہر نکالا، دروازہ بند کر دیا۔ کس قدر سنگ دل ہیں وہ والدین جو محبت کی جگہ پرتشدد کا استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو رسولؐ اور آپ کے صحابہ کی طرزِ عمل سے کچھ تو سیکھنا چاہیے۔

ماں کے طو رپر ام ہانی کا طرزِ عمل

ام ہانیؓ حضرت علیؓ کی بہن ہیں۔ رسول اللہﷺ نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا توقع یہ تھی کہ وہ اس پیغام کو بلا تردد قبول کرلیں گی۔ کیوںکہ انہیں پیغام نکاح دینے والے اللہ کے رسولﷺ تھے۔ مگر خلاف توقع انھوںنے رسول اللہ کی دنیا و آخرت میں بیوی بننے سے معذرت چاہی۔ یوں وہ ام المومنین (مومنوں کی ماں) بننے کے عظیم شرف سے بھی محروم ہوگئیں۔ انھوں نے معذرت کرتے ہوئے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ اللہ کی قسم مجھے آپ سے بے رغبتی نہیں ہے، مگرمیرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔

ام ہانیؓ نے یہ معذرت اس لیے کی وہ حضورﷺ کی خدمت میں مشغول رہ کر اپنے بچوں کو نظر انداز نہ کردیں یا اپنے بچوں کی پرورش و نگہداشت میں مصروف رہ کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں کوتاہی کی مرتکب نہ ہوں۔ حضورﷺ نے ام ہانی کی نہ صرف معذورت قبول فرمائی بلکہ ان کے اس جذبے کی تعریف و تحسین بھی فرمائی اور ارشاد فرمایا: اونٹوں پر سوار ہونے والی عورتوں میں سب سے بہتر قریش کی عورتیں ہیں، بچے پر اس کے بچپن میں بہت شفیق اور مال میں شوہر کے مفاد کا بہت خیال رکھنے والی۔ (ابوداؤد)

اپنے بچوں کی نگہ داشت کرنے والی عورت مبارک ہے۔

حضور اکرمﷺ فرماتے ہیں: ’’میں اور (کام کاج کی کثرت اور خوراک کی کمی کی وجہ سے) اڑی ہوئی رنگت کے رخساروں والی عورت جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے یہ دونوں۔‘‘ اس ارشاد کے وقت آں حضورﷺ نے اپنی درمیانی اور شہادت کی انگلی کو اس طرح ملایا کہ دونوں میں خلا نہ تھا۔

آپؐ نے ارشاد فرمایا ایسی عورت جو منصب و جمال والی ہو اور اس کا خاوند فوت ہوگیا ہو، اس نے اپنے آپ کو یتیم بچوں کی نگہ داشت کی خاطر روکے رکھا (اور دوسرا نکاح نہ کیا) حتی کہ وہ بچے بالغ ہوگئے یا فوت ہوگئے۔‘‘

آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ’’میں سب سے پہلا شخص ہوں جو جنت کے دروازے کھولوں گا، اچانک کیا دیکھوں گا کہ ایک عورت مجھ پر سبقت لے جا رہی ہے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت سے دریافت فرماتے ہیں تو وہ کہتی ہیں: میں وہ عورت ہوں جس نے اپنے یتیم بچوں کی خاطر بیوگی اختیار کی۔‘‘ دیکھئے یہ خاتون، جنت کا دروازہ کھولنے میں نبی اکرمؐ پر سبقت کرنے والی تھی۔

حضرت معاویہؓ بطور باپ

جلیل القدر تابعی احنف بن قیس ایک دن امیر المومنین حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو انہیں غصے کی حالت میںپاکر پوچھا: امیر المومنین! آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ فرمایا: میں نے اپنے بیٹے یزید کو ڈانٹ ڈپٹ کی ہے، لہٰذا میں اس سے کلام نہیں کروں گا۔‘‘ اس پر احنف بن قیس نے عرض کیا: اے امیر المومنین! یہ ہمارے بچے ہیں، یہ ہمارے جگر کے ٹکڑے ہیں۔ ہم ان کے لیے ہموار زمین اور سایہ دار آسمان ہیں، لہٰذاآپ ان پر غصہ نہ ہوں کہ وہ آپ کی زندگی سے بے زار ہوجائیں اور آپ کے مرنے کی تمنا کرنے لگیں۔‘‘

ماں کی مامتا

علامہ ابن قیم نے کسی عارف کے حوالے سے منقول ایک موثر حکایت ’’مدارج السالکین‘‘ میں بیان کی ہے کہ اس نے راستہ چلتے ہوئے ایک گھر کا دروازہ کھلا دیکھا، دروازے میں سے ایک بچہ روتا ہوا نکلا، وہ فریاد کر رہا تھا مگر اس کی ماں اسے پیچھے سے دھکیل رہی تھی، بچہ جوں ہی دروازے سے باہر نکلا تو ماں نے زور سے دروازہ بند کر دیا اور خود گھر کے اندر چلی گئی۔بچہ تھوڑی دور تک گیا، پھر کھڑا ہوکر کچھ سوچا، اب وہ گھر کی جانب پلٹا، وہ دکھی اور شکستہ دل تھا۔ اپنی ماں کے سوا کہیں پناہ نہ ملی۔ دروازے پر پہنچا تو اسے بند پایا وہ زمین پر لیٹ گیا، اپنا رخسار دروازے کی چوکھٹ پر رکھا اور سوگیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کی ماں نے دروازہ کھولا۔ اپنے گوشہ جگر کو اس حالت میں دیکھ کر وہ اپنے آپ پر ضبط نہ رکھ سکی۔ ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ ماں بے تاب ہوکر بچے کی طرف لپکی، اسے آغوش میں لے کر خوب بھینچا، چومنے اور رونے لگی، وہ کہنے لگی، میرے بچے تو مجھے چھوڑ کر آخر کہاں جاسکتا ہے؟ میرے سوا تجھے کون ٹھکانہ دے گا؟ کیا میں نے تجھے کہا نہیں تھا کہ میرے حکم کی خلاف ورزی نہ کیا کر، میں تو اپنی فطرت وجبلت کی رو سے تجھ پر مہربان ہوں، لہٰذا مجھے اپنی فطرت کے خلاف چلنے پر مجبور نہ کر۔ میں تجھ پر شفقت و رحم کرنے والی ہوں۔ تیری مخلص و خیرخواہ ہوں۔‘‘ یہ کہا، بچے کو اٹھایا اور گھر چلی گئی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں