دین کا صحیح شعور ہو یا نہ ہو، تاہم یہ حقیقت ہے کہ خواتین میں دینی احساس مردوں کے مقابلے کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ میلاد کی محفلیں، نعت خوانی کی مجلسیں، نذر و نیاز، تیجا، چالیسواں یہ سب دراصل خواتین ہی کے دم سے قائم ہیں اور مسلمان معاشروں میں ان کے چرچے خواتین ہی کی بدولت ہیں۔ یہی خواتین اگر دین کا صحیح شعور حاصل کرلیں، قرآن و سنت کی صحیح تعلیم سے واقف ہوجائیں، دین کے صحیح تصور اور صحیح فہم سے آشنا ہوجائیں اور انہیں واقعی یہ احساس ہوجائے کہ وہ بھی خیر امت کا حصہ ہیں، تو ہمارے گھروں کی فضا، خاندانوں کے حالات اور معاشرے کے طور طریق سب بدل جائیں۔
خدا کی کتاب کا یہ خطاب کہ ’’مسلمانو! تم خیر امت ہو، تمہیں لوگوں کی فلاح و ہدایت کی لیے اٹھایا گیا ہے، تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو، برائیوں سے روکتے ہو اور تم واقعی خدا پر ایمان رکھتے ہو‘‘ یقینا تمام مسلمانوں سے ہے۔ یہ خطاب صرف مردوں سے نہیں عورتوں سے بھی ہے۔ لازمی طور پر خواتین بھی اس حکم کی پابند ہیں۔ وہ بھی دین کی نمایندہ اور دین کی ترجمان ہیں اور دین کی دعوت و تبلیغ ان کا بھی دینی فریضہ ہے۔ بے شک ہر وہ خاتون جو خدا پر ایمان رکھتی ہے اس کا یہ فرض ہے کہ اپنے حلقہ کار میں دین اسلام کی تبلیغ کرے۔ اپنے محرم مردوں کو دین سمجھنے اور دین پر عمل کرنے کی تلقین کرے اور خواتین میں عمومی حیثیت سے دین کی اشاعت کے لیے جدوجہد کرے۔ اگر خواتین میں اپنے منصب کا یہ احساس پیدا ہوجائے تو گھروں میں اسلامی زندگی اور اسلامی روایات و تہذیب کا چرچا رہے، اسلامی تعلیمات تازہ رہیں، اور ہمارے گھر واقعی اسلام کے لیے فدا کار سپاہی تیار کرنے کا مدرسہ بن جائیں۔
مغربی تہذیب کے زبردست غلبے نے اور پھر موجودہ تعلیم و تربیت نے دین سے دوری اور بے گانگی کی عام فضا پیدا کردی ہے۔ اس بے دینی اور جاہلیت کا مقابلہ اگر کیا جاسکتا ہے تو صرف اس طرح کہ ہم اپنے گھروں کی طرف توجہ دیں، گھر میں ایسا ماحول پیدا کریں کہ ہماری خواتین دین کو سمجھنے، دین کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے، دین کی روشنی میں اپنے گھر کے ماحول کو سدھارنے اور دین ہی کے مطابق بچوں کی تربیت اور پرورش کرنے کو اپنی زندگی کا سب سے عزیز مقصد سمجھنے لگیں۔ گھروں میں دینی فضا قائم رکھنے کا اہتمام اور بچوں کو دین کے مطابق اٹھانے کا اہم کام خواتین ہی انجام دے سکتی ہیں۔
دورِ اوّل میں جب اسلامی تعلیمات کا چرچا تھا، خواتین شروع ہی سے بچوں میں اسلام کی رغبت پیدا کر دیتی تھیں۔ بچے دین کی معلومات اور دینی عبادات میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن پاک پڑھنے پڑھانے کا عام چرچا تھا۔ بچوں کو عام طور پر دعائیں یاد ہوتی تھیں، سوتے وقت کی دعا، اٹھتے وقت کی دعا، مسجد میں داخل ہوتے وقت کی دعا، مسجد سے نکلتے وقت کی دعا، کھانا شروع کرتے وقت کی دعا، کھانے سے فارغ ہونے کے بعد کی دعا، پھل کھاتے وقت کی دعا، نیا لباس پہنتے وقت کی دعا، آئینہ دیکھتے وقت کی دعا، غرض بچوں کو یہ دعائیں اس طرح یاد ہوتی تھیں کہ وہ شوق اور دل بستگی کے ساتھ ان کو رٹتے رہتے تھے اور یہ معمولی بات نہ تھی۔ دراصل ان سادہ لوح بچوں کے پاک ذہنوں میں اس وقت جو نقوش ثبت ہوجاتے تھے ان کی آیندہ زندگی انھی نقوش کی آئینہ دار ہوتی تھی اور یہ زندگیاں اسی لیے اسلام کا پیکر ہوتی تھیں۔
ماں کی محبت بھری گود میں بیٹھ کر جو کچھ وہ رٹ لیا کرتے تھے، پھر زندگی بھر اسے کبھی نہ بھولتے تھے۔ انہی بنیادوں پر ان کی زندگیاں استوار ہوتی تھیں، پھر نہ انگلستان کی فضا انہیں بدل سکتی تھی، نہ زمستانی ہوائیں ان پر اثر کرتی تھیں، اور نہ کوئی خوف او رلالچ ان پر اثر انداز ہوسکتا تھا۔ وہ جہاں رہتے تھے دین کے درد مند اور دین کے داعی اور حامی بن کر رہتے تھے۔
تاریخ اسلامی کی جن عظیم ہستیوں پر ہم فخر کرتے ہیں اور ان کے کارناموں کو یاد کر کے سر دھنتے ہیں وہ در اصل کارنامے ہیں ان گودوں کے جن میں یہ عظیم ہستیاں پل کر جوان ہوئی تھیں۔ اگر آپ اپنی تاریخ دہرانا چاہتے ہیں اور اپنی عظمت رفتہ کو آواز دینا چاہتے ہیں، تو ضرورت ہے کہ آپ ایسی گودیں مہیا کرنے کے لیے کوشش و کاوش کریں۔ اگر ہم واقعی یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ بنے اور ہمارے سماج میں اسلامی اقدار و روایات کا چرچا ہو، ہر طرف اسلامی روایات اور تعلیمات کا تذکرہ ہو، تو اس کا کامیاب طریقہ یہی ہے کہ ہم اپنی عورتوں میں دین کا شعور پیدا کریں۔ گھر کے ماحول کو دین کے لیے سازگار بنائیں اور اپنی خواتین کو متوجہ کریں کہ وہ اپنے گھروں کو دین کا مدرسہ بنائیں۔ اگر ہمارے گھر دین کا مدرسہ بن جائیں تو پھر باہر کا ماحول ہمارے گھروں میں ہرگز کوئی انقلاب لانے کی جرأت نہ کرسکے گا، بلکہ گھر کی یہ فضائیں باہر کے ماحول میں خوش گوار انقلاب لائیں گی اور اس انقلاب کا مقابلہ آسان نہ ہوگا۔
گھر کے ماحول پرسب سے زیادہ جو چیز اثر انداز ہوتی ہے، وہ ایک نیک دل، وفا شعار، درد مند، عالی حوصلہ اور دین دارخاتون کا اعلیٰ کردار اور پاکیزہ سیرت ہی ہوتی ہے۔ خواتین کی مدد اور تعاون کے بغیر نہ گھر کے ماحول میں سدھار آسکتا ہے اور نہ باہر کی فضا میں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ کوئی ایسا خوش گوار پاکیزہ انقلاب جس کی جڑیں بہت مضبوط ہوں اور جو واقعی انسانوں کے قلب و دماغ کو بدل سکے، اسی وقت لایا جاسکتا ہے جب خواتین اس کی داعی بن جائیں اور وہ اپنے شب و روز اس کے لیے وقف کردیں۔
گھروں میں اسلامی تعلیم کی آسان کتابیں ضرور رکھیے۔ ان کے پڑھنے پڑھانے کا اہتمام کیجیے۔ قرآن پاک کی تفسیر و ترجمے، حدیث ِ رسولؐ کے ترجمے، دعاؤں کی کتابیں اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے متعلق کتابیں ضرور گھر والوں کے لیے فراہم کیجیے۔ پھر اپنے اوقات میں سے کچھ وقت ضرور فارغ کیجیے کہ گھر کے سارے افراد بیٹھ کر اجتماعی طور پر کچھ مطالعہ کریں، غور و فکر کریں، تبادلۂ خیال کریں، اور پھر یہ کوشش بھی کریں کہ دین کا جو علم و شعور حاصل ہوتا جائے اس کے مطابق دھیرے دھیرے زندگیوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے۔ تھوڑے ہی عرصے میں آپ دیکھیں گے کہ آپ کے گھر کی فضا بدلی ہوئی ہے اور یقین کیجیے کہ اس سے بڑی نعمت اور کوئی نہیں ہے کہ آپ کے گھر اسلامی زندگی کا حسین نمونہ بن جائیں اور آپ کے گھر والے اسلام کے داعی اور نمایندہ بن کر زندگی گزارنے لگیں۔lll