آخری رات

ڈاکٹر محمد داؤد، نگینہ

ہاں یہ میری آخری رات ہے اپنے ماں باپ کے گھر۔ کل یہ گھر مجھ سے چھوٹ جانا ہے اور میں پرائی ہوجانے والی ہوںیہ دنیا کی ریت ہے۔ ایسے ہی ہوتا چلا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔

اس وقت رات بہت بھیگ چکی ہے۔ چھوٹے بچے سوگئے بڑے ابھی اددہم کاٹتے پھر رہے ہیں۔ بڑی بچیوں کے قہقہوں کی آوازیں اب بھی کبھی کبھی آجاتی ہیں۔ دادی اماں ابھی تک جاگ رہی ہیں۔ مہمانوں کی طرف سے بہت فکر مند ہیں۔ سردی کا موسم ہے اس لیے چاہتی ہیں سب کا معقول انتظام ہوجائے۔ میرے پاس بہت دیر تک میری سھیلیاں اور ہم عمر رشتہ دار بچیاں بیٹھی رہیں اور نیند کے غلبے کی وجہ سے سب ایک ایک کر کے چلی گئیں۔ میری آنکھوں میں دور دور تک نیند نہیں لیکن میں تنہا ہی رہنا چاہتی ہوں اس لیے مجھ سے جس بہن نے چلنے کی اجازت مانگی میںنے بخوشی اس کو اجازت دے دی۔ اب میں تنہا ہوں اور میں نے اندر سے دروازہ بھی بند کرلیا ہے، میں نہیں چاہتی کوئی میرے پاس آئے۔

میں اس وقت ماضی کی پگڈنڈیوں میںگم ہوں۔ بالکل شروع کا بچپن تو مجھے یاد نہیں اور کس کو یاد رہ جاتا ہے۔ یہ تو دوسرے ہی بتاتے ہیں کہ فلاں ایسا تھا اور ایسا تھا مجھے تو بس بچپن کے حالات میں سے اتنا یاد ہے کہ میری بڑی اماں نے مجھے اسکول میں خود لے جاکر داخل کرایا تھا۔ میں ہر سال ایک درجہ آگے بڑھتی گئی۔ ہائی اسکول میں جب آئی تو کافی بڑی ہوچکی تھی۔ میں اچھے نمبروں سے پاس ہوئی اور انٹر میں داخلہ لے لیا۔ میرے ابو امی نے بڑے شوق سے مجھے پڑھایا اور انٹر کے بعد جب میں نے ان سے اپنی تعلیم جاری رکھنے کی بات کہی تو وہ اس کے لیے بخوشی تیار ہوگئے۔ بلکہ ابو نے جو خود بہت کم پڑھے لکھے ہیں یہ کہا کہ بیٹی جہاں تک چاہو پڑھ لو اور جو جی چاہیے پڑھو پھر زندگی بھر موقع نہیں ملے گا۔ میں نے بی اے میں داخلہ لے لیا لیکن داخلہ لیتے ہی میرے کانوں میں بہت غیرمانوس آوازیں آنے لگیں۔ کبھی کبھی میں اجنبی عورتوں کو دیکھتی تو اماں سے تو نہیں بڑی اماں سے سوال کر بیٹھتی۔ یہ کون صاحبہ تھیں اور کیوں آئی تھیں۔ بڑی اماں نے پوری بے تکلفی سے بتا دیتیں کہ تمہارے رشتے کے لیے آئی تھیں۔ جواب تو میںنے سن لیتی پر اس کے بعد میرے اوپر کیا گزرتی، میں ہی جانتی ہوں۔ کیا یہ گھر مجھ سے چھوٹ جائے گا۔ کیا یہ میرے چھوٹے بہن بھائی مجھ سے الگ ہوجائیں گی۔ کیا اپنے ماں باپ کے یہاں مہمان بن جاؤں گی، اس طرح کے نہ جانے کتنے سوالات میرے ذہن میں پیدا ہونے لگتے۔ آج رات وہ سارے سوالات میرے ذہن میں یکے بعد دیگرے ہل چل مچا رہے ہیں۔ وقت تیزی سے گزرنے لگا۔ میرا گریجویشن پورا کیا ہوا میری رخصتی کی باتیں بھی تیزی سے ہونے لگیں اور نوبت یہ آئی ہے کہ یہ آخری رات ہے۔ کل پرسوں سے ہی مہمانوں کا سلسلہ جاری ہے آج اور بڑھ گیا۔

میں نے اپنے وقت کو ضائع نہیں کیا، میرے غریب ماں باپ نے میرے تعلیمی شوق کو تکمیل تک پہنچانے میں ان تھک محنت کی۔ میں نے بھی پوری کوشش کی کہ میں ان کی ذمہ داری کے وزن کو کسی حد تک بانٹ سکوں۔ میں نے ایک ادارے میں معلمہ بن جانا زیادہ بہتر سمجھا بجائے اس کے کہ میں والدین سے اخراجات کا مطالبہ کروں۔

معلمہ کی ذمہ داریوں نے میری آنکھیں کھول دیں۔ صبح میں چند منٹ قرآن کا اور کبھی احادیث کا درس دینا میرے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئے۔ قرآن پڑھ کر میرے لیے اللہ کے دین پر چلنا آسان ہوگیا۔ میں بچوں کو اچھے اچھے قصے سناتی، کبھی تاریخ اسلام سے اور کبھی قرآن کریم سے۔ رفتہ رفتہ مجھ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ قرآن کتاب عمل ہے اس کی ہر بات سچی اس کا ہر اصول پختہ ہے۔ میں نے اپنی ٹیچرس کو ہم خیال بنانا شروع کیا اور ان کے سامنے یہ بات رکھی کہ کیوں نہ ہمارا ادارہ ایک واقعی مثالی ادارہ بن جائے۔ یہاں کے طلبہ طالبات بہترین کردار کے حامل ہوں اور تعلیم میں اپنا ثانی نہ رکھتے ہوں۔ بھلے ہی ہمارا ادارہ پانچویں کلاس تک کا ہے پر ہم بچوں میں بنیادی طور سے آئندہ کے لیے بہت کچھ شعور دے سکتے ہیں۔ ہم ان کو اگر آگے برھنے کی لگن دے سکیں تو یہ سب سے بڑا کام ہوگا۔ اور ہم ایک بہت عظیم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوسکیں گے۔ میں نے بچوں کو اسی نہج پر بتانا اور پڑھانا شروع کر دیا۔ بچوں کو یہ بات بڑی عجیب سی لگی۔ کوئی بچہ کہتا کیا ہم بھی وکیل اور ڈاکٹر بن سکتے ہیں؟ کوئی کہتا کیا ہمارے پاس بھی ایک بڑھیا سی کار ہوسکتی ہے؟ کوئی کہتا کیا ہم بھی دنیا کی سیر کرنے والے اور چاند کا سفر کرنے والوں میں سے ہوسکتے ہیں۔ میں سب کو تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کرتی اور ان کو بتاتی کہ یہ تب ہی ممکن ہے جب کہ تم میں ایک طرف تو تعلیم کا زبردست شوق ہو اور دوسری طرف سلیقہ، ادب، تمیز، اخلاق اور اچھی عادتیں ہوں۔ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیم کو ہم دل سے تسلیم کرلیں اور ان پر عمل پیرا ہوجائیں۔ نتیجتاً تم اپنے نیک ارادوںمیں انشاء اللہ کامیاب ہوگے۔ اللہ تو نیتوں کے ساتھ ہے اور دوسری بات یہ کہ نیک چلنی، ایمانداری اور محنت کا پھل یہ بھی ملے گا کہ ایک پرامن اور صالح معاشرہ وجود میں آئے گا جو ہماری سب کی خواہش اور آرزو ہے اور ہونی چاہیے۔

کچھ عرصہ بعد مجھ کو صدر معلمہ (پرنسپل) کا عہدہ بھی تفویض کر دیا گیا کیوں کہ پرنسپل صاحبہ لمبی رخصت پر چلی گئی تھیں۔ میں نے اس فرض کو بھی بخوبی نبھانے کا عزم کرلیا اور کوشش کی کہ وقت کی پابندی اور فرض کی ادائیگی میں میری جانب سے کسی کو کوئی شکایت نہ ہو۔ الحمد للہ ہمارے ادارے میں نکھار آنے لگا اور بچوں کی ایک ایک بات پر توجہ دی جانے لگی۔ ہماری ایک معلمہ اللہ ان کو سلامت رکھے یہاں تک آگے بڑھیں کہ بچوں کی میلی قمیصیں اتروالیتیں اور ان کو خود دھوتیں اور دھوپ میں سکھا کر بچے کو گھر بھیجتیں۔ کبھی بچوں کے کاج بٹن بھی دیکھتیں اور یہ سب کام انٹرول میں بڑی سرعت اور پھرتی سے انجام دیتیں۔ ایک دن تو یہی معلمہ کہنے لگیں: باجی میں تو بچوں کے سر دھوتے دھوتے تھک گئی کچھ بچے تو بہت گندے ہیں اور بال بھی بہت بڑھے ہوئے ہیں پھر کیا تھا فوراً حجام کو بلوالیا گیا اور چودہ بچوں کے بالوں کی کٹنگ کرائی گئی اور یہ سب خرچ اسکول سے دیا گیا۔ ایک منجن کی بڑی سی شیشی بھی منگوائی گئی اور دانت صاف کروانا ضروری قرار دیا گیا، ان سب تبدیلیوں سے ماں باپ بہت خوش ہوئے ہاں ایک بار یہ بھی ہوا کہ اسکول بیگ بازار سے منگا کر اسی قیمت پر بلکہ اس سے بھی کم قیمت پر بچوں کو دیے گئے۔ والدین یہ سب تبدیلیاں دیکھ رہے تھے کہ ہمارے بچے اسکول سے اس سے زیادہ صاف ستھرے آتے ہیں جتنے صاف کہ ہم ان کو یہاں سے بھیجتے ہیں اور پھر یہ کہ آتے جاتے سلام کرتے ہیں یہاں تک کہ راستے میں کوئی اپنے سے سینئر ملتا ہے یا بزرگ ملتے ہیں ان کو بھی سلام کرتے ہیں۔

یہ تمام سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ میرے بارے میں گھر میں چے میگوئیاں اور بڑھنے لگیں اور اب تو باقاعدہ شادی کا لفظ بار بار زبان پر آنے لگا۔ میں شادی کے بڑھتے ہوئے ذکر سے بہت ڈرنے اور کانپنے لگی اس لیے نہیں کہ شادی کوئی مصیبت یا آفت ہے۔ وہ تو ہونی ہی ہے اور ہونی چاہیے بھی لیکن ابھی تو میں کچا پھل ہوں۔ نہ میں اتنا علم حاصل کرسکی ہوں جتنا کہ میرا ارادہ ہے نہ میں معاشرے میں وہ تبدیلی ہی لاسکی ہوں، جو پیش نظر ہے۔ ابھی تو میری ہم خیال صرف چند معلمات ہیں اور کچھ اور ہم عمر بچیاں اور پھر گھر کے اندر بھی تو کوئی خاص تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ معاشرت اور رسم و رواج کا وہی ڈھرا ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔ تقریبات کے موقع پر تو خوشی کے نام پر ہر بے ہودگی جائز اور واجب ہوجاتی ہے۔ میں بہت ڈرتی تھی کہ کہیں میری شادی میں بھی یہ سب خرافات نہ ہونے لگیں لہٰذا میں نے بات میں بات نکال کر اس طرح کا ذکر گھر میں چھیڑنا شروع کر دیا۔ ہمارے ماموں جان نے ایک دن اسکول ہی میں ہم سب معلمات کو بٹھا کر خطبہ نکاح اور اس کا ترجمہ ہم کو بتایا۔ ہمیں بہت اچھا لگا۔ یہ تو نئے خاندان کے لیے سامانِ سفر اور زادِ راہ ہے۔ اس سے بڑھ کر تو زادِ سفر ہو ہی نہیں سکتا کہ تقویٰ ڈر اور اللہ کی محبت ہمارے شامل حال ہو۔ شادی بیاہ کے موقعے پر خواتین کو تو اس خطبہ کی ہوا بھی نہیں لگتی۔ ترجمہ کیا اس کا متن بھی سننے کو نہیں ملتا۔ اگر یہ مائک پر بیان کیا جائے تو سارے ہی اہل محفل اس کو سنیں۔ میں نے گھر میں کچھ اس طرح کا انجکشن لگایا اور جب ہمارے ماموں جان گھر آئے اور ایسی کچھ باتیں کرتے تو میں اپنے چچا تاؤ سے کہتی لو سن لو کیا کہہ رہے ہیں ماموں جان۔ خرافات بنام خوشی کے تعلق سے اپنے تایا اور چچا زاد بھائیوں کو کچھ بتانے کی کوشش کرتی۔ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی کبھی کبھی سیدھا رہنے کی تلقین کرتی پر یہ سب میری بات پر کوئی خاص توجہ نہ دیتے۔ رہی والدہ، چچی اور تائی وغیرہ وہ تو رسموں کا کیڑا، لکیر کی فقیر بنی ہوئی ہیں۔ فکر ہے تو بس ایک ہے میری بیٹی کی کوئی ضرورت کی چیز رہ نہ جائے۔

