زبان اللہ پاک کی نعمتوں میں ایک عظیم نعمت ہے۔ جس کے ذریعے انسان اپنے خیالات و جذبات، احساسات کی ترجمانی کرتا ہے ۔
انسانی جسم کا یہ چھوٹا سا عضو اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ اس سے انسانوں کے دل پر جادو کر کے انہیں جوڑا بھی جاسکتا ہے اورملے ہوئے دلوں کو زخمی کر کے توڑا بھی جاسکتا ہے۔ اسکا بے جا استعمال بسااوقات انسانوں کی جان لینے اور دینے کا باعث بن سکتا ہے ۔ اسی لئے قرآن پاک اور حدیث شریف میں زبان کے صحیح استعمال کی جگہ جگہ تاکید کی گئی ہے ۔ یہ ان دو چیزوں میں سے ایک اہم چیز ہے جن کے استعمال پر جنت کی ساری نعمتوں او ر جہنم کی ساری زحمتوں کا انحصار ہے ۔ آپ ؐ کے ایک فرمان کا مفہوم ہے:تم مجھے زبان کی ضمانت دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری)
زبان پر چندکہاوتیں بھی مشہور ہیں :
l اردو کی کہاوت ہے کہ زبان ہی پھانسی چڑھائے، زبان ہی سر کٹوائے۔
l چینی کہاوت ہے کہ منھ کا دہانا تمام مصیبتوں کا سر چشمہ ہے۔
l فارسی کہاوت ہے کہ زبان عمر کو چھوٹا کرتی ہے ،جبکہ زبان سر کی نگہبان بھی ہے ۔
l شامی کہاوت ہے کہ بڑی زبان والا آدمی قینچی کی مانند ہے ،جو چمڑی کے سوا کچھ نہیں کاٹتی۔
l اور ہمارے نبی محمدﷺ نے فرمایا ،انسان اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہے۔
زبان کے صحیح استعمال سے اللہ کے یہاں کسی بھی فرد کے درجات بلند ہو سکتے ہیں، مگر شرط صرف اتنی ہے کہ جو بات زبان سے ادا ہو وہ اللہ اورر سولؐ کے احکام کے مطابق ہو، اور اس کی مرضی کے خلاف نہ ہو۔روایتوں میں آتا ہے کہ ’’بندہ زبان سے ایک لفظ نکالتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے جنتی لکھ دیتے ہیں پھر بندہ زبان سے ایک لفظ نکالتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے جہنمی لکھ دیتے ہیں‘‘۔ یہ سب کچھ زبان ہی کی بدولت ہوتا ہے۔
زبان کے استعمال میں احتیاط کی پہلی کڑی ہماری اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے۔
گرد و پیش پر نظر ڈالی جائے تو یہ دیکھنے کوملتا ہے کہ ہماری محفلیں ،اجتماعات،طالبات و خواتین کی باہمی گفتگو ،شادی بیاہ ،دفتر،اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں ہماری زبان سے جانے انجانے میں کتنی ہی ایسی باتیں نکل جاتی ہیں جو دوسروں کی تحقیر کا سبب بن جاتی ہیں۔ دوستوں میں اپنی شان بڑھانے کی غرض سے اپنے ہی ساتھیوں کو برے القاب سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ اور زبان کی اس ہمیت اور عظمت کو فراموش کردیتا ہے کہ ایک انسان کافر سے مسلمان ہوتا ہے تو زبان ہی کی بدولت ہوتا ہے، ادھر کلمہ طیبہ ادا کیا ادھر جنت کے حقدار بنے۔ کیا بڑی عظمت ہے انسانی جسم کے اس چھوٹے سے عضو کی ۔حدیثوں میں آتا ہے کہ’’اخلاق کی تکمیل میں زبان کا دخل سب سے زیادہ ہے اور اچھے اخلاق کو ہی اسلام کہتے ہیں۔‘‘
اس زبان کے اثرات اور اس کی کاٹ اس وقت بہت شدید ہوتی ہے جب انسان غصہ اور جذبات میں اس کا استعمال کرتا ہے۔ ایسے میں انسان اگر زبان پر کنٹرول کھودے تو بڑی تباہی کا سبب بنتی ہے۔ دوست دشمن بن جاتے ہیں قریبی اجنبی بنجاتے ہیں، خاندان اور رشتے ناطے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اوراس سے آگے بڑھ کر ملکی سطح پر جنگیں ہوجاتی ہیں۔
دنیا میں جس قدر جنگیں ہوئیں ان کی تاریخ دیکھی جائے تو بظاہراکثریت میں زبان کا غلط استعمال نظر آئے گا، یقینا اس سے دوسری وجوہات کا انکار نہیں ہے ۔اس کی ایک بڑی مثال Cold Warہے جس نے مسلسل کئی برسوں تک دنیا سے امن و سکون غارت کر رکھا تھا۔اسی لئے انسانوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ غصے کے وقت کوئی بھی فیصلہ نہ کرو، غصے میں لئے گئے اکثر فیصلے مضر ہوتے ہیں، بلکہ بعض اوقات ہلاکت کا باعث بنتے ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ جس نے اپنے پر قابو پا لیا وہ سب سے بڑا بہادر ہے۔جس طرح دیمک لکڑیوں کو کھا جاتی ہے، اسی طرح غصہ انسان کی عقل کو کھا جاتا ہے ۔
انسان اپنی ساخت پر غور کرے تو دیکھے گا کہ جسم کے تمام حصوں میں صرف زبان ہی ایک ایسا حصہ ہے جس میں ہڈی نہیں۔ اس کی وجہ بھی عام ہے کہ
اللہ کو پسند نہیں سختی زبان میں
اس واسطے رکھی نہیں ہڈی زبان میں
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جھوٹ بولنا جن کا شیوہ ہوتا ہے، اور ایک جھوٹ سے کئی جھوٹ بنتے چلے جاتے ہیں، اور انسان کو اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ زبان کی لغزش میں گرفتار ہو چکا ہے، یہاں تک کہ یہی جھوٹ گناہ میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ کچھ لوگ محض لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ یا تمسخر کا سہارا لیتے ہیں، کچھ لوگ حق پسندی اور جذبہ اصلاح سے ایسے مغلوب ہوتے ہیں کہ موقع بے موقع دروغہ کی طرح لوگوں کو ٹوکنے پر اور بعض اوقات بے عزت کرنے پر تلے رہتے ہیں حالاں کہ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے سخت تنبیہ کی ہے اور ایسا کرنے والوں کو جہنم سے ڈرایا ہے۔
اگر کسی کو ٹوکنا ہو یا اس سے اختلاف کاا ظہار کرنا ہو تو نرمی اور دل سوزی کا پہلو نمایاں ہونا چاہئے ۔آپ ؐ نے فرمایا ’’جو شخص نرمی کی صفت سے محروم رہ گیا، وہ سارے خیر سے محروم کیا گیا‘‘۔(صحیح مسلم) اسی طرح کہا گیا کہ ’’صبح کے وقت ابن آدم کے سبھی اعضاء اس سے بڑی عاجزی کے ساتھ کہتے ہیں ،تو اللہ سے ڈر ہمارا تعلق و وابستگی تجھ سے ہی ہے، تو اگر سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے رہیں گے تو اگر ٹیڑھی ہو گئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے‘‘۔ (سنن ترمذی)
اس کے علاوہ چند باتیں اور ہیں، جن کا خیال رکھا جائے تو زبان کی ہلاک کر دینے والی آفات سے بچا جا سکتا ہے۔ بلا وجہ کی باتیں کرنا، ضرورت سے زیادہ بولنا، بے ہودہ قصوں کو بیان کرنا،بحث ومباحثہ کرنا، لڑائی جھگڑا کرنا،بد زبانی اور بڑوں سے بد تمیزی کرنا، نا حق چھوٹوں کو پریشان کرنا، دبی زبان میں باتیں کرنا ، گالیاں دینا، الزام تراشی کرنا، جھوٹ بولنا،لعنت اور نا شکری کے کلمات نکالنا جس میں خصوصاً خواتین گرفتار ہوتی ہیں ،وعدہ خلافی کرنا اِلایہ ـ کہ کوئی شرعی مجبوری ہو، دوسروں کو خوش کرنے کے لئے جھوٹی تعریف کرنا ، بلا وجہ سوالات کرنا، ان تمام برائیوں سے بچنے کے لئے صرف ایک مختصر مگر جامع حدیث پاک ہے، جو ہم سب کو دعوت فکر وعمل دیتی ہے کہ ’’اچھی اور میٹھی بات کہنا بھی صدقہ ہے‘‘۔ (صحیح بخاری) اوریہی وہ فارمولا ہے جو زبان کی تباہیوں اور آفتوںسے انسان کو عافیت اورخیر کی طرف لے جاتا ہے۔lll