آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

عتیق الرحمن صدیقی

مادیت کی ظاہری چکا چوند اور دل فریبی تو ملاحظہ کیجیے کہ انسان اس کے رنگ و بو میں ایسا الجھا اور اس کی سحر انگیزی سے ایسا مسحور ہوا کہ فیصلہ نفع و ضرر کی ملی صلاحیتیں افلاس کا شکار ہونے لگیں، اس کے خیالات میں ایسا تلاطم بپا ہوا کہ اسے نہ تو گفتار کے اسلوب پر قابو رہا اور نہ اپنے کردار کی جہت کو راست روی پر کاربند کرسکا۔ متنوع خیالات کے ہجوم کی بدولت وہ اپنے ہیجان کا درماں کرنے سے بھی قاصر رہا:

گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا

جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات

انسانیت کو عزو افتخار سے نوازا گیا تھا۔ خشکی اور تری میں اس کا کوئی مثیل نہ تھا۔ فردوس بریں اس کا مسکن تھی، و لقد کرمنا بنی آدم کے شرف سے وہی مشرف تھا۔ رب کریم نے فرمایا: ’’شاہد ہیں جبل تین، کوہ زیتون اور طور سینین اور یہ پرامن سر زمین کہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر بنایا۔ پھر ہم نے اسے ادنیٰ درجہ میں ڈال دیا جب کہ وہ خود گرنے والا بنا۔‘‘ (التین)۔

وہ انسانیت کی معراج پر تھا۔ چناں چہ فرشتے اس کے سامنے سر بہ سجود ہوگئے۔ خلافت کی خلعت فاخرہ سے اس کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا۔

وہ فرشتوں کا معلم تھا۔ اسے جو اعزاز ملا وہ اس کا نہایت قیمتی اثاثہ تھا۔ جب وہ سنبھل کے چلا تو قوموں کی امامت اور سیادت اس کا مقدر تھی۔ عقیدۂ توحید اس کے ماتھے کا جھومر تھا۔ اسے اپنی پہچان عزیز تھی۔ وہ ارض و سما کے خالق کی چوکھٹ کے سوا کسی دہلیز پر سرنگوں ہونے کے لیے آمادہ و تیار نہ تھا۔ وہ صرف اپنی اقدار پر نازاں تھا مگر جب اس نے ایک سجدہ کو گراں سمجھا تو لڑکھڑانے لگا اور ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر گیا۔

انسانیت نام ہے حسن کردار کا۔ اگر یہ حسن ماند پڑ جائے تو انسان کا تشخص نیست و نابود ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس نے بہ ظاہر انسان کا بہروپ دھار رکھا ہوتا ہے مگر در حقیقت وہ حیوان ہوتا ہے۔

حرص، طمع، خود غرضی، رشوت ستانی، نشہ بازی، کمینہ پن، غیظ و غضب اور ایسی ہی دوسری خصلتوں میں جو لوگ غرق ہو جاتے ہیں وہ اخلاقی حیثیت میں فی الواقع سب نیچوں سے نیچ ہو جاتے ہیں۔ کیا آپ نے دیکھا کہ جب ایک قوم دوسری قوم کی دشمنی میں اندھی ہوجاتی ہے تو کسی طرح وہ درندگی میں تمام درندوں کو مات کر دیتی ہے۔

دنیا کی ترقی یافتہ قوتوں کو دیکھئے کہ انہوں نے دہشت گردی کے نام پر دہشت گردی کی انتہا کردی۔ لاکھوں افراد ان کی دہشت کی نذر ہوگئے۔ غزہ میں ہوئی سفاکیت کو ملاحظہ کیجئے کہ اس نے بہیمیت کی انتہا کردی۔ افغانستان و عراق میں جس طرح آتش و آہن کی بارش کی، مصر میں بیگانوں کے نہیں، اپنوں کے ہاتھوں ہزاروں انسانوں کا قتل عام اور شام میں جو خونیں منظر دیکھنے کو ملا تو کیا نوع بشر اس پر شرمندہ نہ ہو؟ یہود و نصاریٰ کی اسلام اور مسلم دشمنی اپنی جگہ ہے مگر انسانیت اور حیوانیت کی حدود کو تو ہم نے بھی گڈمڈ کر دیا۔ دوسرے ہمارا خون بہاتے ہیں۔ ہم دوسروں کا نہیں بہا سکتے تو خود اپنوں کا بہانے لگے ہیں ’’سیاست میں تو خون مباح ہے‘‘ مگر دین کے نام پر خون بہانے کا کیا جواز؟ ہم نے وہ بھی شروع کر دیا۔ شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی اور فرقہ پرستی نے ہمارے دین کو تہس نہس کر کے ہمیں آمادۂ جنگ کر دیا۔ اگر ہم ان لرزہ خیز مظالم کے بعد بھی کوئی انسان انسانیت کا محسن کہلائے اور ظلم و ستم کو تاویلات کا لبادہ اوڑھا کر کسی بھی طرح سے اس کا جواز تلاش کرے تو کیا یہ ایک عظیم المیہ نہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ ایمان، عمل صالح، توصیت حق اور توصیت صبر کے بغیر انسان خسارے میں ہے۔ یہ اس کا فرمان ہے، جس نے جن و انس اور پوری کائنات کو پیدا کیا اس نے انسان سے مخاطب ہوکر کہا:

’’اے انسان کس چیز نے تجھے اپنے رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا، جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے اس طرح سے درست کیا۔ تجھے متناسب بنایا اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا؟ ہرگز نہیں بلکہ (دراصل با ت یہ ہے کہ) تم لوگ جزا و سزا کو جھٹلاتے ہو حالاں کہ تم پر نگراں مقرر ہیں۔ ایسے معزز کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں۔‘‘ (الانفطار)

یہ انتشار و خلفشار، قتل و غارت، انسانی خون کی ارزانی، یہ بدامنی، یہ مایوسی و بے چینی، یہ سب جہاں دوسروں کا کیا دہرا ہے وہیں اپنا رول بھی کچھ کم نہیں ہے۔ کاش کہ ہم حقیقی معنوں میں شرم سار ہوں، نم ناک آنکھوں کے ساتھ بارگاہِ رب العزت میں دست بدعا ہوں۔ سچی توبہ ہی ہمارے دردوں کا مداوا اور ہمارے دکھوں کا علاج ہے:

اس دل پہ خدا کی رحمت ہو، جس دل کی یہ حالت ہوتی ہے

اک بار خطا ہو جاتی ہے سو بار ندامت ہوتی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں