میرا پورا بچپن اور آدھا لڑکپن انگریزی دور میں گزرا ہے۔ پہاڑی علاقے میں واقع میرا گاؤں ضلعی ہیڈ کوارٹر سے دس میل دور تھا۔ سڑک، ٹرانسپورٹ، بجلی، گیس، ریڈیو، اخبار، ٹیلی فون، ٹی وی نام کی کوئی سہولت نہ تھی۔
چوپالوں میں گفتگو عموماً مویشیوں، فصلوں، کھیتوں کھلیانوں، میلوں ٹھیلوں، مذہبی تہواروں، مرغوں اور کتوں کی لڑائی، شادی بیاہ کی رسومات، لڑائی جھگڑوں، بارش، قحط سالی جیسے موضوعات کے ارد گرد گھومتی۔ جب موضوعات ختم ہونے لگتے تو کوئی من چلا بھوت پریت اور چڑیلوں کا کوئی پرانا قصہ چھیڑ دیتا۔ پھر سنے سنائے سینہ بہ سینہ سفر کرتے قصے ختم ہونے میں نہ آتے۔ رات بھیگ جاتی اور چوپال خالی ہوجاتے۔
میرے ابا جی خاصے تعلیم یافتہ فوجی تھے۔ ہندوستان بھر کی مختلف چھاؤنیوں اور کئی بیرونی ممالک میں فرائض انجام دے کر ریٹائر ہوئے۔ عمل پسند انسان تھے، بھوت پریت اور چڑیلوں کے قصوں کو انسانی ذہن کا واہمہ اور محض فرضی داستانیں خیال کرتے۔ ہمیں بھی یہی تعلیم دی کہ کوئی واقعہ سمجھ میں نہ آرہا ہو تو سائنسی بنیاد پر اس کی تحقیق و تجزیہ کرو اور معاملہ کی تہہ تک پہنچو۔ کبھی ایسے واقعہ کو بھوت پریت یا کسی چڑیل کی واردات خیال نہ کرو۔ یہ تعلیم ہمارے ذہن میں راسخ ہوگئی۔ لیکن زندگی میں دو واقعات ایسے پیش آئے کہ قدم ڈگمگانے لگے۔
۱۹۶۴ء میں شدت کی سردی پڑ رہی تھی۔ میں ایک قصبہ میں بطور داروغہ جنگلات اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ پہاڑی جنگل وسیع و عریض رقبہ پر مشتمل تھا۔ اس کی قریب ترین حد میرے ہیڈکوارٹر سے چار میل دور تھی۔ آنا جانا پیدل ہوتا۔ جنگل کی آخری حد ملحقہ ضلع کی حدود کے ساتھ ۱۸ میل دور تک چلی گئی تھی۔
ایک دن غروب آفتاب سے کچھ دیر قبل ایک مخبر میرے پاس آیا۔ اس نے اطلاع دی کہ آج رات کسی وقت لکڑی چور جنگل کے مخصوص حصے سے لکڑی کاٹ کر اونٹوں پر لاد کر ملحقہ ضلع کی حدود پار کریں گے۔ وہ لکڑی نزدیکی قصبات میں فجر کے وقت گلیوں میں چل پھر کر فروخت کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا جنگل کے اس حصے کی پہرے داری مجھے ہی کرنی پڑی۔
رات کا کھانا کھاکر میں چاندنی رات میں جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ آبادیوں سے ہٹتے ہوئے مخبر کے بتائے جنگل میںپہنچ گیا۔ کافی دیر تک اونٹوں کے بلبلانے اور انسانی آوازوں پر کان لگائے رکھے۔ لیکن کوئی آواز نہ آئی۔ نصف شب بیت گئی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ یا تو مخبری غلط تھی یا لکڑی چور میرے پہنچنے سے قبل واردات کر کے جاچکے تھے۔ چھ میل دور وہ قصبہ واقع تھا جہاں لکڑی فروخت کی جانی تھی۔ لہٰذا میں نے وہیں جانے کا فیصلہ کیا۔ بہ وقت سحر میں منزل کے قریب پہنچ گیا۔ میں قصبے سے جڑے وسیع قبرستان سے گزر کر آگے جانے کا ارادہ کیا۔ ابھی چاند غروب نہیں ہوا تھا اور خاصی دور تک دیکھنا ممکن تھا۔ قبرستان میں داخل ہوکر چند ہی قدم چلا تھا کہ مجھے اپنے عقب میں عجیب سی ناما نوس چاپ سنائی دی۔ میں نے پیچھے دیکھا تو کچھ بھی نظر نہ آیا۔ میں اسے اپنا واہمہ سمجھا اور پھر آگے کی طرف قدم بڑھائے۔ فوراً ہی وہ مخصوص آواز میرے عقب میں آنا شروع ہوگئی۔ دوبارہ پیچھے مڑ کر دور تک دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا۔ یہ کسی انسان یا جانور کے قدموں کی چاپ نہ تھی۔ میرے رکنے پر آواز بند ہوجاتی اور چلنے پر دوبارہ آنے لگتی۔ میرا ماتھا پسینہ سے تر ہوگیا۔ قمیص کا گلا اور کالر بھی بھیگ گیا۔ میںنے کمر سے بندھی پیٹی سے اپنا پستول نکالا اور دائیں ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ لیا۔ میگزین گولیوں سے بھروا ہوا تھا۔ زبان پر آیت الکرسی کا ورد جاری ہوگیا۔ دل دھک دھک کر رہا تھا۔ دل کی دھڑکن سینے سے باہر بھی سنائی دے رہی تھی۔ اب اس بھوت یا چڑیل سے مکالمہ یا مقابلہ ناگزیر ہوچکا تھا۔ میںنے پہلو کے بل چلتے اور ساتھ ہی پیچھے دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ جوں ہی میں نے قدم بڑھائے تو مجھے محسوس ہوا کہ آواز میرے قدموں کے انتہائی قریب سے آرہی ہے اور کوئی شے میرے جوتوں سے لپٹنا چاہتی ہے۔ میں نے جھک کر چاروں طرف دیکھا تو معاملہ حل ہوگیا۔ قبرستان میں خود رو گھاس پھوس اور جڑی بوٹیوں کے خشک حصے جابجا موجود تھے۔ ایک ہلکی سی ہلکے زرد رنگ کی کم وزن ٹہنی میری گرم چادر کے پلو کی جھالر میں اٹک گئی تھی۔ بے دھیانی میں میری چادر کا ایک سرا کھسک کر زمین کے برابر آگیا تھا۔ چناں چہ وہ ٹہنی جھالر میں الجھ گئی۔ اور چلتے وقت میرے پیچھے سرسراہٹ پیدا کرنے لگی۔ میںنے ٹہنی جھالر سے جدا کی چادر کندھے پر ڈالی، پستول واپس پیٹی میں اڑسی اور آرام سے قبرستان پار کر گیا۔
دوسرا واقعہ ۱۹۷۷ء کا ہے۔ کرائے کے تین مکان تبدیل کرنے کے بعد ایک بہتر گھر دستیاب ہوگیا۔ یہ مکان ایک طویل عرصے سے خالی پڑا تھا۔ ہمنے یہ مکان بڑی تگ و دو اور سفارشوں سے حاصل کیا۔ مالکان کھاتے پیتے لوگ تھے، انہیں کرائے کی معمولی رقم سے غرض نہ تھی۔ مکان کافی کھلا تھا، بڑے بڑے کمرے، برآمدہ اور بڑا سا صحن تھا۔ ایک کمرے کو جس کا دروازہ برآمدہ میں کھلتا تھا، ہم نے مرغیوں کے لیے رکھ چھوڑا۔ مئی کا مہینہ تھا اور خاصی گرمی پڑ رہی تھی۔ دن لمبے ہوگئے تھے۔ بچے اسکولوں سے واپس آتے تو ہم کھانا کھاکر کچھ دیر کے لیے سو جاتے۔ اس دوران مرغیوں کو بلی وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کے مخصوص کمرے میں بند کر دیا جاتا۔ کمرے میں لکڑی کا دروازہ تھا۔ اس دور کے مطابق دروازے کے ایک پٹ میں قد آدم اونچائی پر زنجیر نما لوہے کی کنڈی لگی تھی۔ کمرہ بند کرنے کی خاطر زنجیر نما کنڈی کا اوپر والا سرا، چوکھٹ کے بالائی حصہ میں لگی فولادی کنڈی میں پھنسا دیا جاتا۔ بالائی کنڈے میں بڑا سا سوراخ تھا، جس میں بوقت ضرورت تالا لگانا ممکن تھا۔ زنجیر نما کنڈی جب استعمال میں نہ ہوتی تو دروازے پر ایک تختے کے ساتھ لٹکتی رہتی۔
ایک دن میں سوکر اٹھا تو دیکھا کہ مرغیاں صحن میں پھر رہی ہیں اور ان کے کمرے کا دروازہ کھلا ہے۔ میں سمجھا کہ شاید آج بچیاں مرغیوں کو بند کرنا بھول گئیں۔ شام کو ان سے پوچھا تو بڑی بیٹی نے بتایا، اس نے خود مرغیاں بند کر کے کنڈی لگائی تھی۔ دوسرے دن پھر یہی ماجرا پیش آیا۔ مرغیوں کی پڑتال کی تو تعداد پوری تھی۔ اگلے روز پھر مرغیاں کمرے میںبند کر کے باہر سے کنڈی لگائی گئی۔ بچوں کا ہوم ورک کچھ زیادہ تھا۔ وہ سونے کا پروگرام ملتوی کر کے برآمدے میں بیٹھ کر لکھنے پڑھنے لگے۔ میں بھی ان کے اسکول کا کام دیکھنے لگا۔ میری اہلیہ چھوٹی بچی کو لے کر پاس ہی بیٹھی تھیں۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ مرغیوں والے کمرے کے دروازے کی باہر والی کنڈی خود بخود ’’کڑنگ‘‘ کی آواز کے ساتھ اوپر والے کنڈے سے نکل کر نیچے آرہی اور تختے کے ساتھ جھولنے لگی۔ یہ دیکھ کر ہم سب ششد رہ گئے۔ دروازے کے دونوں تختوں کے درمیان خلا پیدا ہوا اور ساری مرغیاں پھڑپھڑاتی ہوئی برآمدہ پار کر کے صحن میں چلی گئیں۔ ہم یہ سب غیر متوقع واقعہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ہمیں فوراً یہ خیال گزرا کہ یہ کسی غیر مرئی نادیدہ قوت کی کارستانی ہے۔ میری اہلیہ کہنے لگی ’’محلے کی عورتیں کہتی ہیں آپ کے آنے سے قبل یہ مکان طویل عرصے سے خالی پڑا تھا۔ اور یہاں کوئی کرایہ دار نہیں آیا۔ کیا پتا کوئی خاص وجہ ہو۔‘‘ میری اہلیہ نے پھر طنزیہ انداز مین بچوں سے کہا ’’شکر ہے آپ کے ابو خود موجود تھے اور سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اب ان سے کہو کسی سیانے سے جھاڑ پھونک کر ائیں۔‘‘
میں اٹھا اور دروازہ پورا کھول کر اندر جھانکا، کمرہ بالکل خالی تھا۔ ہم نے اس کمرے میں کوئی سامان بھی نہیںرکھا تھا۔ میری حالت ’’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘‘ والی تھی۔ نصف گھنٹہ سوچ بچار کے بعد میں نے ایک ترکیب سوچی۔ دوبارہ کمرے کے اندر گیا اور دروازہ بند کرلیا۔ پھر بچوں سے کہا کہ دروازے کو باہر سے کنڈی لگادیں۔ بچوں نے کنڈی لگا دی۔ اب میں آسیب زدہ کمرے میںبند ہوچکا تھا۔ بچے سارا ماجرا بے یقینی اور تجسس سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے اندر سے دروازے کے دونوں پٹ مضبوطی سے پکڑ کر زور زور سے دھڑدھڑایا۔ باہر والی کنڈی خود بخود کھل کر نیچے آرہی اور تختے سے جھولنے لگی۔ اب میں ’’چڑیل‘‘ کو قابو کر چکا تھا۔ باہر آکر دونوں کنڈے بغور دیکھے۔ معلوم ہوا مسلسل استعمال سے لوہے کے کنڈے گھس گھس کر پھسلواں (Slippery) ہوچکے تھے۔ تختوں کی معمولی سی حرکت سے وہ پھسل کر اپنی جگہ چھوڑ دیتی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ مرغیاں کمرے کے اندر بند رہ کر باہر والی کنڈی کیسے کھول لیتی ہیں؟ اب بچے بھی شیر ہوگئے۔ ہم نے مرغیاں پکڑیں اور کمرے میں بند کر کے باہر سے کنڈی لگا دی۔ پھر برآمدے میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگے۔ کمرے کے اندر سے ٹک ٹک کی مہین آواز آنے لگی۔ کوئی تجربہ کار مرغی آہستہ آہستہ اپنی چونچ سے لگاتار دروازے کو ٹھوکر لگا رہی تھی۔ تختوں کے معمولی ارتعاش سے کنڈی پھسل کر اپنی جگہ چھوڑنے لگی۔ پانچ منٹ میں کنڈی کھل کر نیچے لٹک پڑی۔ یوں دونوں تختوں میں معمولی سے درزبن گئی۔ مرغی نے سر باہر نکالا اور گردن کے زور سے سوراخ چوڑا کر کے باہر آگئی۔ پھر یکے بعد دیگرے سب مرغیاں باہر آگئیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر میں واقعے کی وجہ پر توجہ نہ دیتا اور گھبراہٹ میں جھاڑ پھونک کا سہارا لیتا تو پورے محلے میں ہمارا مکان ’’آسیب زدہ‘‘ کی حیثیت سے مشہور ہو جاتا۔ پھر ہمیں بھی کسی نئے مکان کی تلاش میں سرگرداں ہونا پڑتا۔ جو جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔
یہ بھی ممکن تھا کہ بیوی کی ضد پر تنخواہ کا ایک حصہ نجومیوں، عاملوں، جادوگروں، گنڈے تعویذ دینے والے اور دم کرنے والے کے نام نہاد بزرگوں کی نذر ہو جاتا۔lll