آنکھیں

محمد انور حسین

آنکھیں ،انسانی ساخت اور جسم کا ایک اہم جزہیں جو انسان کو دیکھنے میں مدد کرتی ہیں۔بعض آنکھوں کو صرف دکھائی دیتا ہے اور بعض آنکھیں دیکھتی ہیں ۔دکھائی دینے اور دیکھنے میں بس ارادہ کافرق ہے۔ دکھائی دینے پر شریعت کا اطلاق بھی نہیں ہوتا جبکہ دیکھنے پر ہوتا ہے ۔ دکھائی دینےاوردیکھنے کے درمیان کی سرحدیں کب عبور ہوجاتی ہیں پتہ ہی نہیں چلتا ۔احساس اس وقت ہوتا ہے جب تلذذ انتہا کو پہنچ جاتا ہے ۔
آنکھوں کی قسمیں بے شمار ہیں : سر مئی،کتھئ، غزال، نیلی، کالی، نیم باز، جھیل جیسی، بھوری،نرگسی، گلابی وغیرہ وغیرہ ۔ بعض نے اس کی تقسیم بے غیرت، بے حیا، با حیا، شرمیلی،جھکی جھکی، شاطر، زہریلی، حسرت بھری ،شرابی،منتظر وغیرہ وغیرہ کی صورت میں بھی کی ہے۔
دماغ کو سوچ اور عمل کے دائرے فراہم کرنے کا اہم ذریعہ بھی آنکھیں ہیں ۔انسان جو دیکھتا ہے اس کے بارے میں سوچتا ہے اور عمل کی طرف راغب ہوتا ہے ۔خوشی اور خوف بھی آنکھوں سے پیدا ہوتا ہے اور ظاہر بھی ہوتا ہے۔ آنکھیں حسن پرور ہوتی ہیں اور ہوس پرور بھی۔ آنکھیں روتی بھی ہیں اور ہنستی بھی ہیں ۔آنکھوں کے حسن کا تعلق اس کے آنسووں سے بھی ہے ۔
جب درد کے آنسو گالوں پر پھیل جاتے ہیں تو نور اور جمال میں افزونی کا باعث ہوجاتے ہیں۔ وہ آنکھیں بے جان مانی جاتی ہیں جو آنسو نہیں بہاتیں ۔
بیوی کی آنکھیں ابتدا میں بہت خوبصورت لگتی ہیں۔لیکن خوبصورت آنکھوں سے غضبناک آنکھوں تک کا سفر کب پورا ہوجاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا ۔غضب بھی غضب کا کہ
نظر ملائے تو اپنی نظر جھکا لوں گا
نظر جھکاے تو خالی سلام کرلوں گا
ایک آنکھ وہ ہوتی ہے جو خواب دیکھتی ہے ۔ خواب دیکھنا اس کی فطرت ہوتی ہے ۔کچھ خواب کھلی آنکھوں سے تو کچھ بند آنکھوں سے دیکھے جاتے ہیں ۔ کچھ خواب وہ ہوتے ہیں جو لیڈر کی آنکھ دیکھتی ہے اور یہی خواب قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں ۔
آنکھ شاعروں کے لیے بھی اہم موضوع ہے ۔کسی نے آنکھ پر شاعری کی ہے تو کسی نے آنکھ کے دیکھے پر۔شاعر کے لیے آنکھ ایک جام ہے ۔کچھ لوگ اسے دیکھ کر پیتے ہیں اور کچھ پی کر دیکھتے ہیں ۔
آنکھ کا استعمال کسی پر نظر رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے اور نظر رکھتے رکھتے نظر اتنی تیز ہوجاتی ہے کہ اپنا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا جبکہ دوسروں کا کچھ بھی نہیں چھپتا ۔
آنکھیں بھی عجیب شئے ہیں کھلی ہوتی ہیں تب بھی دیکھتی ہیں اور بند کرنے پر اور قریب سے دیکھتی ہیں۔ آنکھوں کو دیدار کی قوت عشق عطا کرتا ہے ۔اسی لیے شاید کسی نے خوب کہا ہے کہ
الٹی ہی چال چلتے ہیں دیوان گان عشق
آنکھوں کو بند کرتے ہیں دیدار کے لیے
جب عشق خدا سے ہوجاے تو جنت کے نظارے نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں ۔آنکھیں اپنے مالک حقیقی کے دیدار کے لیے بیتاب ہوجاتی ہیں اور یہ آرزو کرنے لگتی ہیں کہ
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز پر
عورتیں اپنی آنکھوں کے ساتھ اپنی پلکوں کا بھی خوب خیال رکھتی ہیں تاکہ آنکھوں کی حفاظت ہوسکے۔ مرد کے لیے عورت کی آنکھیں ایک آگ کا دریا ہوتی ہیں جس میں ڈوب کے جانے کی آرزو ہر مرد کی ہوتی ہے۔ اسی لیے شاید مشتاق یوسفی نے لکھا تھا کہ
’’مرد کی آنکھ کا اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے ۔‘‘
لیکن حقیقت میں آنکھیں مرتی نہیں ہیں بلکہ دوبارہ زندہ کی جاتی ہیں۔اس میں نصیب والے تو وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی آنکھیں جنت کی حوروں،فردوس کے نظاروں، زمرد کے محلوں کی چمک سے چندھیاتی نہیں ہیں بلکہ دیدار الٰہی کی سکت ان میں پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن بد نصیب ہیں وہ آنکھیں جنھیں نہ حوروں کا جلوہ نصیب ہوتا ہے نہ فردوس کے نظارے ۔ بلکہ وہ اپنے مالک حقیقی سے آنکھ ملانے کے قابل بھی نہیں رہتیں۔ دوزخ کی ہولناکیوں سے ان کی آنکھیں پتھرا جاتی ہیں۔
اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَصَرِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں