بہت سی مشکلات ایسی ہیں جن کی وجہ سے دو بھائیوں کی عداوت ایک دو سال ، کئی برس یا ساری عمر جاری رھتی ہے۔ اس مسئلے کا آسان ترین حل یہ ہے کہ ایک بھائی دوسرے سے کہہ دے: ’’غلطی میری تھی، میں معذرت کرتا ہوں۔‘‘
نفرت کی چنگاریاں بجھانے میں جلدی کیجئے، قبل اس سے کہ ان چنگاریوں سے آگ بھڑک اٹھے اور سب کچھ خاکستر کردے۔
’’مجھے افسوس ہے۔‘‘
’’قصور میرا تھا‘‘
’’آپ کا دل صاف ہے۔‘‘
ہم انکساری اور تواضع کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں سے ایسے الفاط کہنا سیکھ جائیں تو زندگی کتنی آسان اور خوشگوار ہوجائے!
دو جلیل القدر صحابہؓ ابوذر اور بلالؓ کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوگیا۔ ابوذرؓ نے غصے میں بلالؓ کو ابن السوداء (کالی کلوٹی حبشی عورت کا بیٹا) کہہ دیا۔ بلالؓ نے اس کی شکایت رسول اللہؐ سے کی۔ آپ نے ابوذرؓ کو بلایا اور دریافت کیا:
’’کیا آپ نے بلالؓ کو گالی دی ہے؟‘‘
ابو ذرؓ نے کہا: ’’جی ہاں، دی ہے۔‘‘ فرمایا:
’’تو کیا آپ نے اس کی والدہ کا ذکر کیا ہے؟‘‘
کہا: ’’یا رسول اللہؐ! جو شخص لوگوں سے گالم گلوچ کرتا ہے، اس کے والدین کا ذکر کیا ہی جاتا ہے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آپ میں جاہلیت ہے۔‘‘
ابوذرؓ کا چہرہ پھیکا پڑ گیا، بولے: ’’کیا بڑھاپے کی اس عمر میں بھی؟‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘
پھر رسول ا للہﷺ نے انہیں ماتحتوں سے برتاؤ کا طریقہ سمجھاتے ہوئے فرمایا:
’’جنہیں اللہ نے تمہارے ماتحت کیا ہے وہ تمہارے بھائی ہیں۔ جس کسی کا بھائی اس کا ماتحت ہو وہ اسے اپنا کھانا کھلائے اور اپنا لباس پہنائے، اس کے بس سے باہر کام کو نہ کہے، اگر کوئی چارہ نہ ہو تو ایسے کامیں اس کی مدد کرے۔‘‘
یہ سن کر ابوذرؓ جاکر بلالؓ سے ملے، معذرت کی اور بلالؓ کے سامنے زمین پر بیٹھ کر اپنا گال ننگے فرش پر رکھا اور کہا: ’’بلالؓ! اپنا پاؤں میرے گال پر رکھ دو۔‘‘
صحابۂ کرامؓ کا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تربیت کے باعث یہی مزاج تھا۔ وہ نفرت کی آگ بھڑکنے سے پہلے ہی اسے بجھانے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر بالفرض آگ بھڑک اٹھتی تو اسے مزید پھیلنے سے روکتے۔
ابوبکرؓ اور عمرؓ کے درمیان ذرا تلخ کلامی ہوگئی۔ عمرؓ ناراض ہوکر چل دیے۔ابوبکرؓ کو ندامت ہوئی اور اس خدشے کے پیش نظر کہ معاملہ بڑھ جائے گا، عمرؓ کے پیچھے پیچھے گئے اور کہتے رہے: ’’عمرؓ! مجھے معاف کردو۔‘‘
عمرؓ نے مڑ کر نہیں دیکھا ابوبکرؓ معذرت کرتے بے چارے پیچھے پیچھے جاتے رہے۔ عمرؓ گھر پہنچے اور اندر جاکر دروازہ بند کرلیا۔ ابو بکرؓ رسول اللہؐ کی طرف گئے۔ آپ نے انہیں دور سے آتے دیکھا، چہرے کا رنگ بدلا ہوا پایا تو فرمایا:
’’لو، آپ کا یہ صاحب تو کسی مشکل میں گرفتار ہے۔‘‘
ابو بکرؓ قریب آئے اور خاموشی سے بیٹھ گئے۔ چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ عمرؓ کو بھی اپنے رویے پر ندامت کا احساس ہوا۔ ان لوگوں کے دل روشن تھے۔
عمر بھی گھر سے نکلے اور کشاں کشاں رسول اللہؐ کی مجلس میں چلے آئے۔ سلام کیا اور آپ کی ایک جانب بیٹھ گئے۔ ساری بات بتائی کہ کیسے انہوں نے ابوبکرؓ سے بے رخی برتی اور ان کی معذرت قبول نہ کی۔ رسول اللہؐ کو غصہ آگیا۔ ابوبکرؓ نے آپ کے چہرے پر ناراضی کے آثار دیکھے تو کہنے لگے:
’’یا رسول اللہؐ! واللہ! میرا ہی قصور تھا۔ غلطی میری ہی تھی۔‘‘
یوں وہ عمرؓ کا دفاع کرنے لگے۔
آپؐ نے فرمایا:
’’کیا آپ میری خاطر میرے صاحب کا پیچھا چھوڑتے ہیں؟ میںنے کہا تھا: ’’اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ آپ لوگوں نے جواباً کہا تھا: ’’تم جھوٹ کہتے ہو۔‘‘ اور ابوبکرؓ نے کہا تھا: ’’آپ سچ کہتے ہیں۔‘‘
غلطی کا اعتراف کرنے سے آدمی چھوٹا نہیں ہو جاتا۔ انکسار اور تواضع کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسانیت ہٹ دھرمی کے بجائے غلطی کا اعتراف کرنا سیکھے۔ حدیث میں آیا ہے: ’’جو شخص اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ اسے بلند کر دیتا ہے۔‘‘
’’اپنی غلطی کا اعتراف کرنا بڑا پن ہے۔‘‘lll