مثل مشہور ہے بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی۔ آخر ایک دن میری رخصتی کی تاریخ طے ہوگئی اور اپنے والدین کے گھر میں قیام کی مدت ایک ایک دن کر کے ختم ہونی شروع ہوگئی۔ میں نہ زبان کھول سکتی تھی نہ لڑ جھگڑ سکتی تھی۔ میری نامکمل تعلیم میرے والدین کے تئیں کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی بے راہ روی کو ان سے کچھ لینا دینا ہی نہیں تھا اور پھر ایک دن یہ شاہی احکام جاری کر دیا گیا کہ کل سے آپ کا اسکول جانا بند اور بس اپنے کمرے میں رہنا ہے۔

اب میں اپنے کمرے میں بند ہوں، زیادہ تر مہمان آچکے ہیں جو باقی ہیں صبح تک آجائیں گے۔ مقامی لوگ تو دن کے دن ہی شریک ہوجائیں گے۔ میرے ننہیال کے لوگ اور ان کے لواحقین بھی آچکے ہیں۔ میں ڈر رہی ہوں یہ سب میرے ہم عمر جو مجھ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں کہیں اپنے اظہارِ محبت میں ہمارے مقامی نظم و ضبط کو متاثر یا خراب نہ کردیں اور ایسا ہوا تو خود مقامی لوگوں کو خاص کر گھر کے ہی نوجوانوں کو بڑا حوصلہ مل جائے گا اور پھر انہیں قابو میں کرنا بڑا مشکل ہوجائے گا۔

لو، جس کا ڈر تھا، وہ ہنگامہ شروع ہوگیا۔ میرے کمرے سے بچا ہوا اُپٹن کیا نیچے گیا ایک دم چھین جھپٹ شروع ہوگئی۔ اس وقت زبردست شور ہے۔ قہقہے گونج رہے ہیں۔ اپٹن ختم ہوگیا تو ایک نوجوان نے باورچی خانے سے انڈا اٹھا کر دوسرے کے چہرے پر مل دیا پھر کیا تھا جو آٹھ دس انڈے رکھے تھے سب ایک دوسرے پر پھینکے جانے لگے۔ ایک نوجوان کے سارے کپڑے خراب ہوگئے تو وہ دوڑ کر باہر کھمبے کے نیچے والی دوکان پر گیا اور پچاس روپے کے انڈے خریدے کچھ خود لیے اور کچھ اپنے دوسرے ساتھیوں کو دیے اور پھر جو انڈوں کی مار مار ہوئی ہے تو کچھ مت پوچھئے۔ میں بیٹھی ہوئی کانپ رہی ہوں۔ مجھے پل پل کی رپورٹ مل رہی ہے۔ میرے اللہ کیا یہی ہماری تربیت ہے۔ کیا یہی ہمارا دین ہے۔ ہم کیسے باولے ہوگئے۔ برسوں کی محنت کیسی خاک میں مل رہی ہے۔ میرے اللہ اس معاشرے کا کیا ہوگا، جو تیرے رسول نے بڑی محنت اور جاں فشانی سے قائم کیا تھا۔ پروردگار یہ بے ہودگی اور بے پردگی ہم کو تو اس کا وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ پروردگار میں کیا یادیں لے کر جا رہی ہوں۔ کہیں میرے نئے گھر کے لوگوں نے مجھ سے کچھ سوال کر لیے تو کیا جواب دوں گی۔ کیا اسکول کی سند اور کالج کی ڈگریوں سے میں ان کا منہ بند کرسکوں گی۔ کیا میرا یہ ڈھیر سارا جہیز میرے لیے رفع شکایات کی کوئی دلیل بن سکے گا۔ میں سخت شش و پنج میں ہوں۔ ہنگامہ تو اب سرد پڑ چکا ہے، آدھی سے زیادہ رات گزر چکی ہے۔ نیند آنکھوںسے کوسوں دور ہے۔ میں یہی سوچ رہی ہوں مجھے سب کچھ دیا جا رہا ہے لیکن میں تعلیم و تربیت کے تعلق سے کیا لے کر جا رہی ہوں۔ میرے اوپر ہلدی اور پوسٹ کا اپٹن کاش نہ ملا جاتا۔ کس سے کہوں یا کیوں ہم بچیوں کو اس ڈھیر سارے سامان کی ضرورت نہیں۔ ہمیں کو تہذیب دو۔ تعلیم دو۔ میری ہم عمر نہ جانے کتنی ہیں جو گھروں میں بیٹھی ہیں۔ ان کے ماں باپ ان کو دیکھ دیکھ کر کڑھ رہے ہیں کہ کس طرح سے ہم اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کریں۔ معاشرے کے’’بڑے‘‘ لوگوں نے اپنی لمبی چوڑی تقریبات کے ذریعہ ہم غریب بچیوں کی شادی بیاہ کو ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنا دیا ہے۔ ادھر بڑے لوگوں کی اولاد بالخصوص بچیوں کا حال یہ ہے کہ دین سے ناآشنا۔ اپنی تاریخ سے ناآشنا۔ اپنی روایات سے نا آشنا، لے دے کے قرآن اگر پڑھ بھی لیا ہے تو اس کے مطلب و معنی سے بالکل کوری۔ سیرت سرورِ عالمﷺ کی مبارک زندگی سے بالکل بے تعلق۔ میں نے اپنی ایک سہیلی سے جس نے ایم فل کیا تھا پوچھا کہ اللہ کے رسول کی زندگی پر کوئی کتاب پڑھی تو میرا یہ سوال اس کو انتہائی ناگوار لگا۔ ایک ایم ایس سی طالبہ سے میں نے معلوم کیا کہ آپ نے قرآن شریف تو پڑھ لیا ہوگا۔ کہنے لگیں کیوں نہیں اری بہن الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں اور قرآن کیسے نہ پڑھیں گے۔ اچھا تو یہ بتائیے ترجمہ سے کتنا پڑھا ہے اس پر وہ کوئی معقول جواب نہ دے سکیں۔ ہماری اعلیٰ تعلیم یافتہ نسل کا یہ ہے دین سے تعلق۔

خیر، رات کا سناٹا اب کچھ اور گہرا ہوگیا ہے۔ کبھی کبھی کسی شیر خوار بچے کی رونے کی آواز آجاتی ہے۔ دور شہر کی جامع مسجد کے گھنٹے نے ابھی ابھی چار بجائے ہیں۔ تہجد کا وقت ختم ہونے میں ابھی تقریباً آدھا گھنٹہ باقی ہے۔ یہ وقت اپنے اللہ سے سرگوشی کا بڑا ہی خاص وقت ہوتا ہے۔ اللہ نے اپنے مخصوص بندوں کی صفات میں اس صفت کو بہت نمایاں انداز میں بیان فرمایا ہے۔

میں تہجد سے فارغ ہوچکی ہوں۔ میری یہ آخری رات اب بس ختم ہی ہونے کو ہے۔ اس کے بعد صبح صادق ہوگی، دن نکلے گا، آہستہ آہستہ میری رخصتی کا ماحول بننا شروع ہوجائے گا۔ اور پھر اس ہنگامے میں وکیل اور گواہان سامنے آکھڑے ہوں گے اور مجھ سے میری مرضی میری اپنی زبان سے کہلوائی جائے گی اور ’’ہاں‘‘ کہتے ہی میں پرائی ہوجاؤں گی۔ جس گھر میں پلی بڑھی اس میں اب مہمان بن کر آؤں گی۔ یہاں کے رشتے ناتوں کے تعلق سے اب دوسرے کی اجازت کی محتاج ہوں گی۔ اب مجھے وہی کچھ کرنا ہوگا جو مجھ سے کرایا جائے گا۔ نیا سفر ہوگا اور نیا ہم سفر۔ خدا سے یہی دعا ہے وہ میرے ہم سفر کو میرا ہم خیال بھی بنا دے۔ اس طرح سے کہ ہم خدا اور رسول کی نظر میں دنیا میں بھی کامیاب و سرخ رو ہوں اور آخرت میں بھی۔

لو۔ اذان کی آواز بھی آنے لگی۔ موذن اللہ کی حاکمیت و کبریائی کا اعلان کر رہا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے۔ بے شک وہ سب سے بڑا ، سب حاکموں کا حاکم روز جزا کا مالک، اور بڑا ہی رحم کرنے والا ہے۔موذن کہہ رہا ہے نماز سونے سے بہتر ہے۔ اور میں تو جاگ ہی رہی ہوں۔ ایک نئی صبح کے انتظار میں یہ میری آخری رات ختم ہوگئی۔ الوداع اے رات الوداع، آخری شب الوداع، الوداع اے آخری رات الوداع۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں