ہائے! نربھیا ،کیسی ہو؟‘‘
’’اچھی ہوں،یہ بتائو تم کون ہو اور مجھے کیسے جانتی ہو؟‘‘
’’میں آصفہ ہوں۔بس دو تین ماہ پہلے ہی آئی ہوں،تمھارے بارے میں سن رکھا تھا اس لیے تم سے ملنا چاہ رہی تھی۔آج یہ خواہش پوری ہوگئی اور وہ۔۔وہ صائمہ کہاں ہے وہ نظر نہیں آرہی ہے۔چلو اسے ڈھونڈتے ہیں۔‘‘
’’ہائے صائمہ کیسی ہو؟‘‘
’’اچھی ہوں۔‘‘
’’کیا بات ہے تم کچھ بجھی بجھی سی لگ رہی ہو۔سناتھا کہ مرنے کے بعد سکون مل جاتا ہے مگر سکون تمھارے چہرے پر ہے نہ نربھیا کے۔۔۔۔‘‘
’’اور تم…تم جیسے بہت خوش ہو…ہے نا… دیکھودرد چھپانے کی چاہے جتنی کوشش کر ڈالو کامیاب نہیںہوسکتیں۔تمھارا چہرہ مظلومیت کی تصویر بنا ہوا ہے۔کیوں نہ ہم اپنا اپنا درد بیان کریں کہ دل کچھ ہلکا ہوجائے۔‘‘
’’آئیڈیا برا نہیں ہے پر سچی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنے گذرے ہوئے حادثے کو بھول نہیں پارہے ہیںاور جتنا ہم اس کے بارے میں سوچتے ہیں درد اور سوا ہوجاتا ہے۔‘‘
قلق اور دل کا سوا ہوگیا
دلاسا تمھارا بلا ہوگیا
’’پھر بھی چلو نربھیا سے شروع کرتے ہیں۔۔‘‘
’’ہاں نربھیا تم کیا سوچتی ہو۔۔‘‘
’’میں کیا بتائوں ۔۔جسم کا زخم تو بھر گیا مگر روح کا زخم ویسا ہی تازہ ہے ۔جن درندوں نے میرے ساتھ یہ حیوانیت کا کھیل کھیلا تھا اگر کہیں ان کو پا جائوں تو ان کو ایسا دردناک عذاب دوں کہ مرنے کے لیے تڑپیں مگر موت نہ آئے۔کبھی ایسا کروں کہ پتھروں سے ان کا سر کچل دوں،سر کو ٹھیک کروں پھر پتھروں سے ان کا سر پھاڑدوںاور ایسا ہی کرتی رہوں…کیوں کہ ان بے رحموں کے سینوں میں دل نہیں پتھر تھے۔ میں چیختی رہی چلاتی رہی مگر ان پتھر دلوں پر میری التجائوں کا کچھ بھی اثر نہیں ہوا۔کبھی جی چاہتا ہے کہ ان کی بوٹیاں نوچ لوں ان کے ٹکڑے کردوں ۔بوٹیوں کو جوڑ کر پھر زندہ کروں اور پھر ان کی بوٹی بوٹی الگ کردوں اور یہ عمل اس وقت تک دہراتی رہوں جب تک کہ میری بے چین روح کو قرار نہ آجائے۔‘‘
’’میرے سینے میں بھی انتقام کی آگ کچھ ایسے ہی سلگ رہی ہے ۔میرا جی چاہتا ہے کہ ان کو الٹا لٹکادوں اور ان کو ان کا پنا گوشت کھانے پرمجبور کردوں۔نہ کھائیں تو آگ کے کوڑے برسائوں مگر میں یہ فیصلہ اپنے رب پر چھوڑتی ہوں کہ جو چاہے ان کو سزا دے۔بس میں یہ درخواست کروں گی کہ وہ ہماری طرف سے ان سے پھر پور انتقام لے۔‘‘
’’میں بھی انتقام کی آگ میں جل بھن رہی ہوں۔ میرا بس نہیں چلتا کہ میں ان درندوں کو بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال کر اس میں بند کردوںاور وہ اس آگ میں کھولتے رہیں پکتے رہیں۔کبھی جی چاہتا ہے کہ کھولتے ہوئے پانی میں یا کھولتے ہوئے تیل کی کڑاہی میں ڈال دوں کہ ان کی کھال جھلس جائے اور ہڈیوں کا سرمہ بن جائے۔ مگر میں بھی فیصلہ اپنے رب پر چھوڑتی ہوں کہ وہ جس طرح چاہے انتقام لے۔مگر ہمارا انتقام اس وقت تک نامکمل رہے گا جب تک کہ اس سماج کو بھی دردناک سزانہ مل جائے جس سماج کا ہم حصہ تھے۔جس سماج میں ساری ہمدردیاں ظالموں کے ساتھ ہیں۔ جس سماج میںقانون بھی انہیںکا ساتھ دیتا ہے ۔اس سماج کو کٹھور سے کٹھور سزا ملنی چاہیے۔ جہاں ہم او ر ہماری جیسی لا تعداد بہنیں غیر محفوظ ہیں ۔ہماری طرح نہ جانے کتنی معصوم کلیاں ان کی درندگی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں مگر ان کی حوس نہیں بجھتی اور سماج اب تک تماشائی بنا ہوا ہے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ہم مرگئے ،ہمارا مرجانا ہی اچھا تھا ورنہ اگر ہم زندہ رہتے تو لاش بن کر جیتے ۔یہ سماج ہمیں کبھی قبول نہ کرتا۔اے خدا!اگر یہ سماج نہیں سدھرتا تو تو اپنے عذاب کا ایساکوڑابرسا کہ اس کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔ ‘‘lllھٹکارا دے ہی دے گا۔lll