اپنی ذات کی تعمیر اورسیرتِ رسولؐ

محمد عاطف سلیم

آپ کا ایک دوست جب کسی مجلس میں بات کرتا ہے تو اس کی بات سب سنتے ہیں اور کان کھول کر بیٹھتے ہیں… مگر جب آپ کسی مجلس میں بات کرتے ہیں تو لوگ اٹھ کر چلے جاتے ہیں… یا ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ وجہ کیا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ آپ کے پاس علم بھی زیادہ ہو اور اونچی ڈگریاں بھی ہوں تو پھر کیوں آپ کے دوست نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور آپ نہ کر سکے۔ آپ عاجز رہے۔

ایک باپ گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کے بیٹے اندر سے دوڑ کر آتے ہیں… خوشی سے ملتے ہیں، مگر دوسرا باپ اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کو خوش آمدید کہنے کے لیے اندر سے کوئی نہیں آتا… نہ اس کی طرف کوئی دیکھتا ہے۔ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں… ایسا کیوں ہے؟… کیا دونوں باپ نہیں ہیں؟

اس قسم کی بہت سی مثالیں آپ کو روز دیکھنے کو ملیں گی… بعض اساتذہ شکوہ کرتے ہیں کہ طلبہ ہماری باتیں توجہ سے نہیں سنتے، ہم سے تعلق نہیں رکھتے… بہت سے والدین شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے بچے ہمارے ساتھ بیٹھ کر باتیں نہیں کرتے، ہمارے ساتھ تبادلہ خیال نہیں کرتے اور اکثرلوگ پریشانی اور مایوسی کا شکار ہیں اور وہ یہ گلہ کرتے پھرتے ہیں کہ لوگ ہم سے محبت نہیں کرتے… ہمیں نوکری نہیں ملتی، ہم ناکام ہیں، آخر ایسا کیوں؟

اس لیے کہ ہم نے نفسیات کے ان اصولوں کو سیکھا ہی نہیں جن کے ذریعے ہم لوگوں کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کر سکیں اور ان کے دلوں کو اپنے ہاتھ میں لے سکیں۔ آئیے! ہم آپ کو اپنے رول ماڈل، انسانی تاریخ کے عظیم ترین ماہر نفسیات، سرکارِ دو عالم، خاتم الانبیاء حضور اکرمؐ کی سیرت مبارکہ کی روشنی میں ان اصولوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ جن کو ہم اتباع سنت کی نیت سے اپنا کر اپنی زندگی کو پْر لطف بنا سکتے ہیں… لوگوں کے دلوں میں گھر کر سکتے ہیں۔

سرور کائناتؐ انسانی معاملات میں اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے اور ہر انسان کو یہ احساس دلاتے تھے کہ اس کا مسئلہ خود آپؐ کا مسئلہ ہے اور اس کی پریشانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی ہے، اسی طرح اچھی چیزوں اور بہترین صفات و اعمال پر توجہ دیتے تھے اور یہ احساس دلاتے کہ دوسروں کی خوشی خود آپؐ کی خوشی ہے… دوسروں پر توجہ دیتے اوران کی تحسین فرماتے تھے۔

جب کوئی شخص نبی علیہ السلام سے مصافحہ کرتا تھا تو آپؐ اس وقت تک اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے جب تک کہ وہ خود اپنا ہاتھ الگ نہ کر لیتا۔ جب کوئی آپؐ سے بات کرتا تھا تو آپؐ پوری توجہ سے اس کی بات سنتے اور چہرہ مبارک کے ساتھ ساتھ باقی تمام جسم بھی اس کی طرف موڑ لیتے اور خاموش رہ کر اس کی پوری بات سنتے تھے۔

دنیوی زندگی میں ہم بہت سے کام ایسے سرانجام دیتے ہیں جو اپنی ذات کے لیے نہیں ہوتے بلکہ دوسروں کے لیے ہوتے ہیں۔ مثلاً جب آپ کو کسی شادی کی دعوت پر بلایا جاتا ہے تو آپ اچھا اور خوشنما لباس پہن کر جاتے ہیں۔ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوںاور آپ کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کریں۔

جب آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ آپ کے خوشنما لباس کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور تعریف کر رہے ہیں تو آپ خوش ہوتے ہیں۔ اسی طرح آپ مہمان خانے (بیٹھک ڈرائنگ روم) کو خوب صورت بناتے ہیں، اس کو اچھے انداز سے سجاتے ہیں۔ یہ بھی آپ دوسروں کے لیے ہی کرتے ہیں کہ مہمان اچھی جگہ پر بیٹھے اور دیکھ کر خوش ہو جائے۔

یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی شخص ہمارے لباس یا گھر کی سجاوٹ یا ہمارے کھانے کی تعریف کرتا ہے تو ہمارا دل خوش ہوتا ہے۔

رسول اللہؐ نے ایک اصول بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’لوگوں سے ویسے ہی پیش آئو جیسا تم چاہتے ہو کہ وہ تمھارے ساتھ پیش آئیں۔‘‘ کیسی اچھی نصیحت ہے۔

لہٰذا جب آپ اپنے کسی قریبی دوست کو خوبصورت یا نئے لباس میں ملبوس دیکھیں تو اس کی طرف ضرور توجہ دیں اور تعریف کریں، اچھے جملے استعمال کریں ’’ماشاء اللہ! کیسا خوشنما و نفیس لباس ہے! آپ پر سچ مچ جچ رہا ہے!‘‘ اگر کسی دن کوئی شخص آپ سے ملنے آتا ہے، اس کے کپڑوں سے آپ کو عطر کی خوشبو آتی ہے تو آپ اس پر توجہ دیں اس کی تعریف کریں، اس پر اپنے اچھے تاثرات ظاہر کریں، کیونکہ اس نے یہ خوشبو آپ کی خاطر لگائی ہے، بار بار کہیں ’’کتنی اچھی خوشبو لگائی ہے! خوشبو کے معاملے میں آپ کا ذوق کتنا اچھا ہے!‘‘

آپ اپنی بہن کے گھر گئے، اس کو دیکھا کہ اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہے، ان سے محبت و شفقت سے پیش آتی ہے،توتوجہ دیں، تعریف کریں۔کسی کی گاڑی میں بیٹھیں، اس کی گاڑی صاف ہو یا نئی ہو تو اس کی تعریف کریں، ڈرائیونگ اچھی کر رہا ہو تو بھی تعریف کریں۔ غرض یہ کہ آپ کو کسی کی چیز اچھی لگی، پسند آئی تو اس پسندیدگی کا اظہار کریں، خوشی کا اظہار کریں، توجہ دیں، البتہ یہ دھیان رکھیں کہ اتنی بھی تعریف نہ کریں کہ وہ سمجھے کہ آپ اس کا مذاق اْڑارہے ہیں۔

شاید آپ کہیں کہ یہ تو بڑی عام سی باتیں ہیں… جی بالکل! یہ معمولی باتیں ہیں مگر ان کا بہت بڑا اثر پڑتا ہے۔ خاص طور سے جب دوسرے آپ سے ان باتوں کی توقع رکھتے ہیں یا منتظر ہوتے ہیں۔ مثلاً آپ نے دولھا کو شادی کے ایک ہفتے بعد دیکھا، یا ایک شخص نے بڑی ڈگری حاصل کی یا ایک شخص نئے گھر میں منتقل ہوا، یہ سب بلاشک آپ کی توجہ و تعریف کے منتظر ہوں گے تو آپ ویسا بن کر دکھائیں جیسا وہ چاہتے ہیں۔

حضورؐ اس مہارت کو استعمال فرماتے تھے بلکہ اس سے بھی اچھے اخلاق اور اچھی مہارت رکھتے تھے۔ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد، ایک مہاجر صحابی حضرت عبدالرحمن نے تجارت کے ذریعے کچھ پیسے کمائے اور وہاں ایک انصاری عورت سے شادی کر لی۔ ایک دن وہ حضورؐ کے پاس آئے، ظاہر ہے ابھی نئے دولھا تھے۔

بہت اچھی خوشبو لگائی تھی، جیسے ہی آپؐ نے ان کو دیکھا تو ان کی خوشبو اور اچھے لباس کی طرف توجہ فرمائی۔ فرمایا: ’’ہاں عبدالرحمان؟ کیا بات ہے؟‘‘ عبدالرحمن خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ یارسول اللہؐ! میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کر لی ہے۔‘‘ فرمایا: ’’اس کو مہر میں کیا دیا؟‘‘ انھوں نے کہا کہ ایک گٹھلی برابر سونا دیا ہے۔‘‘ آپؐ نے ان کی خوشی مزید بڑھانے کے لیے فرمایا: ’’اب اس خوشی میں ایک دعوت کرو، خواہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ اور ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔

حضورؐ ہر چیز پر توجہ فرماتے حتیٰ کہ ضعیف اور مسکین لوگوں پر بھی۔ اور ان کو ان کی قدر و قیمت کا شعور و احساس دلاتے تھے۔ ان کو محسوس کرواتے کہ آپ ان کی طرف توجہ فرما رہے ہیں اور وہ آپؐ کے نزدیک اہمیت رکھتے ہیں۔ اور جو بھی آپؐ کی خدمت کے لیے کام کرتے، چاہے جتنا بھی چھوٹا ہو اس کے کام کی قدر کرتے اور جب کبھی وہ شخص کچھ دن نظر نہ آتا تو آپؐ اس کا اچھے الفاظ میں ذکر فرماتے تھے۔ ان کے اعمال کی تعریف کر کے دوسروں کو بھی ان کے جیسے کام کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔

مدینہ منورہ میں ایک حبشی عورت تھی جو بڑی نیک اورصالحہ تھی۔ وہ مسجد کی صفائی کرتی تھی۔ آپؐ اکثر اسے دیکھتے تھے کہ بڑے شوق اور لگن سے اپنے کام میں مصروف ہوتی۔ یہ دیکھ کر اس کی نیکی پر خوش ہوتے تھے۔ ایک بار کئی دن گزر گئے کہ وہ عورت آپ کو نظر نہ آئی تو آپؐ نے صحابہ سے دریافت کیا۔ صحابہ نے عرض کیا کہ: یارسول اللہؐ اس کا تو انتقال ہو گیا۔‘‘ آپ صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’تم نے مجھے بتایا نہیں، دراصل ان حضرات نے اس کو اتنی اہمیت نہیں دی تھی… ان کی نظر میں وہ اتنی اہم نہیں تھی کہ اس کے انتقال کی خبر رسول اللہؐ کو دی جاتی۔ لہٰذا انھوں نے جواب میں اتنا کہا کہ ’’اس کا انتقال رات کو ہوا تھا، ہم نے مناسب نہیں سمجھا کہ آپ کو جگا یا جائے۔‘‘

آپؐ کا دل چاہا کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے، کیونکہ اس کا کام اگرچہ لوگوں کی نظر میں بہت معمولی اور حقیر تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا تھا۔ لیکن سوال یہ تھا کہ اب کیسے نماز جنازہ پڑھی جائے جب کہ وہ دفن بھی کی جا چکی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’مجھے اس کی قبر تک لے چلو۔‘‘ صحابہ کرام آپؐ کو اس کی قبر پر لے آئے۔ آپؐ نے وہیں اس کی نماز جنازہ پڑھ لی۔

(یہ عام حکم نہیں ہے۔ دفن کے بعد قبر پر نماز پڑھنا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان قبروں میں مرحومین پر اندھیرا چھایا رہتا ہے، پھر جب میں ان کی نماز جنازہ پڑھ کر دعا کر لیتا ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو منور فرما دیتا ہے۔

ذرا غور کیجیے… جن لوگوں نے دیکھا ہو گا کہ آپ صلی للہ اللہ علیہ ولسم نے ایک ضعیف عورت کے اتنے معمولی کام کو اتنی اہمیت دی ہے تو ان کے دل و دماغ پر کیا اثر ہوا ہو گا۔ یقینا ان کے دل میں بھی ایسے یا اس سے بڑے نیکی کے کام کرنے کا جوش و جذبہ پیدا ہوا ہوگا۔

آخر میں آپ کے کان میں ایک بات کہوں؟ دراصل ہم لوگ ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں اکثر ایسے امور (مہارت اور نفسیاتی اصول) کا خیال نہیں رکھا جاتا اور انسانی تعلقات میں دوسروں کے احساسات کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔اچھی چیزوں پر توجہ نہیں دی جاتی، تعریف نہیں کی جاتی۔

لہٰذا آپ اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کا جوش و جذبہ اس وقت ٹھنڈا نہ پڑ جائے جب آپ معاشرے کے بعض روکھے اور سخت مزاج لوگوں کو دیکھیں کہ آپ نے ان کی کسی بات یا کسی چیز پر توجہ دی اور تعریف کی، لیکن ان پر اس تعریف کا کوئی اثر نہیں ہوا اْلٹا کچھ کڑوے کسیلے الفاظ میں جواب ملا… اور ایسے لہجے میں بات سننی پڑی جس سے آپ کو پریشانی ہو تو آپ ان کی وجہ سے اپنی اچھی مہارت کو ختم نہ کر دینا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں